کیا تم مسلم ہو؟ شوبز کی خواتین سے سوال


’کیا تم مسلم ہو؟ ‘ یہ اور اس جیسے دیگر تنقیدی اور لعن طعن پر مبنی سوالات کا سامنا شوبز کی خواتین کو اکثر و بیشتر کرنا پڑتا ہے۔ بالخصوص لباس کے حوالے سے بے غیرتی اور بے حیائی کے طعنے تو عام ہیں۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر، اور یوٹیوب پر اکثر ایسے ریمارکس پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ماہرہ خان کی سگریٹ نوشی کا معاملہ ہو؛ اقراء عزیز کی بیرونِ ملک ساحل ِ سمندر پر بازوؤں کے بغیر لباس میں تصاویر؛ صبا قمر کا کچھ ہفتے قبل ہونیوالا بیباکانہ فوٹوشوٹ؛ یا ہم ایوارڈز کی حالیہ تقریب میں ماوریٰ حسین کا جالی دار لباس، نام نہاد پرستاروں اور مہذب عوام کو نہایت تہذیب یافتہ تنقید کا موقع مل جاتا ہے۔ اس تنقید میں اداکاراؤں اور ماڈلز کے کردار اور خاندان پر انگشت نمائی سے لے کر مذہبی عقائد اور ایمان تک کی تفتیش کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا۔ اور اگر کوئی پرستار غلطی سے ایسی کسی ماڈل یا اداکارہ کی حمایت کر دے تو اسے بھی نشانے پر رکھ لیا جاتا ہے۔

چند ماہ پہلے سپر ماڈل مہرین سید کے فیس بک پیج پر بھی کسی اپنے تئیں ’اسلا م کی شیدائی’ بنے شخص نے ایسا ہی کومنٹ کیا تھا۔ ’کیا آپ مسلم ہیں؟ ذرا اپنا لباس تو دیکھیں۔ آپ کو شرم آنی چاہیے۔ اللہ تعالیٰ بے حیائی اور بے پردگی کرنیوالی عورتوں سے سخت ناراض ہوتے ہیں۔ ’ ٹھیک ہے، اللہ تعالیٰ بے حیائی اور بے پردگی کرنیوالوں سے ضرور ناراض ہوتے ہوں گے لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ آپ لوگوں کو حیا اور پردے کی تبلیغ کرنا شروع کر دیں، وہ بھی زبردستی اور ڈنڈے کے زور پر۔

اس معاملے میں پہلا سوال تو یہ اٹھتا ہے کہ جن اداکاراؤں کی بے حیائی لوگوں کے لیے اتنا ہی باعث ِ تکلیف ہے، انہیں یا ان کی تصاویر پوسٹ کرنے والے اکاؤنٹس کو فالو کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے؟ جو پارسا اور باحیا ہیں، وہ ایسے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو فالو کر کے اور خواتین کی بے حیائی دیکھ دیکھ کر کیوں اپنا خون جلاتے ہیں؟ اور اگر فالو کیے بغیر بھی وہ آپ کی نیوز فیڈ میں ظاہر ہوں تو انہیں unfollow کرنے کا آپشن موجود ہوتا ہے۔ سادہ سی بات!

دوسرا سوال: دورِ حاضر میں جبکہ ہر شخص اپنے مسائل میں الجھا ہے، کسی کے لباس یا فوٹو شوٹ کی ٹینشن لینے کا جواز کیا ہے آخر؟ جو لوگ اپنے مسائل حل کرنے کی صلاحیت سے محروم ہیں، وہ شوبز کی خواتین کو زبردستی شرم و حیا کا درس دینے پر تلے ہوئے ہیں۔ (اور یہ خواتین ایسی نامعقول ہیں کہ ہر طرح کی گالیوں اور تنقید کے باوجود کوئی اثر نہیں لیتیں۔)

تیسرا سوال: جب آپ ہی نے شوبز کی خواتین کو شرم و حیا سے عاری قرار دے دیا تو پھر اسلامیات اور اخلاقیات کا درس دینے میں کیوں اپنا وقت ضائع کرتے ہیں؟ وہ جو کر رہی ہیں، کرنے دیجیے۔ ہر کسی کو اپنے نفع نقصان اور نیکی بدی کا علم ہے۔ آپ کسی کے قول و فعل کے ذمہ دار نہیں، اس لیے اپنی آخرت کی فکر کیجئے، نہ کہ دوسروں کی۔

چوتھا سوال: ماڈلز اور اداکارائیں کیا لوگوں کی مرضی کے مطابق زندگی گذاریں گی؟ ماڈلنگ اور اداکاری کے شعبے میں چادر، برقع اور نقاب پہن کر تو کام نہیں کیا جا سکتا۔ اس شعبے میں کئی خواتین نے نہایت باوقار طریقے سے بھی کام کیا ہے لیکن ہر کسی کے اپنے اپنے خیالات ہیں۔ کسی ماڈل یا اداکارہ کو مخصوص طرزِ لباس یا اخلاقیات کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔

پانچواں سوال: کیا غیرمہذبانہ تنقید سے افرادِ معاشرہ کی اصلاح ممکن ہے؟ اگر ہاں تو معاشرے میں فحاشی، اور اس جیسی دیگر قباحتیں تاحال کیوں موجود ہیں؟

چھٹا سوال: کیا شرم و حیا اور اخلاقیات کا تعلق صرف عورت کی ذات ہے؟ کیا مرد حضرات اس سے مبرا ہیں؟ کیا تنقید کرنیوالوں میں سے کسی نے نامناسب لباس پر مرد اداکاروں کو بھی اسی طرح جی بھر کے گالیوں سے نوازا ہے؟

یہ اور ایسے ہی اور سوالات میرے ذہن میں اٹھتے ہیں لیکن جواب کون دے؟ تسلی بخش اور غیر متعصابانہ جواب! جب بھی انسٹاگرام چیک کرتی ہوں، اکثر پوسٹس پر اسی طرح کے بیہودہ اور واہیات ریمارکس پڑھنے کو ملتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں لباس کو ذاتی انتخاب کا معاملہ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے کسی معروف شخصیت بالخصوص شوبز کی خواتین پر ناجائز تنقید نہیں کی جاتی۔ یہ تہذیب ہم کب سیکھیں گے؟
۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).