26 واں خواب نامہ۔۔۔ دیرینہ خواب


13  مئی 2018
درویش کا تھکی ہوئی رابعہ کو آداب
درویش کو بدھا کا قول یاد آ رہا ہے کہ مسافت کو میلوں سے نہیں مسافر کی تھکاوٹ سے ناپنا چاہیے۔
درویش کو آہستہ آہستہ اندازہ ہو رہا ہے کہ رابعہ آدھی رات کو درویش کا خط پڑھتی ہے اور پھر لاشعور کی رو میں بہہ کر خط کا جواب لکھتی ہے۔ یہ درویش کی خوش بختی ہے کہ وہ ایسے سچے اور کھرے خط وصول کرتا ہے جن میں نہ تصنع ہوتی ہے نہ بناوٹ نہ ریاکاری نہ تکلف۔ رابعہ کے الفاظ ذہن‘دل اور روح کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں اور کاغذ پر بکھر جاتے ہیں۔

درویش کو خدشہ تھا کہ چونکہ ماہِ رمضان ہے اور رابعہ کے شانوں پر خاندان اور مہمانوں کی ذمہ داریاں ہیں شاید وہ رمضان میں خطوط نہ لکھ سکے لیکن اسے حیرت ہوئی ہے کہ رابعہ نے متواتر خط لکھے ہیں۔ آج مئی کا آخری دن ہے۔ درویش کو اس بات کی بھی خوش گوار حیرت ہوئی ہے کہ درویش اور رابعہ نے مل کر ایک مہینے میں بیس سے زیادہ خط‘ سو سے زیادہ صفحے اور بیس ہزار سے زیادہ الفاظ لکھے ہیں۔ایک ماہ تک متواتر ایسے ادبی نامے لکھتے رہنا ادبی کرامت سے کم نہیں۔ یہ ایک دریا ہے جو بہتا چلا رہا ہے۔

درویش تخلیق کے عمل کے بارے میں سوچتا ہے۔ اس عمل میں دکھ بھی ہے اور سکھ بھی۔ درویش کو ایک دفعہ پہلے بھی اس کیف اور کیفیت کا متواتر ایک مہینے کا تجربہ اس وقت ہوا تھا جب اس نے اپنی مختصر اوٹوبایوگرافیTHE SEEKERلکھی تھی۔ اس ایک ماہ میں درویش نے بیس ہزار الفاظ لکھے تھے اور کتاب مکمل کر لی تھی۔ لیکن وہ کتاب انگریزی میں تھی اور وہ اس نے اکیلے لکھی تھی۔ اس دفعہ یہ تخلیق درویش اور رابعہ مل کر کر رہے ہیں۔ درویش کی ایسے خطوط کی لکھنے کی دیرینہ خواہش تھی یہ ایک دیرینہ خواب تھا۔ درویش رابعہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ اس نے درویش کے دیرینہ خواب کو شرمندہِ تعبیر کر دیا ہے۔ تخلیق کا یہ دکھ اور سکھ سانجھا ہے۔

جہاں درویش اس عمل سے مسرت حاصل کر رہا ہے اور اسے CREATIVE EUPHORIAکا تجربہ ہو رہا ہے وہاں وہ یہ بھی جانتا ہے کہ تخلیق کے عمل میں دردِ زہ بھی ہوتا ہے۔ بقول عارفؔ
؎ معراج پر ہے کربِ گوارا دماغ کا
تخلیق ہو رہا ہے سخنور کے ہاں سخن

درویش کو خوشی ہے کہ رابعہ ایک جینون ادیب کی طرح لکھنے کے عمل سے زندگی حاصل کرتی ہے۔ جیسے کچھ لوگ بچے جنتے ہیں ادیب اور شاعر کتابیں پیدا کرتے ہیں۔

درویش کو اندازہ ہے کہ رابعہ یونیورسٹی میں ادب کی طالبہ رہی ہے جبکہ درویش نفسیات کا طالب علم ہے۔ درویش نے نہ صرف بہت سے شاعروں اور ادیبوں کے انٹرویو لیے ہیں اور بہت سے فلاسفروں اور دانشوروں کی سونح عمریاں پڑھی ہیں بلکہ بہت سے فنکاروں کا اپنے کلینک میں نفسیاتی علاج بھی کیا ہے۔ اپنے اس تجربے‘مشاہدے اور مطالعے کی بنیاد پر اس نے انسانی شخصیت کے بارے میں ایک تھیوری بنائی ہے جو وہ اپنے کلینک میں استعمال کرتا ہے۔ درویش اپنی تھیوری کے بارے میں چند باتیں رابعہ سے شیر کرنا چاہتا ہے تا کہ رابعہ کو درویش کے موقف کا اندازہ ہو سکے۔ چونکہ درویش نے اپنی کتابوں میں وہ تھیوریانگریزی میں لکھی ہے اس لیے وہ انگریزی کے الفاط کے بارے میں معذرت خواہ ہے۔

درویش کا خیال ہے کہ ہر بچہ اپنی ایک فطری شخصیت لے کر پیدا ہوتا ہے۔ درویش اس شخصیت کو NATURAL SELF کا نام دیتا ہے۔ زندگی کے پہلے چند سالوں میں وہ فطری شخصیت دو حصوں میں تقسیم ہو جاتی ہے۔ ایک حصہ خاندان‘مذہب اور ثقافت کے زیرِ اثر CONDITIONED SELF روایتی شخصیت بن جاتا ہے۔ یہ حصہ انسان کو بتاتا ہے WHAT HE/SHE SHOULD DO۔ اس کے مقابلے میں دوسرا حصہ انسان کی تخلیقی شخصیت کا مظہر ہوتا ہے جو CREATIVE SELF بن جاتا ہے۔ یہ حصہ انسان کو بتاتا ہے
WHAT HE/SHE LOVES TO DO۔ روایتی لوگوں میں‘ جو اکثریت میں ہوتے ہیں کنڈیشنڈ سیلف ان کے کرئیٹیو سیلف سے بڑا ہوتا ہے جبکہ شاعروں‘ ادیبوں‘ فنکاروں‘دانشوروں میں‘ جو اقلیت میں ہوتے ہیں کرئیٹیو سیلف ان کے ٹریڈیشنل سیلف سے بڑا ہوتا ہے۔ درویش کا خیال ہے کہ اس تقسیم میں موروثی اثرات بھی ہوتے ہیں۔ کیونکہ کئی شاعروں ادیبوں فنکاروں کے خاندان میں اور بھی فنکار پائے جاتے ہیں۔

جب شاعروں ادیبوں اور فنکاروں کو احساس ہوتا ہے کہ ان کے اندر ایک فنکار چھپا ہے تو یا تو وہ اسے نظر انداز کر دیتے ہیں یا اس کی پرورش کرتے ہیں۔ درویش اس حوالے سے خوش قسمت تھا کہ اس نے اپنے اندر کے ادیب کا خیال رکھا اور اس کی تربیت کی۔ شاید اسی لیے وہ کئی کتابیں تخلیق کر سکا۔
جب درویش مشرق میں رہتا تھا تو وہ
80% SHOULD DO. ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔20 % LOVE TO DO
پر عمل کرتا تھا لیکن مغرب میں آ کر اس نے نئی زندگی تخلیق کی ہے اور تخلیقی آزادی حاصل کی ہے اس لیے اب وہ
80% LOVE TO DO
20% SHOULD DO
پر عمل کرتا ہے۔ اس لیے زندگی سے بہت خوش ہے۔ چونکہ وہ آزادی سے وہ لکھ سکتا ہے جو وہ لکھنا چاہتا ہے اس لیے وہ اپنے آپ کو ایک خوش قسمت اور کامیاب ادیب سمجھتا ہے۔ اسے یہ بھی احساس ہے کہ وہ ایک تھیریپست ہونے کے ناطے ہر روز دس بارہ انسانوں کی مدد کرتا ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو کیسے سکھوں میں بدل سکتے ہیں۔ اس طرح وہ انسانیت کی خدمت کرتا ہے۔ شاید اسی لیے اس نے اپنی تخلیقات کے بارے میں لکھا تھا
MY CREATIONS ARE MY LOVE LETTERS TO HUMANITY درویش کو امید ہے کہ رابعہ کی تھکاوٹ قدرے کم ہو گئی ہوگی اور اب وہ درویش کو احمد ندیم قاسی اور امجد اسلام امجد کے واقعات سنائے گی کیونکہ درویش بھی ان شخصیتوں سے مل چکا ہے اور اس کے پاس ایک دو واقعات ایسے ہیں جو وہ رابعہ سے شیر کرنا چاہتا ہے۔ اب درویش اگلے نامہِ نیم شب کا انتظار کرے گا۔شب بخیر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).