ہماری قوم کو اقلیت سے نہیں، عقلیت سے دشمنی ہے


عاطف میاں ایک پاکستانی شہری ہے،اس کی عمر43سال ہے،امریکا کی پرنسٹن یونیورسٹی میں پروفیسر ہے،آئی ایم ایف کے مطابق دنیا کے بہترین معشیت دانوں میں انکا 25واں نمبر ہے،اس کے علاوہ دنیا کی بہترین یونیورسٹی میں بھی پڑھاتا رہا ہے، جیسا کہ یونیورسٹی آف شکاگو، یونیورسٹی آف کیلی فورنیا اور بارکیلے یونیورسٹی۔ڈاکٹر عاطف نے ایک کتاب بھی لکھی ہے، جس کا نام ہے،ہاؤس آف ڈیٹ،جس کا اردو ترجمہ مقروض گھر بنتا ہے،ڈاکٹر عاطف کی معشیت پر کی گئی ریسرچ دنیا کے موقر جرائد میں شائع ہو چکی ہیں، ڈاکٹر عاطف میاں نے 18 اسکالر شپ بھی حاصل کر رکھی ہیں

اس وقت پاکستان کا قرضہ 92ارب ڈالر تک پہنچ چکا ہے، معاشی حالات ابتر ہوتے جارہے ہیں، نسلیں مقروض ہورہی ہیں، معاشی حالات خراب نہیں بہت خراب ہیں، اس سنگین صورتحال سے نمٹنے کیلیے حکومت نے اقتصادی مشاورتی کونسل بنانے کا فیصلہ کیا، جس میں دنیا بھر سے معاشی امور کے ماہر قابل افراد کو شامل کیا گیا،عاطف میاں کا تعلق احمدی برادری سے نکل آیا، جس کے بعد پاکستان بھر میں طوفان پربا ہوگیا، سوشل میڈیا لوکل میڈیا سبھی زہر اگلنا شروع ہوگئے، کمزور حکومت زیادہ پریشر میں آگئی۔

عاطف میاں سے عہدہ واپس لے لیا، جس کی وجہ سے اٹھارہ رکنی اقتصادی کونسل میں شامل عاصم اعجاز خواجہ نے بھی استعفا دے دیا، عاصم اعجاز خواجہ بھی اقتصادی امور کے ماہر ہیں، خواجہ صاحب لندن کے ہاروڈ کنیڈی اسکول میں بطور پروفیسر خدمات سرانجام دے رہے ہیں، حکومتی فیصلے سے دلبرداشتہ کونسل کے تیسرے ممبر کا اسعفا بھی سامنے آگیا ہے، عمران رسول نے یہ کہتے ہوئے استفا دیا کہ میاں عاطف سے مذہبی بنیادوں پر استعفا لینا ان کے اصولوں کے خلاف ہے، عمران رسول بھی سچے عاشق رسول ہیں اور پکے مسلمان ہیں، اقتصادی کونسل کے پتے ایک ایک کرکے گرتے جا رہے ہیں، شاید ایک دن سارے پتے گر جائیں ۔ راسخ العقائد افراد کا کہنا ہے کہ انہیں احمدیوں کے مسلمان کہلانے پر اعتراض ہے۔ عاطف میاں خود کو غیر مسلم ڈکلیر کردے تو ہمیں اس پر کوئی اعتراض نہیں۔

اس حوالے سے ملک ممتاز مذہبی اسکالر جاوید احمد غامدی صاحب کا کہنا ہے کہ دنیا میں جو لوگ مسلمان ہیں اور اپنے مسلمان ہونے کا اقرار بلکہ اس پر اصرار کرتے ہیں، مگر کوئی ایسا عقیدہ یا عمل اختیار کر لیتے ہیں جسے کوئی عالم یا علما یا دوسرے تمام مسلمان صحیح نہیں سمجھتے، ان کے اس عقیدے یا عمل کو غلط قرار دیا جا سکتا ہے، اسے ضلالت اور گمراہی بھی کہا جا سکتا ہے، لیکن اس کے حاملین چونکہ قرآن و حدیث ہی سے استدلال کر رہے ہوتے ہیں، اس لیے انہیں غیر مسلم یا کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس طرح کے عقائد و اعمال کے بارے میں خدا کا فیصلہ کیا ہے، اس کے لیے قیامت کا انتظار کرنا چاہیے۔

غامدی صاحب کی آپ نے سن لی، اب میری بھی سن لیجئے، پاکستان کے آئین میں صرف صدر اور وزیراعظم کیلیے مسلمان ہونے کی شرط ہے کسی اور کے لیے نہیں۔ میاں عاطف ایک قابل شخص ہیں۔ ان کی خدمات سے شاید ملک میں کچھ بہتری آجاتی۔ لیکن اب دیر ہوگئی ہے۔ عاطف میاں اور ان کے دو ساتھیوں نے استعفا دے دیا ہے۔ شاید وہ دوبارہ یہ عہدہ قبول نہ کریں۔ دراصل ہمیں فنڈنگ اور قرضوں سے ملک چلانے کی عادت ہوگئی۔ چونکہ عاطف میاں نے مقامی صنعت کو ترقی دینے اور مقامی افراد کو ہنر مند بنانے کا مشورہ دیا تھا ۔ یہ ہماری عادت سے تھوڑا مختلف تھا۔ اگر کوئی ہٹ کر سوچتا ہے تو دین خطرے میں پڑ جاتا ہے۔ کبھی کبھی مجھے لگتا ہے ہماری قوم کو اقلیت سے نہیں، عقلیت سے دشمنی ہے ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).