ہم سب کوڑادان


ہم سب ایک ہیں اور ہم سب کوڑادان ہیں.
ارے یہ کیا! آپ خفا ہوکر جارہے ہیں ..

مگر ایسے کیسے؟
کیا آپ نے میری پوری بات سن لی…نہیں؟

تو پھر پہلے میرا مؤقف تو واضح ہو لینے دیں.
دیکھئیے میں آپ کا زیادہ وقت نہیں لوں گی.صرف پانچ منٹ. اب موبائل ہر وقت اپنی بغل میں دبائے رکھنے والے اکیسویں صدی کے باسیوں کے لیے یہ پانچ منٹ نکالنا مشکل تو نہیں , خصوصاً اگر وہ ان پانچ منٹوں میں ذرا سا آئینہ دیکھ لیں گے تو سودا برا تو نہیں.

ہاں.. ہاں تشریف رکھی رکھیے.. مگر یہ مت سمجھیں کہ آپ کی گھوری سے ڈر کر میں اپنے تلخ بیان میں مٹھاس کا کوئی قطرہ ٹپکا دوں گی.

دیکھئے حضور ابھی آپ مجھے آنکھیں دکھا رہے ہیں, مگر اس تحریر کے اختتام پر جب آپ کا سر جھکا ہوگا تو پھر مجھے ہی اچھا نہیں لگے گا… اس لیے بہتر ہے ابھی اپنی تنی ہوئی گردن ڈھیلی کرلیں اور اطمینان سے میری بات سنیں.

ہاں تو میں کہہ رہی تھی ہم سب ہی ایک ہیں اور ہم سب کوڑادان ہیں…

چلیں آپ کو یہ تو تسلی ہورہی کہ میں محض آپ کو ہی نہیں تنقید کا نشانہ بنا رہی بلکہ خود بھی دل پہ ہاتھ رکھ کر اپنے لیے بھی بے باکی سے تجزیہ کر رہی ہوں..

کوڑادان کہتے کسے ہیں پہلے تو یہ جان لینا ضروری ہے. وہ جو گند رکھتا ہے.. وہ جو غلاظت کا ڈھیر ہوتا ہے.. وہ جو گرد اڑاتا ہے اور پھر اپنے سارے کوڑے کو آپ ہی چھپاتا ہے.
اگر اس پر الزام عائد ہو یا اس سے کہا جائے کہ تم غلیظ ہو, تم کچرے اور بیکار اشیاء سے بھرے ہوئے ہو تو یہ ڈھیٹ کوڑادان اپنا کوڑا کہیں اور اگل دیتا ہے .. کسی مضبوط اور بڑے ٹھکانے پر .. اور صرف اپنے کندھوں سے مٹی جھاڑنے کو کچھ دیر خالی رہتا ہے..اور پھر نئے کوڑے کے لیے خود کو تیار رکھتا ہے.
تاہم یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کچھ کوڑے دان جیسے اندر سے ہوتے ہیں.. بھرے ہوئے , بدبودار , ویسے ہی باہر سے دکھائی دیتے ہیں .. کیچڑ سے لتھڑے ہوئے بدہئیت ,آلودہ . جبکہ اکثر کوڑے دان اپنے اندر تو خوب ہی گند جمع رکھتے ہیں مگر باہر سے صاف اور بعض اوقات تو دیدہ زیب بھی نظر آتے ہیں. ویسے اس طرح کے کوڑے دان ہمارے ملک کی کریم کے ہاں پائے جاتے ہیں.. اپنے بڑے بڑے محلوں میں بڑے بڑے غلاظت کے ڈھیر اکٹھا کیے ہوئے کوڑے دان…

باقی رہ جاتے ہیں وہ ڈسٹ بن جو ان گھروں کی بدصورتی میں مزید اضافہ کرتے ہیں. جن کے مکینوں کے پاس تو ٹھیک سے تن ڈھانپنے کو دھیلا نہیں ہوتا , وہ اپنے “کوڑے ” کو کیونکر چھپا سکتے ہیں.

بات اتنی سی ہے , پر بات رسوائی کی ہے..

کیوں بھئ ایسا ہی ہے نا…

اب بولتے کیوں نہیں.. لگتا ہے میری بات سمجھ گئے آپ…

جی ہاں تو پھر میں اور آپ ہوئے نا کوڑے دان…

ہمارا پیٹ طرح طرح کے گناہوں سے بھرا ہوا ہے.. ہماری زبان کچے گوشت کی لذت سے ہمہ وقت تر رہتی ہے.. کینہ پروری اور جھوٹ کے داغ ہمارے دامنوں کو بدرنگ کرتے رہتے ہیں… نفرت کی گرد سے ہمارا جسم بھرا ہوا ہے اور سینوں میں حسد کی آگ بھری ہے…

کوئی ہمارا اندر جھانکنے کی کوشش کرے تو اپنے گریبانوں میں واقعتاً جھانکنے کی بجائے ہم غلط بیانی اور لن ترانیوں سںے دوسروں کا جینا دوبھر کرتے ہیں … دوسروں کے گھروں میں فتنہ پھیلانا ہمارے دائیں ہاتھ کا کھیل بن چکا ہے..

ہاں ہم سب میں بس حجم کا فرق ہے… کچھ کوڑے دان چھوٹے ہیں اور کچھ بڑے یعنی چھوٹے کوڑے دان , تھوڑا کچرا اور بڑے کوڑے دان بڑا کچرا….
کچھ کوڑے دان اندر باہر دونوں سے ایک جیسے کچرے سے بھرے ہوئے, گرد سے اٹے ہوئے ہیں جبکہ کچھ کی لاج ان کی ظاہری آرائش نے رکھ چھوڑی ہے..

اب یہ بات سمجھ آگئ یا اس کی بھی وضاحت کروں?

ارے… او بھائی کچھ خوف کرو خدا کا.. آپ کو نہیں کہہ رہی بلکہ یہ ابھی ایک کوڑادان میرے پاس سے گزرا ہے… کن اکھیوں سے ہوائی اڈے پر کھڑی ایک دوسری دوشیزہ کو گھورتے ہوئے.. حلانکہ دکھنے میں کسی اچھے گھرانے کا کوڑادان.. اوہ.. سپوت معلوم ہوتا ہے.. مگر پھر بھی ” میں ہوں عادت سے مجبور ” کا بورڈ پیشانی پر لگائے ادھر ادھر ‘تاڑتا’ ہی جارہا ہے..

اور یہ ایک اور کوڑادان میرا مطلب محترمہ جنہوں نے پانی کی بوتل خالی کرکے خاموشی سے وہیں کرسی پر رکھ دی اور خود مزے سے موبائل پر نمبر ڈائل کرتے ہوئے اٹھ کھڑی ہوئیں. یعنی اپنا کوڑا دوسروں کے سر ڈالنے کی کوشش..
حد ہوگئ..ہم کہیں بھی چلیں جائیں اپنے طور اطوار سے بتا دیتے ہیں کہ ہم کیا ہیں

جی تو پھر ثابت ہوا میں اور آپ ہم سب ایک ہی ہیں ہم سب کوڑا….


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).