جمہوریت کے لبادے میں پاپولزم کی پیش قدمی



پاپولزم کیا ہے؟ کتابی تعریف میں کیا رکھا ہے؟
آئیے جاننے اور سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں-
تھوڑی دیر کے لیے آنکھیں بند کریں، “یوٹوپین” دنیا تخلیق کریں، “تابناک ماضی” سے یادیں مستعار لیں اور اس دنیا میں رنگ بھریں، اپنے تضادات اور احساس محرومی کو دنیا کے مسائل کی بنیاد سمجھ کران کا حل تجویز کریں، اپنے فکر کو “حق” کی کسوٹی سمجھ کر دوسروں کی اصلاح کا مسودہ تیار کریں، پہلے مذہب پھر فرقے کی بالادستی اور اس کے تحت عنوانات ترتیب دیں، پچیدہ معاشی اور معاشرتی مسائل کا سادہ حل تجویز کریں، وہ اسباق اور وہ نظریات جن کی آبیاری انسانی تمدن میں صدیوں میں یوتی ہے اور جس کے خدوخال، تدریج و ارتقا کے مراحل معاشرے نسلوں میں طے کرتے ہیں اور جس کے لیے جبر و ظلم اور کشت و خون کے ادب تخلیق ہوتے ہیں اور کئی قرنوں میں پھیلی اس جدوجحد کے ثمرات پھر معاشرے میں ظہورپذیر کرتے ہیں ان کو چشم زدن میں اپنی “یوٹوپین” دنیا میں نافذ ہوتا دکھائیے-

یہ بحث بے معنی ہے کہ اس “دنیا’ کو تخلیق کرنے کے لیے آپ “تابناک ماضی” تاریخ کے کس چوراہے کو قرار دیں گے، آپ کس آپ کس مذہب اور کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، اگر آپ مسلمان ہیں تو سترہ سال کے لڑکے کو دیبل کے قلعے پر دستک دیتا، مظلوم کی فریاد رسی کرتا “حق” کو قائم کرتا اور “باطل” کو مٹاتا دیکھ لیں، اگر عیسائی ہیں تو چوتھی صدی میں بادشاہ کو عیسائیت کا قلاوہ گردن میں ڈالتے اور ایک مظلوم قوم کو دنیا کی طاقتورقوم بناتا اورمذہب کی اجارۃ دار قوم کو نکیل ڈالتا دیکھیں، اگر یہودی ہیں تو قبل مسیح ہیکل سلیمانی کو تعمیر ہوتا دیکھیں، اگر فرقوں پراور نسل پر یقین رکھتے ہیں تو بھی خواب کے لیے وافرمواد حاضر ہے، فاطمی دور، ترکان عثمانی، سولہویں صدی میں پروٹسٹنٹ اصلاحات، سپین میں نشاۃُ ثانیہ کی تحریکیں، الغرض تاریخ کو موم کی ناک سمجہیے اور اس کی من مانی تعبیر اختیار کیجیے-

اگر آپ مندرجہ بالا “راہ نما اصول” ذہن نشیں کرچکے ہیں اور تاریخ کو مناسب قطع برید کرکے خوابوں کی زنبیل بھرچکے ہیں تو یقین مانیے آپ کے اور پاپولسٹ لیڈریا مسیحا بننے میں ایک ہی رکاوٹ حائل ہے اور وہ ہے ایک طاقتور پشت پناہی-

لیکن اس کو رہنے دیتے ہیں اورمل کر مندرجہ بالا اصول اور خوابوں کی بنیاد پر چند پاپولسٹ نعرے اور منشور ترتیب دیتے ہیں:
نظام مصطفی کا فوری نفاذ، سود کا معیشت سے فوری مکمل خاتمہ، سستی بجلی، مفت گھر، عالمی سطح کے فیصلوں میں فیصلہ کن آواز، عالمی تنازعات میں قول فیصل، سو دن کا اصلاحات پیکج، “قرون وسطی کے دور” کی اخلاق کی حامل سیاسی لیڈرشپ، اس درجہ خوشحالی کہ زکوہ لینے والا نہ رہے، اس درجہ سرکاری وسائل میں ایمانداری کہ موم بتی بھی بھجا دی جائے، کرتے ناپے جائیں، فی الفور انصاف ملے- یاد رہے آپ یوٹوپین دنیا میں ہیں نامیاتی ارتقاَء، معاشرتی عوامل، تدریج اور اس جیسے جھمیلوں اور دقیق تحقیقات میں پڑھنے کی ضرورت نیہں-

درختوں کو قلم بناَئیے اور سمندروں کو سیاہی تب بھی یہ فہرست نامکمل ہے کیونکہ انسان کے خواب اور خواہشات لامتناہی ہیں وہ کسی حدود و قیود، زمینی حقائق کے پابند نیہں-

اصل نکتہ یہ ہے کہ اس پاپولسٹ فکر نے جمہوریت کا لبادہ اوڑے رکھا ہے، مغرب میں یہ نیشنلسٹ تحریکوں کے ذریعے ظہور پذیر ہورہاہے، دونوں ہی “ازم” پاپولزم اور نیشنلزم ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور دونوں ہی کی انتہا فسطائیت ہے- مشرق ہو یا مغرب، دایاں بازو ہو بائیں بازو کی فکر پاپولزم کی یلغار مساوی ہے- خواب تاریخ کے مختلف دوراہوں کے ہوں گے، لیکن پراسی “راہ نما اصولوں” کا اطلاق ہوگا، آپ تدبر کی نگاہ ڈالیں تو آپ کو مندرجہ بالا نعروں اور درج ذیل مغرب میں نیشلسٹ یورش میں جوہری فرق نظر نہ آئے گا-

اس سے پہلے کہ ہم مغرب میں بڑھتے ہوئی اس لہر کو دیکھیں جمہوریت کے تعویذ کو از سر نو تازہ کرتے ہیں-

جمہوریت کیا ہے؟

اکثریت کی منہ زورحکومت؟

یا ایسا بندوبست یا جو طاقتور اکثریتوں کو پابند کرتا ہے اورکمزوراقلیتوں کو اایسے عمرانی معاہدے کی ضمانت دیتا ہے جس میں کسی شہری کےساتھ رنگ، نسل، مذہب، فرقہ، جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاِئے گا؟

اس میں سے ایک پاپولزم کی اور ایک جمہوریت کی تعریف ہے-

اگر “جمہوریت” موخرذکر مقد مے کا نام ہے تو آج اس کوسب سے بڑا خطرۃ خود اپنے اندر سے ہے- “پاپولزم” کی سیاست نے آج جمہوریت کے بنیادی ڈھانچے پر سوالات کھڑے کر دئیے ہیں-

پاپولزم کیا ہے؟ کیا فسطائیت کی ہی ایک شکل ہے؟

مکرمی استاد نے مسلسل تکبیروں میں سمجھایا کہ “پوست ٹرتھ” اور “پاپولزم” کی سیاست کیا ہوتی ہے- اور اس کے منفی نتایج کیا رنگ لاتے ہیں- جب پچیدہ مسائل کا سادہ حل تجویز کیا جائے، مسیحا کا بیانیہ بکنے کے لیے تیار ہوتو خوابوں کی تجارت آسان ہو جاتی ہے-

وجاہت مسعود سے الفاظ مستعار لیتے ہیں ” فسطائیت، ادارہ جاتی بندوبست کو مسترد کرتے ہوئے شخصی کرشمہ اور انفرادی رفاہ کے ذریعے سیاست کا کھیت سینچتی ہے”

بی بی سی نے اپنے ایک ارٹیکل میں ڈاکتر موٹف کی کتاب The Global Rise of Populism کا حوالہ دیتے ہوئے “پاپولسٹ لیڈر” کی چند صفات کا ذکر کیا ہے-
ایک یہ کہ وہ “بداخلاقی کا مظاہرہ” کرے گا ‘ ہمیشہ “بحرانی کیفیت” میں مبتلا رہے گا اور رکھے گا، وہ “پچیدہ جمہوری” نظام کا نقاد ہو گا-
اس نکتے پر کہ وہ پاپولسٹ لیڈر دائیں یا باَئیں فکر سے تعلق رکھنے والا ہوتا ہے؟وہ جواب دیتے ہیں کہ یہ اہم نہیں-
ونزویلا کے شاویز، سپین کے پابلو اور یونان کے سپرا بائیں بازو کی جماعتوں سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ فرانس کی لی پن، ھنگری کے وکٹراوربن اور امریکی ٹرمپ کا تعلق دائیں بازو کی جماعتوں سے ہے-

مغرب—- جہاں جمہوریت اپنے ارتقائی سفرمیں سب سے آگے ہے، اپنے بنیادی اقدار جیسے مساوی حقوق، مذہبی آزادی کو “پاپولرزم کی لہروں کے آگے پامال ہوتا دیکھ رہی ہے-

آََ ئیے دیکھتے ہیں اس لہر نے اکیسویں صدی کے اس عشرے میں کیا کیا گل کھلائے-اس کی زد سے کون کون آیا-

جون 2016 میں برطانیہ نے “پاپولرزم” کے دوش پر سوار یورپی یونین سے اخراج فیصلہ کیا-

2017 کا آغاز امریکہ میں ٹرمپ کی فتح سے ہوا-

مارچ 2017 میں ڈچ انتخابات میں پارTی اف فریڈم نے بیس نشستیں حاصل کیں اور دوسری بڑی پارٹی بن کر ابھری- اسی پارٹی نے قران پر پابندی اور مسجدوں کو ختم کرنے کی تجویز دی تھی-

فرانس کے صدارتی انتخابات میں میرین لی پن 7 مئی 2017 کو انتخابات کے دوسرے مرحلے میں پہنچ گئیں- یاد رہے ان کا موٹو امیگریشن قوانین کو معطل کرنا اور فرانس کو “وحشی عالمگیریت” سے بچانا تھا-

24 ستمبر 2017 میں اے اف دی پارٹی نے جرمنی کی بندستاگ میں پہلی مرتبہ ظہور کیا- یہ وہی پارٹی ہے جو “پید یگا” کی کھلم کھلا حمایت کرتی ہے-

اگر لاطینی امریکہ پر طاَئرانہ نگاہ ڈالیں تو “پاپولزم” کے اثرات یہاں گہرے نظر آتے ہیں-

برازیل میں پہلی خاتون صدر دلما روسیف جو کہ پارلیمنٹ کے مواخذے کے بعد صدارتی منصب سے ہٹا دی گئیں تھیں. اب صدارتی دوڑ میں لولا ڈی سلوا جوکہ سابق صدر بھی رہ چکے ہیں اور ان پر کرپشن کے الزامات بھی ہیں کا مقابلہ پاپولسٹ بولسینارو سے ہے جنھیں سابق فوجی حکومت کی خفیہ حمایت بھی حاصل ہے- اور “برازیلین ٹرمپ” کہلاتے ہیں- اس سال اکتوبرمیں برازیل کو “مبینہ کرپٹ” اور “بنیاد پرست” پاپولسٹ کے درمیاں فیصلہ کرنا ہوگا-

یکم جولاِِئی 2018 کے میکسیکو کے الیکشن میں آندرس مینیئول اوبرادورکو کامیابی ملی- ایملو کی الیکشن مہم بھی پاپولسٹ نعروں پر مبنی تھی- سماجی بہبود پرزیادہ خرچ، تندوتیز تقریریں اور مشہور زمانہ پاپولسٹ نعرہ “اینٹی ایسٹیبلشمنٹ”-

انٹرنیشنل پولیسی ڈائجسٹ کے مطابق لااطینی امریکہ اس وقت سب سے زیادہ “جمہوریت سے غیر مطمئن” علاقہ ہے اور وہاں “فوجی حکومت” کی حمایت میں غیر معمولی جھکاو پایا جاتاہے-

ایشیا کے اس خطے میں جہاں ہم رہتے ہیں نیرندرمودی کی کامیابی اور وطن عزیز کے حالیہ الیکشن میں پاپولزم کا کتنا اثر ہے اس کا تجزیہ میں قاری پر چھوڑتا ہوں- اگر ذوق اجازت دے تو جناب خورشید ندیم کا کالم “ٰعمران خان کی کامیابی کے اصل محرکات مورخہ 13 اگست” پڑھ لیجئے-

سوال اہم یہ ہے کہ پاپولزم کے اس تیزی سے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ کیا ہے؟

2008 کی عالمی کساد بازی ایک بڑا محرک سمجھا جاتا ہے- بےروزگاری اور حکومتوں کی طرف سے “سادگی کے اقدامات” — ٹیکس میں اضافہ اور تخمینہ میں کمی نے لوگوں میں بےچینی پیدا کی- “پاپولزم” کی ایک وجہ مغرب میں تارکین وطن کی ھجرت سے پیدا ہونے والے مسائل بھی ہیں-

ضرورت اس امر کی ہے کہ جمہوریت کی اصل تعبیر کو واضح کیا جائے- اسے ایک عمرانی معاہدے کے طور پر دیکھا جاَئے جو ریاست کو پابند کرتا ہے کہ وہ اپنے ہر شہری سے مذہب، جنس اور رنگ سے بالاتر ہوکر یکساں سلوک کرے – اگر ہم نی آئین میں اکثریت کی ایسی تعبیرات اور خواہشات کو جگہ دی جس سے اقلیت کے بنیادی حقوق مجروح ہوئے اور ان کو ریاست میں پھلنے پھولنے کے برابر مواقع میسر نہ ہوئے تو ہمارا سفر بظاہر جمہوری لیکن منزل فاشزم ہی ہوگی- یاد رہنا چاہیے ہولوکاسٹ کا معمار 1933 میں جمہوری طریقے سے ہی چانسلر بنا- باقی تاریخ ہے-

جمہوریت مغرب کی دین نہیں بلکہ انسانیت کی مشترکہ میراث ہے- بادشاہت اور پاپائیت سے جمہوریت کے سفر میں جتنے خونی پڑاو آئے اورجتنی یی انسانی جاینں تلف ہوئیں ان کو مشرق و مغرب میں قید کرنا انسانی فکر کی توہین ہے، اسے انسانیت کے فکری ارتقاء کے طور پر ہی دیکھنا چاہیے، پاپولزم کا ظہور اس جمہوریت کے لیے زہرقاتل ہے اور اکثریت کا استبدادی رویہ اگر بےشتر مہار چھوڑ دیا جائے تو یہ ایک دائرے کا سفر ہوگا اور ایک بار پھر مطلق العنانیت کا دور دورہ ہوگا، فرق صرف اتنا ہوگا کہ پہلے بادشاہت اور پاپائیت تلوار اور “اہنے تئیں مذہبی الہام” کے ذریعے استحصال کرتی تھی اب اکثریت اپنے تعداد کے بل بوتے پر اقلیت کے حقوق سلب کرے گی-

جمہوریت کے لبادے میں پاپولزم کی چاپ سنائی دے رہی ہے- اور اس خطے میں تیز سنائی دے رہی ہے جسے جمہوریت کے خدوخال واضح کرنے میں سبقت کا دعوی ہے- کیا ہم اس کی چاپ یہاں سن سکتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).