چندہ اور ڈیم


شیریں فرہاد اک رومانوی داستان ہے۔ بعض کتب میں انہیں ایرانی کہا گیا اور بعض کتب میں شیریں فرہاد کا وطن بلوچستان بتایا گیا ہے۔ شیریں فرہاد کا مزار ایران میں بھی ہے اور بلوچستان میں آواران کے مقام پر بھی شیریں فرہاد کی قبر ہے۔ بہت سی دوسری لوک داستانوں کی طرح شیریں فرہاد کے بارے میں زیادہ معلومات دستیاب نہیں بہت سے قصے کہانیاں ہیں جو سینہ بہ سینہ چلے آرہے ہیں۔

بلوچ داستان گو کے مطابق فرہاد اک سنگ تراش ہے جو شیریں نامی لڑکی کے سحر میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ بادشاہ بھی اسی شیریں پہ فریفتہ۔ فارسی میں شیر دودھ کو کہا جاتا ہے اور بلوچی زبان میں ٹھنڈے پانی کو بھی شیر کہتے ہیں۔ شیرین لسبیلہ ریاست کے والی کی بیٹی تھی اور فرہاد شیریں کے عشق میں اتنا گرفتار تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر شیریں کو حاصل کرنا چاہتا تھا۔ فرہاد نے شیریں کے باپ سے اس کا ہاتھ مانگا تو شیریں کا باپ جو بستی کا سردار بھی تھا، اس نے انکار کرنے کے بجائے چالاکی سے یہ شرط رکھ دی کہ اگر فرہاد پہاڑ کاٹ کر نہر نکال لائے تو وہ اپنی بیٹی کی شادی فرہاد سے کردے گا۔ فرہاد نے محنت اور لگن سے پہاڑ کاٹ کر رکھ دیا۔

میرا موضوع شیریں فرہاد کی داستان نہیں دیامر بھاشا ڈیم ہے لیکن یہ داستان صرف تمہید کی خاطر لکھی۔ اگر جذبہ صادق ہو تو فرد واحد پہاڑ کا سینہ چیر سکتا ہے تو کیا کم و بیش اٹھارہ کروڑ پاکستانی قوم کیا اتنی گئی گزری ہے کہ اب بقا کا سامان ڈیم نہ بنا سکے۔ اگر ہے جذبہ تعمیر زندہ تو پھر کس چیز کی ہم میں کمی ہے۔ کیا عمران خان نے عوام سے ڈیم کے لیے چندہ مانگ کر کوئی گناہ کیا۔ ماضی کے کچھ واقعات قارئین کی نظر۔ غزوہ تبوک میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام(رض) سے مال و اسباب جمع کرنے کا کہا۔ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے گھر کا سارا سامان نظر کردیا۔ حضرت عمر فاروق (رض) نے گھر کا آدھا سامان پیش کیا۔ دیگر اصحاب رسول ﷺ بھی اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔

پاکستان کی تاریخ میں بھی شاید کچھ لوگوں کو یاد ہو ہم نے چندہ اکٹھا کرکے اپنے سے بڑے دشمن کو شکست دی تھی جب صدر ایوب خان نے عوام سے ٹینک خریدنے کے لیے ٹیڈی پیسہ کی اپیل کی تھی۔ اگر چندہ سے جنگیں لڑی جاسکتی ہیں تو ڈیم کیوں نہیں بن سکتا۔ اگر چندہ اکھٹا کرکے شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی بن سکتی ہے تو ڈیم کیوں نہیں بن سکتا۔ اگر عوام کی مدد سے ایدھی جیسا ادارہ بن سکتا ہے تو ڈیم کیوں نہیں بن سکتا۔ آج چندہ سے ڈیم بنانے پہ وہ لوگ بھی ٹھٹھا اڑا رہے ہیں جن کے جد امجد میاں نوازشریف قرض اتارو ملک سنوارو کے نام پہ کشکول تھامے کھڑے تھے۔ قوم کا قرضہ تو نہ اترا لیکن میاں کے گھرے چاندی ضرور اتری۔

مقام افسوس جو لوگ آج چندہ اکھٹا کرنے پر عمران خان کا مذاق اڑا رہے انہی کے لیڈران کی بدولت آج ہم اس مقام پہ پہنچے ہیں۔ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں دیامر بھاشا ڈیم کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور بس اس کے آگے راوی خاموش ہے۔ میاں نوازشریف یا نون لیگ کے پچھلے پانچ سالوں میں معاشی جادوگر اسحاق ڈار باتیں ٹھوکتے رہے لیکن عمل ندارد۔ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے ورلڈ بینک پیسے دینے کو تیار ہے نہ ہی ایشین ڈیولپمنٹ بینک ہاتھ آرہا ہے۔ روس کی طرف سے بھی انکار ہے۔ چین اپنا یار جس پہ جان بھی نثار ہے وہ اس کی طرف سے بھی کرارا جواب ہے۔ بقیہ جہاں سے چند ٹکے ملنے کی امید ہے ان کی شرائط اتنی کڑی اور شرح سود اتنا زیادہ ہے کہ انکار ہی بھلا۔

آخر میں عمران کے پاس دو آپشن بچتے ہیں۔ اک تو پرانا آزمودہ طریقہ ہے کشکول تھامیے اور جگہ جگہ بھیگ مانگیے۔ ساتھ میں پانچ سال پیپلز پارٹی اور نون لیگ کی طرح تھوک سے پکوڑے بھی تلتے رہیں۔ دوسرا اور مشکل آپشن جو وسائل موجودہ ہیں ان سے اپنی مدد آپ کے تحت کام لیا جائے ساتھ میں عوام سے امداد کی اپیل کی جائے۔ یہی کام عمران خان نے کیا ہے۔ قطرہ قطرہ دریا قطرہ قطرہ قلزم۔ ڈیم نہ توعمران خان اپنے لیے بنا رہا ہے نہ تحریک انصاف کے لیے۔ ڈیم اور آبی ذخائر اس ملک اور ہماری آئندہ نسلوں کے لیے ہیں۔ آج پاکستان کی وہ حالت ہے کہ قحط سالی ہمارے دروازوں پہ دستک دے رہی ہے۔ ہمارے پاس دس دن سے زیادہ پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل نہیں۔ تربیلا اور منگلا ڈیم کی صفائی نہ ہونے کی وجہ سے پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت روزبروز کم سے کم ہو رہی ہے۔ راول ڈیم میں گاد ( گارا اور مٹی ) جم چکی ہے۔ انڈیا ہمارے سینوں پہ مونگ دلتے ہوئے کشن گنگا اور بگلیہار ڈیم بنا رہا ہے۔ ہماری زراعت زبوں حالی کا شکار ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے فصلیں تباہ ہوچکی ہیں۔ ۔ اگر پانی زیادہ آجائے تو سیلاب کے ہاتھوں تباہ و برباد ہونے کے علاوہ ہمارے پاس چارہ نہیں۔ اگر اب بھی اقدام نہ اٹھائے گئے تو خاکم بدہن ہمارا حال بھی افریقہ والا ہوگا۔

اصل مسئلہ چندہ نہیں اصل مسئلہ ناعاقبت اندیش سیاستدانوں اور دانشوروں کی چیخیں ہیں جو کسی بھی صورت پاکستان کو ترقی کرتا نہیں دیکھنا چاہتے۔ جب بھی پاکستان کے بقا اور آبی ذخائر کی بات آئی یہ لوگ دودھ میں مینگنیاں ڈالنا شروع کر دیتے ہیں۔ کالاباغ جیسے شاندار منصوبے کو شجر ممنوعہ بنا کر رکھ دیا گیا۔ ابھی تو عمران خان نے ڈیم کے لیے چندہ اکھٹا کرنے کی بات کے ہے اور رونے دھونے کا یہ عالم ہے آگے آگے دیکھتے جائیں۔ یہ لوگ دیامر بھاشا ڈیم کو بھی کالا باغ ڈیم کی طرح متنازعہ بنا کر دریا برد کرنا چاہتے ہیں۔
آخر میں تمام احباب سے گزارش ہے ڈیم کے لیے اپنا حصہ ضرور ڈالیں چاہیں کم ہی کیوں نہ ہو۔

قصہ مشہور ہے کہ نمرود حضرت ابراہیم کو آگ میں پھینک دیتا ہے۔ ایسے میں ایک چڑیا اپنی چونچ میں پانی بھر بھر کر آگ پر ڈالتی ہے۔ کسی نے کہا تمہارے ان چند قطروں سے آگ بجھے گی تو اس چڑیا نے کہا مجھے پتہ ہے لیکن میرا نام آگ بجھانے کی کوشش کرنے والوں میں تو ہوگا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).