احمدیوں پر لکھا جانے والا آخری مضمون


عیسائیت ڈیڑھ ہزار سال تک کیتھولک چرچ کی ملکیت تھی۔ پاپائے روم زمین پر خدا کا نائب تھا اور مذہب کی رو سے ہر فیصلے کا مجاز۔ یاد رہے کہ اسلام میں  پاپائیت کا تصور نہیں  ہے۔ زمین پر خدا کا کوئی نائب نہیں ہے اور صحیفہ آسمانی میں خدائی فیصلے کا اختیار کسی پیشوا کو سونپنے کا کوئی تصور نہیں  ہے۔ یہ بنیادی فرق سمجھ لیجیے تو پوری بات سمجھنا زیادہ آسان ہو جائے گا لیکن  اس صورت میں اگر آپ سمجھنا چاہیں تو۔  میری کوشش ہو گی کہ بات سادہ ترین رکھی جائے اور مقصد عقائد پر بحث چھیڑنا یا عقائد کو سمجھنا نہیں ہے بلکہ عقائد کے تصادم کے تاریخی جائزے اور اس کے نتائج و عواقب کو سامنے رکھنا ہے۔

عیسائیت میں ڈیڑھ ہزار سال کے کیتھولک چرچ کے مکمل اقتدار کے بعد پیٹر والڈو، جان وائکلف اور مارٹن لوتھر جیسی طاقتور آوازیں اٹھنا شروع ہوئیں۔ ادھر انگلستان میں ہنری ہشتم جب کلیسا کو اپنی شادی کی منسوخی پر قائل کرنے میں ناکام رہا تو اس نے اپنا نیا چرچ آف انگلینڈ قائم کر ڈالا۔ پروٹسٹنٹ اصلاحات اس وقت کے مروجہ عیسائی مذہب سے شدید متصادم تھیں۔ انہوں نے نہ صرف پاپائیت کا انکار کیا جو کہ کیتھولک چرچ اور عیسائی مذہب کی بنیاد تھا بلکہ ان تمام اختیارات کو بھی مسترد کر دیا جو کیتھولک چرچ کے بقول انہیں براہ راست خدا اور حضرت عیسی نے ودیعت کیے تھے۔

پروٹسٹنٹ پھر آگے مزید گروہوں میں بٹے جیسا کہ پریبیسٹیرین، لوتھرن اور بیپٹسٹ۔ لیکن ان تمام گروہوں کا تصور مذہب کیتھولک چرچ سے مکمل طور پر متصادم تھا۔ چونکہ پوپ خدا کے زمین پر نمائندے کی حیثیت سے تقریبا خدائی اختیارات کا حامل تھا اس لیے اس نے ان گروہوں کو کافر قرار دے ڈالا۔ ادھر انگلستان میں یہی سلوک کیتھولک کے اپنے ساتھ ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد دہائیوں کی نہیں بلکہ صدیوں کی ایک متشدد تاریخ ہے۔

کیتھولک چرچ نے کافر قرار پانے والے گروہوں کے لیے سخت ترین سزائیں  تجویز کیں۔ لوگوں کو زندہ جلایا گیا۔ پھانسی پر چڑھایا گیا۔ ان کے حقوق سلب کر لیے گئے۔ ان کے گھر چھین لیے گئے۔ لیکن جب گرد بیٹھ گئی تو یہ سارے گروہ جو باقاعدہ خدائی اختیار کے تحت کافر اور مرتد قرار پائے تھے، عیسائی ہی کہلائے گئے۔ آج دنیا میں  نوے کروڑ پروٹسٹنٹس ہیں۔ ان کے اندر پھر فرقہ در فرقہ تقسیم ہے پر سب عیسائی کہلاتے ہیں۔ کیتھولک چرچ بھی انہیں غیر عیسائی نہیں کہتا۔

اس کے بہت بعد تشکیل پانے والے فرقے جیسا کہ یوہاوا گواہ، مورمن اور حتی کہ سائنٹالوجسٹ کو بھی کوئی غیر عیسائی نہیں  گردانتا۔ عیسائیت کے صدیوں کے پر تشدد آلام اور ہزاروں جانوں کے ضیاع کے بعد اس نظریے پر اتفاق کر لیا ہے کہ جو اپنے آپ کو عیسائی کہتا ہے اسے غیر عیسائی گرداننے کا کسی کو حق نہیں ہے۔ یہ عین ممکن  ہے کہ سخت گیر کیتھولک اب بھی پروٹسٹنٹس کو کافر سمجھتے ہوں لیکن وہ کبھی اس سوچ کو قانون میں بدلنے کے حق میں بات نہیں کرتے۔ یہ سبق انہوں نے سیکھ لیا ہے کہ عقیدے کی بنیاد پر قانونی تقسیم یا مذہبی تقسیم جس سے کسی گروہ کے مفادات پر ضرب پڑے، کسی بھی طرح معاشرتی ارتقاء میں معاون ثابت نہیں ہوتی۔

اب آ جائیے اسلام کی جانب۔ اسلام کے آغاز سے لے کر اب تک بے شمار فرقے بنے۔ ان پر وقتا فوقتاً دور ملوکیت میں کفر یا ارتداد کے فتوے بھی جاری ہوئے۔ سرکاری طور پر انہیں کافر بھی ٹھہرایا گیا حالانکہ عیسائیت کے برعکس اسلام میں  یہ اختیار زمین پر موجود کسی انسان یا ادارے کو تفویض ہونے کے حق میں ایک بھی نص موجود نہیں ہے۔ خوارج کو تہ تیغ کیا گیا پر تاریخ یہ بھی کہتی ہے کہ وہ سب سے زیادہ پابند شرع مسلمان تھے۔ اہل تشیع، نزاری یا قرامطیہ بلکہ اسماعیلیوں کی اکثریت بھی ریاستی جبر کا شکار رہی۔ یہ ایک لمبی کہانی ہے اور یہاں اس کا محل نہیں ہے لیکن یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ اسلام کے ان گنت فرقوں میں بہت بنیادی نظریات پر شدید اختلاف موجود ہے۔

ایک گروہ نبوت کی واحد نشانی وحی گردانتا ہے تو وہیں کتنے ہی گروہ ہیں جو اپنے اپنے امام پر ہونے والے کشف کو وحی سے کم نہیں  سمجھتے۔ ایک گروہ امامت کا قائل ہے۔ ایک گروہ مہدی کا منتظر ہے۔ ایک گروہ امام کو غائب کہتا ہے دوسرا اسے موجود سمجھتا ہے اور یہ گروہ امام کو مذہبی پیشوا اور نائب اللہ فی الارض کا ایسا درجہ دیتے ہیں جس کی کوئی  قطعی دلیل دوسرے گروہوں کے نزدیک صحیفہ آسمانی سے ڈھونڈنا مشکل ہے۔ پر یہ بھی سچ ہے کہ یہ سارے گروہ ایک ہی ماخذ کو درست مان کر اس سے مختلف تشریحات اخذ کرتے ہیں لیکن یہاں سوال ان عقائد کی جانچ کا ہے ہی نہیں۔ ایک ہی گھر میں ایک ہی مذہبی گروہ سے تعلق رکھنے والے دو سگے بھائی بھی مذہب کی تشریح اپنے اپنے انداز میں  کرتے ہیں، تو پورے پورے مکتبہ فکر کا موازنہ کیونکر کیا جائے۔

ختم نبوت کا نظریہ کیا ہے۔ یہ ایک الگ بحث ہے۔ تشریعی نبی یا غیر تشریعی نبی میں کیا فرق روا رکھنا ممکن ہے۔ مسیح موعود اور مہدی کی تعریف کون کیسے کرے گا۔ یہ سب علمی مباحث ہیں اور ان کا دفتر کھلا رکھنے میں اس وقت تک کوئی ہرج نہیں جب تک یہ فتوے اور فیصلے کی حدود میں داخل نہیں ہو جاتیں۔ میں کوشش کرتا ہوں کہ ایک مثال سے بات واضح کر سکوں۔

فرض کیجیے میں کہتا ہوں کہ ختم نبوت ایمان کی اساس ہے۔ فرض کیجیے ایک احمدی بھی یہی کہتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ آنحضرت کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ احمدی اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ بالکل، لیکن مہدی پر تو آپ بھی یقین رکھتے ہیں اور میں بھی۔ تو ہمارا مہدی آ گیا ہے۔ آپ ابھی منتظر ہیں۔ میں کہتا ہوں آپ اسے نبی نہیں کہہ سکتے تو وہ لغوی معنی سامنے رکھ کر کہتا ہے کہ شریعت محمدی کے تابع ایک مہدی غیر تشریعی نبی کیوں نہیں ہو سکتا۔ ہم اسی طرح سینگ الجھائے بحث کے در کھولتے چلے جاتے ہیں۔ اس کا نظریہ یہ ہے کہ میری تشریح غلط ہے، میرا نظریہ یہ ہے کہ اس کی تشریح غلط ہے۔ کرتے کرتے بات اس نہج پر آ جاتی ہے کہ میں اسے کافر کہہ بیٹھتا ہوں اور وہ مجھے کافر کہہ بیٹھتا ہے۔ اب کیا کریں۔

باقی تحریر پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیے

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad