ڈیم فنڈ کا چندہ اور جعلی اکاؤنٹس کی چاندی


پاکستان

پاکستان میں سوشل میڈیا پر جعلی اکاؤنٹس سے کسی اقدام کی منفی اور مثبت پروپیگنڈا کرنا کوئی نئی بات نہیں چاہے لیکن بعض اوقات یہ حد سے اتنا تجاوز کر جاتا ہے کہ حکومتوں کے لیے بھی درد سر بن جاتا ہے۔

کچھ عرصے پہلے دیامیر بھاشا ڈیم اور مہمند ڈیم کی تعمیر کے لیے چیف جسٹس ثاقب نثار نے مہم شروع کی تو سوشل میڈیا پر اس اقدام کی حمایت میں بحت شروع ہوئی تو دوسری جانب سے مختلف پہلوؤں سے اس کو مذاق کی نظر کرنے والوں کی کمی نہیں تھی۔

اس بحث نے ایک نئی شکل اس وقت اختیار کی جب گذشتہ سنیچر کو وزیراعظم عمران خان نے بھی چیف جسٹس کے موقف کی حمایت کرتے ہوئے پاکستان میں نئے ڈیمز کی ضرورت پر زور دیا اور ساتھ میں بیرون ملک مقیم پاکستان سے ڈیم فنڈ میں کم از کم ایک ہزار ڈالر عطیہ کرنے کی اپیل بھی کر ڈالی۔

پھر کیا تھا، ایک طرف ٹی وی چینل پر ایک مرتبہ پھر بحث و مباحثے شروع ہوئے کہ آیا چندے سے ڈیم بنانا ممکن ہے کہ نہیں تو دوسری جانب سے سوشل میڈیا پر اس اعلان کو مضکحہ خیز رنگ دینے والوں کی کمی نہیں تھی جو اب تک جاری ہے۔

بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ سوشل میڈیا پر پاکستانی نژاد امریکی شہری شاہد خان سے منسوب اعلان گردش کرنے لگا کہ وہ ڈیم فنڈ میں ایک ارب ڈالر چندہ دے رہے ہیں۔ اس اعلان کو تحریکِ انصاف کے سینیٹر فیصل جاوید خان سے بھی منسوب کیا گیا اور اس کی بغیر کسی تصدیق کے مقامی میڈیا پر بھی تشہیر ہوئی۔

اس کے بعد تحریکِ انصاف کے صوبائی وزیر شہرام ترکئی کی ایک ٹویٹ سامنے آئی جس میں انھوں نے ایک ’فیک نیوز‘ کو ٹویٹ کیا جس کے مطابق قائداعظم نے قیامِ پاکستان کے بعد بیرونِ ملک مقیم پاکستانیوں سے چندے کے اپیل کی تھی۔ سوشل میڈیا پر ردعمل سامنے آنے کے بعد شہرام ترکئی نے بھی اپنی ٹویٹ پر معذرت کر لی۔

اس کے علاوہ صدر امریکہ ڈونلڈ ٹرمپ اور مائیکروسافٹ اور فیس بک کے سربراہوں کو بھی اس جعل سازی کی دوڑ میں نہیں بخشا گیا۔

آخر کیا وجہ ہے کہ ملک میں جب بھی کوئی اہم سیاسی پیش رفت یا اعلان کیا جاتا ہے یا الیکشن ہوں یا کوئی ایونٹ تو اس دوران کھمبیوں کی طرح جعلی اکاؤنٹ نکل آتے ہیں جن پر اعتبار کرنے والوں اور ان کو جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے دیے جانے والے پیغامات کو آگے پھیلانے والوں کی کوئی کمی نہیں ہوتی ہے۔

اس ساری مشق کے دوران نہ صرف جگ ہنسائی ہوتی ہے بلکہ کئی بار ایک سنجیدہ کام یا کاز بھی ڈی ٹریک ہو جاتا ہے۔

جب بی بی سی نے سوشل میڈیا پر پاکستان تحریک انصاف کے متحرک حمایتی فرحان ورک سے اس بارے میں بات کی تو انھوں نے کہا کہ جعلی اکاؤنٹس کافی نقصان دہ ہوتے ہیں اور ان کی وجہ سے اچھے مقاصد کا حصول بھی دشوار ہو جاتا ہے۔

فرحان ورک کی سوشل میڈیا پر اپنی ’شہرت‘ بھی جعلی اکاؤنٹ بنانے کے حوالے سے رہی ہے۔ انھوں نے سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر کے نام سے ٹوئٹر پر اکاؤنٹ بنایا تھا جس کا ذکر وہ خود اپنی ٹائم لائن پر کرتے ہیں لیکن بعد میں انھوں نے معافی مانگ لی تھی۔

ڈیم فنڈ میں معروف شخصیات کے چندے سے متعلق جعلی اکاؤنٹس اور خبروں کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ’ایسے اکاؤنٹ ڈیم فنڈ کا بہت نقصان کر رہے ہیں. بہت سے لوگ ان اکاؤنٹس کی باتوں کو حقیقت سمجھ کر ایسا سوچ رہے ہیں جیسے ڈیم کا پیسہ یہ چند بڑے نام ہی دے دیں گے. اس وجہ سے وہ لوگ پیسے جمع نہیں کروا رہے۔’

نقلی اکاؤنٹس کی شناخت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ انھیں پہچاننا بہت مشکل نہیں ہوتا اور ایسے اکاؤنٹس کی نشاندہی پر ٹوئٹر کو انھیں رپورٹ کرنا چاہیے۔

‘ایک طرف حکومت کا یہ فرض بنتا ہے کہ ایسے جعلی اکاؤنٹس کو بند کروائے وہاں ہی ایک عام سوشل میڈیا صارف کا بھی فرض بنتا ہے کہ آپ ایسے اکاؤنٹ کی حوصلہ شکنی کریں۔اگر اکاونٹ جعلی ہو تو یہ بھی آپ کی اخلاقی ذمہ داری ہے کہ آپ اس اکاونٹ کو رپورٹ کریں تا کہ ٹویٹر اس پر فوری عمل کرے۔’

 

https://twitter.com/FarhanKVirk/status/1039415597967265792

انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ صرف ایک ہفتے میں جعلی اکاؤنٹس کا قلع قمع کر سکتے ہیں بشرطیکہ انھیں حکومت سے کچھ مدد ملے۔

اس بارے میں فرحان ورک کا کہنا تھا کہ انھوں صرف ایف آئی اے اور نادرا سے کچھ مدد درکار ہوگی جس سے وہ بڑے پیمانے پر بنائے گئے جعلی اکاؤنٹس کو ختم کر سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp