اے خدا، مری عرج سنو۔۔۔


 \"alishah\"میرے سامنے ایک تصویر ہے۔ لیکن میرے ایک ہی کیا، ہم سب کے سامنے ہے۔ بے جان چہرے کی تصویر۔ جس میں پیلاہٹ چہرے کے خد و خال پر حاوی ہوئی جاتی ہے۔ ویسے بھی اب علیشیا کو کیا فرق پڑتا ہے کہ اس کے چہرے کےخد و خال کس طرح دِکھتے ہیں۔ یہ چہرہ تو زندگی میں اس کےماں باپ سمیت دیگر رشتے نہ بچا پایا۔ کچھ کام نہ آیا۔ صرف ایک لکیر یا ایک لوتھڑے کی کمی اس کے تمام اعضا پر بھاری پڑ گئی۔ وہ کہیں کی / کا نہ رہا۔ تو اس موئے چہرہ کی کیا فکر کرنا۔ ہاں اس سے انکار نہیں کہ زندگی تو اس نے اس چہرے کے سہارے کاٹی۔ چلو جیسی بھی کٹی لیکن کٹتی گئی۔ اب تصویر میں یوں نظر آرہا ہے کہ اس زرد چہرے کی آنکھیں بند کی جا چکی ہیں۔ اس کی مرضی کے بغیر۔ لیکن اس کا منہ اب بھی کھلا ہے۔ جبڑے پر پٹی باندھنے کے باوجود اس کے لبوں کو بند نہیں کروایا جا سکا ہے۔ وہ ہلکے سے کھلے لب شکوہ کناں ہیں۔ فریادی نہیں۔ صرف شکوہ کرتے ہوئے۔ شاید یہ کہتے ہوئے۔۔۔

اے میرے رب تو نے اپنے ارادے سے مجھے پیدا کیا۔ میں نے تجھے پیدا کر کے احسان کرنے کی عرضی نہیں ڈالی۔ تو اے میرے خدا، تو نے ایک لکیر یا ایک لوتھڑے کی کمی کیوں رہنے دی؟خدایا تو جانتا ہوگا لیکن پھر بھی میں تجھے بتانا چاہتی یا چاہتا ہوں کہ اس کمی نے مجھےاندر اور باہر سے تار تار کر ڈالا۔ اور خدایا یہ چاہتا یا چاہتی کا لفظ استعمال کرنے پر مجھے معاف کرنا۔ مجھے تیری خدائی کی قسم مجھے اس بارے خود بھی علم نہیں کہ میں ہوں کیا؟ بس اسی وجہ سے ایسے بول گئی یا گیا۔ میرے مہرباں خدا میں تیرے علم میں لانا چاہتی یا چاہتا ہوں کہ اس بات کو ریکارڈ پر رکھا جائے۔ تیرے اس جہاں میں میری یا مجھ ایسوں کی زندگی ایسی ہی گذری جیسی لیڈی ریڈنگ ہاسپیٹل پشاور میں گھنٹوں تک میری مرتے مرتے، دم دیتے گذری۔ لیکن تجھے ایک بات بتاؤں اے میرے مہرباں؟جس طرح لیڈی ریڈنگ ہاسپیٹل کے اسٹاف یا ڈاکٹروں کا سلوک تھا، اس کے تو ہم عادی ہیں۔ اسی طرح کا سلوک تو ہمیں اپنے ماں باپ کی طرف سے ملتا ہے تو اس میں نیا کیا؟ کہنے والے کہتے ہوں گے کہ اس میں بھلا کیا تکلیف؟ مگر میرے خدا اس دوران جو جسم میں لگی آٹھ گولیوں کی آگ تھی وہ سہی نہیں جاتی تھی۔ تو بس اسی آگ میں ہماری زندگی جلتی گذری۔

اے میرے خدا میں تیرا زیادہ وقت نہیں لینا چاہتی یا چاہتا۔ اس لئے اس بات کو رہنے دیتے ہیں کہ تو نے ہمیں پیدا کیوں کیا۔ لیکن یہ تو شکوہ بنتا ہے کہ ایسی زمیں پر کیوں پیدا کیا؟ ایسی جگہ کیوں پیدا کیا۔ ایک بات بتاؤں؟ کئی دفعہ مجھے ایسا لگتا تھا کہ اس پیٹ کی دوزخ کے پیچھے مجھ سے گناہ وناہ ہوجاتے ہیں۔ میں تجھ سے توبہ کرنے کی نیت کر کے تیرے در پر آئی یا آیا۔ اور سچ کہہ رہی یا رہا ہوں۔ تو جیسا بھی چاہے میں قسم اٹھانے کو تیار ہوں کہ نہا دھو کر صاف کپڑے پہن کر آئی تھی یا آیا تھا۔ لمیں اس لئے آئی تھی یا آیا کہ میں نے سنا تھا تو سب سے بڑا معاف اور رحم کرنے والا ہے۔ مگر تیرے گھر کے در اندر پیر رکھتے ہی مجھ پر قہر نازل ہوگیا۔ مسجد کا ایک ملا ہی کیا سارے مقتدی گالم گلوچ اور مارنے پر تُل اٹھے۔ میں بڑی مشکل سے اپنا بچاؤ کر سکی یا سکا۔ ۔ پھر اے تمام انصاف کرنے والوں سے زیادہ انصاف کرنے والےاب تو ہی فیصلہ کر کہ ہم کیا کرتے، جاتے تو کہاں جاتے، جہاں ہمارے لئے اپنے ماں باپ کے تو کیا، تیرے گھر میں بھی جگہ نہیں تھی۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments