میں منافق نہیں ہوں



کیا ہم میں اتنی جرات ہے کہ ہم چیف جسٹس ثاقب نثار کے بارے کسی لگی لپٹی کے بغیر سچ لکھ سکیں؟کیا ہم پوراسچ لکھنے کے لئے اُن کی ریٹائرمنٹ کا انتظا ر کریں گے؟ کیا سچ لکھنے کی ذمہ داری صحافی سے مورخ کو منتقل ہو چکی ہے؟یہ تو سراسر مُنافقت ہے اور میں آج اس منافقت سے سرِ عام اِنکار کرتا ہوں۔اب زرا تحمل سے میری بات سنیے!

کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک فرد پوری قوم کا ضمیر بن جاتا ہے، اور اُس کی آواز قوم کے ضمیر کی آواز کہلاتی ہے۔ حکیمِ یونان سقراط سے جرمن چانسلر ولی برانٹ اور فرانسیسی دانش ور ژاں پال سارت تک ، گنبدِ زمان و مکاں ضمیر کی ان آوازوں کی باز گشت سے آج بھی گونج رہا ہے۔بلا شبہ ایسے افراد تاریخ کا انعام ہوتے ہیں اور وہ قومیں بخت آور ہوتی ہیں جن کے درمیان یہ ہستیاں سانس لیتی ہیں۔اس لحاظ سے اہلِ پاکستان اپنی خوش نصیبی پہ جتنا بھی ناز کریں کم ہے۔

اس نقار خانے میں شور بہت ہے، کان پڑی آواز سُنائی نہیں دیتی، ایسے میں ضمیر کی آواز گم ہو جائے تو حیرت کیسی؟ ویسے بھی یہ آواز پھیپھڑوں کے زور پہ بات نہیں منواتی، اس کی طاقت کا سرچشمہ عوام یا ذاتی کروفرنہیں ہوتا بلکہ یہ ضمیر کی آواز اپنی تمام تر قوت ابدی سچائیوں اور دائمی اصولوں سے کشید کرتی ہے۔ یہ آواز Go With the Flowکے نظریہ کا انکار کرتی ہے اور ’حاضر و موجود‘ سے بیزار کرتی ہے۔

وہ قوم خوش قسمت ہوتی ہے جسے کسی ہستی کی صورت میں اک سائبان میسر آجاتا ہے، جس کی چھاؤں میں وہ درماندہ قوم تاریخ کے کسی موڑ پر سکون کا سانس لے پاتی ہے، محفوظ محسوس کرتی ہے، اپنے مسیحا کی درازی عمر کی دُعائیں کرتی ہے اور ساتھ ہی ساتھ ایک مسلسل خوف میں بھی مبتلا رہتی ہے۔۔۔اُس چھتر چھایا کے چھن جانے کا خوف کہ ’ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں‘۔

23 ربیع الاخر 1440 ھجری، بروز جمعرات، سورج صبح سات بج کر بارہ منٹ پہ طلوع ہو گا اور پانچ بج کر تئیس منٹ پر غروب ہو جائے گا، اس روز اوسط درجہ حرارت آٹھ ڈگری سینٹی گریڈ ہو گا اور دن کی روشنی دس گھنٹے بیس منٹ راج کرے گی، چینی تقویم کے تحت Yiyue کا مہینہ، دیسی جنتری کے تحت ماگھ کی پانچ تاریخ اور گریگورین کیلنڈر کے مطابق تاریخ 17جنوری 2019 ہو گی۔ یہ چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کا دن ہو گا۔قوم اُس دن سے خوف زدہ ہے اسی لئے تو چیف صاحب کی تاریخِ سبک دوشی The most Googled Retirement Date ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ قوم کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے۔’چیف جسٹس کے بعد کیا ہو گا‘ یہ ہے وہ سوال جو ہر کوئی ہر کسی سے دل ہی دل میں ہر لحظہ پوچھ رہا ہے۔ جب چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ آپ لوگ میرے بعد کیا کریں گے، کیسے نظام چلائیں گے، تو وہ دراصل قوم کے جذبات کی عکاسی کر رہے تھے، قوم کے اندیشوں کو زبان دے رہے تھے۔اور یہ جو لوگ کہتے ہیں کہ ’قبرستان ناگزیر لوگوں سے بھرے ہوئے ہیں‘ یہی لوگ صبح شام قحط الر جال کا رونا روتے بھی نظر آتے ہیں۔

سب سے پہلے تو ثاقب نثار صاحب کو تاریخی تناظر میں دیکھئے، وہ آپ کوپاکستان کے ہر سابق چیف جسٹس سے مختلف نظر آئیں گے۔ ’میں اپنے چہرے پہ وہ کالک نہیں ملوں گا جو میرے پیش رو اپنے چہروں پہ ملتے رہے ہیں‘ یہ فقرہ چیف جسٹس نے مارشل لاز اور اسمبلیاں ٹوٹنے کی توثیق کرنے والے چیف جسٹسز کے حوالے سے کہا تھا۔ پھر انہوں نے قوم سے بروقت انتخابات کا وعدہ کیا اور تمام اہلِ وطن گواہ ہیں کہ چیف جسٹس کے عہد مصمم سے ٹکرا کر ہر شرارت پاش پاش ہو گئی، دونوں وعدے سچے ہو گئے۔

ایمان داری سے بتائیے کیا پاکستان کی تاریخ میں کوئی ایسا چیف جسٹس آیا ہے جس تک رسائی اس قدر آسان ہو، جس کی گاڑی کے سامنے کوئی دکھیاری آ جائے تو اسے عدالت میں بلا کر اس کا مسئلہ حل کر دیا جاتا ہے، بابرہ شریف سے لے کر بے چہرہ سائلین تک سب کے مسئلے حل ہو رہے ہیں۔ عائشہ احد نے چیف جسٹس کو ایک واٹس ایپ میسج کیا اور اُس کی زندگی بدل گئی، حمزہ شہباز سے اُس کے برس ہا برس کے لٹکتے معاملات کا قصہ چشم زدن میں تمام ہوا۔ چیف صاحب کو معلوم تھا کہ الیکشن کے دہانے پر شریف خاندان کو اتنا بڑا ریلیف دینے سے اُن پر اُنگلیاں اُٹھیں گی لیکن اُنہوں نے رائے عامہ کی پرواہ نہ کی، ’گھر کا بڑا‘ ہونے کے ناطے فریقین میں صلح کرائی، انصاف کا بول بالا کیا۔

یہ درست ہے کہ نواز شریف کی نا اہلی کے فیصلے سے ملک کا ایک حصہ اُن سے کچھ ناراض ہو گیا ہے لیکن بڑوں سے کیا ناراضی، ہر شئے ایک مخصوص فاصلے سے اپنی اصل صورت آشکار کرتی ہے، کچھ وقت گزرے گا تو نواز شریف کے حامی بھی اس معاملہ کو زیادہ بہتر طور پہ سمجھ سکیں گے اور انہیں انشا اﷲ ثاقب نثار صاحب سے قطعاً کوئی ناراضی نہیں رہے گی اور وہ بھی سارے ملک کی طرح اُن کی عظمت کے گیت گائیں گے۔
ہمارے چیف جسٹس کی بس ایک ہی خامی ہے اور وہ ہے اُن کا دلِ درد مند جو ہر آن پاکستان اور اس کے عوام کے لئے فکر مند رہتا ہے،جو اُن کی تکلیفوں میں کمی کا کوئی موقعہ ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، جو اُن کی بہتری کے لئے کسی بھی حد تک جانے کے لئے ہر وقت تیار رہتا ہے۔ یہ ڈیم کی ساری کہانی دلِ درد مند کا شاخسانہ ہی تو ہے، یہ ملک اُن کی آنکھوں کے سامنے بوند بوند کو ترسے گا۔ یہ اُن سے دیکھا نہیں جاتا۔

کیا شہروں سے کچرا صاف کروانا بُری بات ہے، کیا ذہنی معذوروں کے ساتھ وقت گزارنا بُری بات ہے، کیا ہسپتالوں کی اصلاح کی کوشش بُری بات ہے؟ یہ سب تو اچھی باتیں ہیں، یہ سب تو حکایاتِ دلِ درد مند ہیں۔ اور چیف جسٹس پہ یہ اعتراض کہ یہ اُن کے کرنے کے کام نہیں ہیں اور اُنہیں ملکی عدالتوں میں زیرِ اِلتوا لگ بھگ اٹھائیس لاکھ کیسز نپٹانے کی سعی کرنا چاہیے، ایک لغو، بے بنیاد اور بودا اعتراض ہے جس کی اساس سوائے کوتاہ نظری کے کچھ نہیں ہے۔

ثاقب نثار ایک با وقار، متین اور حلیم الطبع شخص ہیں جو معاشرے میں مسلسل اعلیٰ قانونی اور اخلاقی قدروں کے فروغ کے لئے کوشاں ہیں۔ مثالیں دیکھئے۔۔۔ نیب کو ہدایت کی ہے کہ لوگوں کی پگڑیاں نہ اُچھالیں، تفتیش مکمل ہونے سے پہلے فقط الزام پہ لوگوں کو میڈیا پر بدنام مت کریں، ٹی وی اینکرز کو حکم دیا ہے کہ زیر سماعت مقدمات میں رائے عامہ کو ملزم کے حق یا مخالفت میں ہموار نہ کریں، ملزموں کو مجرم بنا کر پیش نہ کریں۔ یہ کتنی خوب صورت باتیں ہیں، یہ سب ہمارے چیف جسٹس کی باتیں ہیں۔ یہ باتیں پھیلانے کی ضرورت ہے، سب تک پہنچانے کی ضرورت ہے تاکہ ہر کسی کو اندازہ ہو سکے کہ ہم کس قدر عالی ظرف اور باوقار قاضی کے پروں تلے محفوظ و مامون زندگی گزار رہے ہیں۔

سچ بولنے کے لئے ہمیں چیف جسٹس ثاقب نثار کی ریٹائرمنٹ کا انتظار نہیں کرنا چاہیے۔ یہ تو سراسر مُنافقت ہے اور میں آج اس منافقت سے برملا اِنکار کرتا ہوں۔ یہ کہنے میں کیا شرمانا کہ ہم عہدِ ثاقب نثار میں سانس لے رہے ہیں اور بے شک یہ پوری قوم کے لئے فخر کا باعث ہے۔ اور اگر آج چند نادانوں کو اس حقیقت کی معرفت نہیں ہے تو زرا وقت گزرنے دیجیے، وہ بھی پکار اُٹھیں گے کہ ہمارے ہیں ثاقب نثار۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).