حور اور لنگور کی تصویر


چھوٹی سی بیٹی کھیل رہی تھی۔ شوہر نے بیوی سے کہا دیکھو ایک دن کو ئی لنگور دولہا بن کے آئے گا اور اسے بیاہ کر لے جائے گا۔ بیوی نے بہت پیار سے کہا ”آپ کو یاد ہے ایک دن آپ بھی یونہی دولہابن کے آئے تھے“

لیکن جب یہ لمحہ آتا ہے۔ رشتے کی بات چلتی ہے تو سماج کے سارے ریت راوج ہی بد ل جاتے ہیں۔ وہی لڑکی جو آپ کو باپردہ اور باحیا چاہیے ہو تی ہے۔ سب سے پہلے اس کی حیا و شرم و پردے کو بہت جواز کے ساتھ چاق کیا جاتا ہے۔
”لڑکی کی پیاری سی، اچھی سی تصاریں بھیج دیں ”

یہ” نعرہ مستانہ“ اس کے گھر والو ں کو اور خو د لڑکی کو اتنی بار سْننا پڑتا ہے کہ اس کو اپنی بے عزتی کا احساس ہو نے لگتا ہے۔ اس کی تعلیم، اس کی تربیت، اس کا خاندانی پن، اس کا سْگھڑ پن، اس کی جاب، اس کی کسی بھی طرح کی قابلیت بے معنی کر دی جاتی ہے۔
”اگر لڑکی پسند آگئی تو بات آگے چلے گی۔ “
لیجیے صاحب۔ ایک اور مقام توہین۔

لڑکی کے گھر والے کبھی لڑکے والو ں سے مطالبہ نہیں کرتے کہ ہمیں بھی لنگور کا دیدار نصیب کروایا جائے۔
مجھے باحیا بیوی کا مطالبہ کرتے خاندان کی سوچ پہ حیرانی ہے؟

اس وقت آپ کی پردہ داری کہاں جاتی ہے، اس وقت آپ کی حیا و شرم کہا ں جاتی ہے۔ جب آپ لڑکیو ں کی اچھی اور پیاری کی تصاویر منگواتے ہیں۔ کیا آپ کو تب خیال نہیں آتا کہ آپ کی ہو نے والی باحیا و باپردہ بیوی کی کتنی تصاویر کتنے فوٹو گرافرز نے کس کس انداز سے بنوائی ہو گی کہ وہ آپ کو اچھی لگ سکے۔ کتنے میرج بیورو ز اور رشتے والی ماسی کے پرس میں ہو نگی۔ کتنی گندی نظروں نے اسے دیکھا ہو گا۔ اور کس کس اینگل سے دیکھا ہو گا۔ کیا دانت پورے بتیس ہیں؟ منہ تو بند ہے۔ چلتی بھی ہے کہ نہیں؟ یہا ں تو بیٹھی ہوئی ہے؟ نیت تو ٹھیک ہے؟ کیونکہ دل تو سینے کے اندر ہے، دکھائی نہیں دے رہا۔ موٹی ہے۔ ہائے نہیں پتلی بہت ہے۔ گھر کے معاشی حالات بہتر نہیں لگتے، نہیں، نہیں فیشن ہے۔

ارے لنگورو۔
حوصلہ کرو اور تصویر لیتے ہوئے اپنی تصویر بھی یو نہی بھیجا کرو۔ تاکہ تمہیں اور تمہارے گھر والوں کو بھی اس ”عزت“ کا شاید احساس ہو جو تم سب مل کر ایک تصویر کو دیکھ کر، کسی کو دیتے ہو۔

یہا ں سوال ان سو کالڈ خاندانی خاندانو ں کا ہے۔ جو اپنی بیٹیوں کی تصاویر تو بھیج دیتے ہیں۔ مگر کبھی لڑکے کی تصویرکا مطالبہ نہیں کرتے۔
خدارا آپ اپنی بیٹی کی عزت خود کریں گے تو دوسرے اس کی عزت کریں گے۔ آپ اس کی عزت نفس کا خیال رکھیں گے تو۔ وہ دوسروں کو عزت دینے کے قابل ہو گی۔ آپ اس کی عزت کروائیں گے تو دوسرے اس کی عزت کریں گے۔

کسی شخص کی عزت نفس مجروع کر کے، آپ اس سے یہ توقع نہیں کر سکتے کہ وہ آپ کی اور آپ کے گھر والو ں کی عزت کرے۔ یہ عمر بھر کے معاملے ہوتے ہیں۔ ان کو ہم لمحوں بھر میں سماج کی ریت رواجو ں کے سائے میں مجبور ہو کر گدلا کر دیتے ہیں۔ اور وہ تخلیق کار جس نے ایک نئے گھر کی بنیاد رکھنی ہوتی ہے۔ اسے نفسیاتی طور ہی ہلا دیتے ہیں۔ باربار مسترد ہونے والی بچی کیا نفسیاتی طور پہ صحت مند رہے گی؟ درجنو ں سینکڑوں کڑوی نگاہوں سے گزرنے والی بچی آ پ کو غیر مشکوک نگاہ ِ محبت دے سکے گی؟

رواج کوئی فطری کلیہ نہیں ہے جو بدلا نا جا سکے۔ یہ اختیاری حْسن ہے۔ جس کو آپ شعوری طور پہ مزید خوبصورت بنا سکتے ہیں۔
”عزت محبت سے برا جادو ہے“
آپ سب کی بیٹیاں معاشرے کی زرخیز زمینیں ہیں۔ اپنی بیٹیوں کی عزت کریں اور کروائیں۔ (لنگور کی تصویر بھی منگوائیں) معاشرہ عزت دار تب ہی بنے گا۔ جب عزت سب کی سانجھی ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).