کراچی کے لاپتہ بچے: پولیس ایف آئی آر درج کیوں نہیں کرتی؟


گمشدہ بچے

پولیس لاپتہ بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی ہے: فلاحی تنظیم

کراچی کے علاقے ناظم آباد نمبر 3 کی رہائشی منور بیگم صبح کو لوگوں کے گھروں میں کام کاج کرتی ہیں اور شام کو اپنی بیٹی کی تلاش کرتی ہیں، 2013 میں ایک دن عاصمہ پانی لینے کے لیے گھر سے نکلیں تھیں کہ لاپتہ ہوگئیں، اس وقت اس کی عمر 13 برس تھی۔

منور بیگم نے بتایا کہ انہیں چھوٹی بیٹی نے ٹیلیفون کرکے بتایا کہ پڑوسی کی بچے نے انہیں بتایا کہ ایک چھوٹے قد کا شخص عاصمہ کو اپنے ساتھ لے گیا ہے، جس کے بعد انہوں نے پڑوس سمیت آس پاس کے علاقوں میں بیٹی کی تلاشی کی لیکن کچھ معلوم نہیں ہو سکا۔

یہ بھی پڑھیئے

ڈیرہ اسماعیل خان: ایک ہی محلے کے آٹھ نوجوان لڑکے لاپتہ

بچے کی لاش سوٹ کیس میں چھپانے والا شخص گرفتار

کراچی: بچے سے جنسی زیادتی کے الزام میں قاری گرفتار

مدرسے میں تشدد سے بچہ ہلاک، استاد کا ریمانڈ

منور بیگم تعلیم یافتہ نہیں وہ پڑوس کے ایک نوجوان کے ساتھ حیدری تھانے گئیں اور شکایت درج کراکے واپس آگئیں جس کے بعد سے وہ تھانے کے چکر لگاتی رہیں، چار سال کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ پولیس نے مقدمہ ہی درج نہیں کیا تھا، انہوں نے مقامی تنظیم روشنی ہیلپ لائن سے رابطہ کیا اب تین روز قبل ہی ان کی بچی کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

گمشدہ بچے

عدالت نے بچوں کی بازیابی کے لیے پولیس کو تمام جدید ٹیکنالوجی اور آلات استعمال کرنے کا بھی حکم جاری کیا

کراچی میں گمشدہ بچوں کی بازیابی کے لیے کام کرنے والی تنظیم روشنی کے مطابق جنوری 2017 سے لیکر رواں سال ستمبر تک ان کی ہیلپ لائن کو 200 بچوں کی گمشدگی کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں جن میں سے 177 بازیاب ہوگئے ہیں جبکہ 23 ابھی تک لاپتہ ہیں، جن کی بازیابی کے لیے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست زیر سماعت ہے۔

روشنی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ پولیس لاپتہ بچوں کی گمشدگی کی ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کرتی ہے، اس ملک میں اگر بچوں کا جنسی وجسمانی استحصال روکنا ہے، ان کی اسمگلنگ کی روک تھام کرنی ہے تو بچوں کی گمشدگی کا سدباب ہونا چاہیے اور اس کی فوری طور پر تفیش ہونی چاہیے۔

زینب

بچوں کو گداگری یا جنسی استحصال کے بھی اغوا کیا جاتا ہے

سندھ ہائی کورٹ نے جمعرات کو 23 گمشدہ بچوں کی بازیابی سے متعلق درخواستوں کی سماعت کے دوران پولیس کی کارکردگی پر اظہار برہمی کیا اور آئندہ سماعت پر آئی جی سندھ کو طلب کر لیا۔

سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ کمشدگی کی 22 ایف آئی آر درج کر لی گئی ہیں اور ایک بچی نورین کو بازیاب کروا لیا گیا ہے۔ عدالت نے ڈی آئی جی کرائیم برانچ پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 23 میں سے صرف ایک بچے کو بازیاب کروایا گیا ہے، پولیس کی تحقیقات انتہائی سست ہیں جبکہ لاپتہ بچوں کی عدم بازیابی پر لوگوں میں سخت تشویش پائی جاتی ہے۔

عدالت نے بچوں کی بازیابی کے لیے پولیس کو تمام جدید ٹیکنالوجی اور آلات استعمال کرنے کا بھی حکم جاری کیا۔

واضح رہے کہ روشنی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کی جانب سے سپریم کورٹ میں بھی بچوں کی گمشدگی پر ایک آئینی درخواست زیر سماعت ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ صرف رواں سال 30 لاپتہ بچوں کی لاشیں مل چکی ہیں۔

مظاہرہ

لاہور میں دسمبر 1999 میں ایک شخص کی جانب سے 100 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد ہلاک کرنے کے انکشاف کے بعد پاکستان میں بچوں کے تحفظ کا معاملہ زیر بحث آیا تھا

روشنی ریسرچ اینڈ ڈولپمنٹ ویلفیئر ایسو سی ایشن کا کہنا ہے کہ کراچی کے کم آمدنی والے علاقوں سے لاپتہ ہونے والے بچوں کی تعداد زیادہ ہے۔ لانڈھی، کورنگی زیادہ ہائی الرٹ علاقے ہیں۔

تنظیم کے صدر محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر نومولود بچے سے لیکر چار سال کا بچہ گمشدہ ہے تو وہ گروپ انہیں اٹھانے میں ملوث ہو رہے ہیں جو بچوں سے گداگری کراتے ہیں یا پھر بے اولاد جوڑوں کو فروخت کردیتے ہیں۔ اگر 5 سے 10 سال کی عمر کا بچہ لاپتہ ہے تو اس کو گداگری میں ملوث گروپ لے جا سکتا ہے، یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کے خاندانی مسائل ہوں یعنی والدین میں سے کوئی ایک سوتیلا ہو یا والدین میں علیحدگی ہو رہی ہو۔ بچے اس وجہ سے بھی غائب ہو جاتے ہیں جو بعد میں مل بھی جاتے ہیں۔

ان کے مطابق 12 سے 18 سال کی عمر کے بچے رن اوے کیٹگری میں آتے ہیں جن اگر کوئی خواہش پوری نہیں ہوئی یا گھر میں تشدد ہوا تو وہ نکل گئے۔ ان میں کئی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ بھی چڑھ جاتے ہیں۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ لاپتہ کی تشریح سیدھی سی ہے یعنی جو بھی 18 سال سے کم عمر ہے وہ بچہ ہے اور ان میں سے جو بھی گھنٹوں، دنوں یا مہینوں سے اپنے والدین سے رابطے میں نہیں وہ لاپتہ ہے۔ اب اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے وہ کسی ندی نالے میں گر سکتا ہے، اس کو کوئی ورغلا کر لے جاسکتا ہے، بھکاری مافیہ اغوا کر سکتا ہے، جنسی زیادتی کی نیت سے لے جایا جا سکتا ہے، تاوان کے لیے اغوا ہو سکتا ہے اور اس کی اسمگلنگ کی جا سکتی ہے۔

لاہور میں دسمبر 1999 میں جاوید اقبال نامی شخص کی جانب سے 100 بچوں کو جنسی زیادتی کے بعد ہلاک کرنے کے انکشاف کے بعد پاکستان میں بچوں کے تحفظ کا معاملہ زیر بحث آیا تھا، عدالت نے ملزم جاوید اقبال کو سزائے موت سنائی تھی لیکن بعد میں وہ اپنے سیل میں مردہ حالت میں پایا گیا تھا۔

محمد علی کا کہنا ہے کہ اگر ان دنوں میں بچوں کی گمشدگی کی رپورٹس درج ہوتیں اور پولیس تحقیقات کرتی تو کسی نہ کسی طرح وہ اس ملزم تک پہنچ جاتی اور اتنے بچے ہلاک نہیں ہوتے، پولیس کا یہ رویہ آج بھی جاری ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32549 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp