بالک ہٹ کا خوفناک وائرس


تاریخ ایک طرح ماضی کا آئینہ بھی ہے اور مستقبل کا ہالہ بھی۔ دوسری جنگِ عظیم جس میں کروڑوں انسان ہلاک ہوئے اور بسیط منطقے کھنڈر بن گئے تھے، اس کی آگ ہٹلر اور مسولینی نے بھڑکائی تھی۔

انہوں نے جاپان کو بھی اپنے ساتھ ملا لیا تھا جو غیرمعمولی جنگی مہارت رکھتا تھا۔ یورپ کے یہ دونوں شعلہ باز لیڈر بگڑے ہوئے بچوں کی طرح بہت ضدی اور تنگ داماں تھے اور آمریت کی بدترین مثال۔ ان کے مظالم پڑھتے ہوئے آج بھی خون رگوں میں منجمد ہونے لگتا ہے۔

بدقسمتی سے ہمارے عہد میں بھی انہی جیسے کچھ لوگ بلند بانگ نعروں سے برسر اقتدار آ گئے ہیں، ان میں امریکی صدر ٹرمپ اور بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے بدنامی کا سہرا اپنے سر پر سجا رکھا ہے اور جہاں بانی کا سکہ جمانے کے لئے ساز باز کرتے آئے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے سفید فام امریکیوں کی بالادستی کے ترانے گائے اور 2016کے صدارتی انتخابات میں حکمران بن گئے۔ اسی طرح دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کے دعویدار بھارت میں وزیراعظم نریندر مودی نے ہندوتوا کا بڑے پیمانے پر چرچا کیا اور تمام اقلیتوں بطور خاص مسلمانوں کے خلاف انسان دشمن اور تشدد پر مبنی طرز عمل اپنایا تو دوبارہ وزارتِ عظمیٰ پر فائز ہو گئے۔

تاریخی طور پر دونوں بازیگروں کی انتخابی کامیابی بنی نوع انسانی کے لئے ایک منحوس گھڑی ثابت ہوئی ہے۔ ان کے مابین عملی تعاون اور دیرپا تعلقات کے عہد و پیمان ہو چکے ہیں جن کا سب سے بڑا مقصد بحرالکاہل منطقے میں چین کے اثرورسوخ کو محدود کرنا اور اس علاقے کی چودھراہٹ بھارت کو سونپ دینا ہے۔ بھارت ایشیا میں آبادی کے لحاظ سے چین کے بعد دوسرا بڑا ملک ہے جس کی اقتصادی نشوونما گزشتہ دس برسوں میں چھ فیصد سے زائد رہی ہے، چنانچہ چین کا گھیرا تنگ کرنے کے لیے امریکی صدر نے اسے اہم ترین ذمہ داری سونپ دی ہے۔

زمامِ حکومت سنبھالتے ہی اپنے پالیسی بیان میں پاکستان کو اس کی دورخی پر سبق سکھانے اور بھارت کو بحرالکاہل منطقے کی سرداری سونپ دینے کا اعلان کر دیا تھا اور اسے جدید ترین مہلک ہتھیار فراہم کرنے اور ایٹمی کلب کا ممبر بنانے کے لیے بھی اقدامات کیے تھے۔ یہ بھی طے پایا تھا کہ بھارت اور امریکہ خلائی تحقیق کے لئے مشترکہ منصوبے بنائیں گے اور اس غرض کے لیے لداخ اور بھارت کے مغربی ساحل کیرالا پر تجربہ گاہیں قائم کی جائیں گی۔

امریکی شہ پا کر نریندر مودی نے ریاست جموں و کشمیر کو آئین میں دی ہوئی خصوصی حیثیت ختم کر دی اور لداخ کو ریاست سے علیحدہ کرکے بھارتی قلمرو میں شامل کر لیا اور لائن آف ایکچوئل کنٹرول کے ساتھ ساتھ سڑکوں اور ہوائی اڈے کی تعمیر شروع کر دی۔ چینی حکام نے بار بار اعتراض کیا مگر بھارت نے سنی اَن سنی کر دی اور وہ اپنی فوجی طاقت میں اضافہ کرتا اور امریکی تھپکی پر چین سے چھیڑ چھاڑ کرتا رہا۔ لداخ کا علاقہ اسٹرٹیجک اعتبار سے غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے۔

یہاں چین کے علاوہ نیپال، بھوٹان اور تبت کی سرحدیں ملتی ہیں۔ تبت 1920تک چین کا حصہ تھا۔ بعد ازاں بین الاقوامی سیاست کے زیر اثر اسے چین سے علیحدہ کر دیا گیا جس کے باعث گمبھیر علاقائی مسائل پیدا ہوئے۔ چین نے حالات پر قابو پانے کے لیے 1950میں تبت پر قبضہ کر لیا اور ایک خودمختار یونٹ کے طور پر اپنے اندر شامل کر لیا۔ بھارت نے تبت کے دلائی لاما کو اس وقت سے اپنے ہاں پناہ دے رکھی ہے اور وہ بین الاقوامی سطح پر اسے چین کے خلاف استعمال بھی کر رہا ہے۔

اس بنا پر چین اس خطے کے بارے میں بہت حساس ہے۔ اس کے علاوہ لداخ دریائوں، جھیلوں، آبشاروں اور گلیشیرز کی سرزمین ہے۔ وہ تمام دریا جو جنوبی ایشیا کے علاقوں کو سیراب کرتے ہیں، ان کا منبع یہی علاقہ ہے۔

اگر یہ علاقہ بھارت کے قبضے میں چلا جاتا ہے، تو وہ تمام آبی ذخائر پر قابض ہو جائے گا جو پاکستان کے لیے یقینی طور پر حد درجہ تشویشناک ہوگا۔ لداخ سیا چین کی بلندیوں سے متصل اور شاہراہ قراقرم کے قریب واقع ہے، اس اعتبار سے ہمارے عظیم دوست چین نے ایک بار پھر بھارت کی فوج کو شکست سے دوچار کرکے یہ پیغام دیا ہے کہ بھارت میں فوجی لحاظ سے کوئی دم خم نہیں جس کی حیثیت جنوبی ایشیا میں بھی بڑی متنازع ہے اور منطقہ بحرالکاہل میں اس کے لئے کوئی جگہ نہیں۔

1962ء میں بھی اسی علاقے میں چین اور بھارت کی فوجوں کے درمیان خونریز جنگ ہوئی تھی اور ہزاروں بھارتی فوجی مارے گئے تھے اور سینکڑوں اپنے جوتے چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے تھے۔ وزیراعظم نہرو کا سارا کروفر خاک میں مل گیا تھا۔ اس کے بعد 15جون 2020کی رات ہاتھا پائی میں کرنل سمیت 20بھارتی فوجی مارے گئے جس پر عالمی حلقوں میں بھارت کی بھد اُڑ رہی ہے۔

چینی ذرائع ایک ہی بات کہہ رہے ہیں کہ بھارت نے ہماری علاقائی خودمختاری پر حملہ کیا تھا اور ہمیں اپنا دفاع کرنا پڑا۔ امریکہ، جس کی طاقت پر بھارت اپنے ہمسایوں کے ساتھ دھونس اور دھاندلی سے پیش آتا رہا ہے، کورونا وائرس اور نسلی تعصب کے خلاف نہ ختم ہونے والے فسادات نے اس کی معیشت اور نخوت کو سرنگوں ہونے پر مجبور کردیا ہے۔ اب وقت ہے کہ بھارت کے ہمسایہ ممالک آپس میں اشتراک عمل سے قوت پیدا کریں اور بھارت کی ہوس بالادستی پر آخری ضرب لگائیں۔

نریندر مودی سے اپوزیشن اس ہزیمت کا حساب مانگ رہی ہے۔ راہول گاندھی نے ایک دلچسپ تبصرہ کیا ہے کہ ہمارے نریندر مودی میں جناب عمران خان کی مشابہت پائی جاتی ہے۔ ہم تو اپنے وزیراعظم کی دانشوری اور وجاہت سے متاثر ہیں، البتہ وہ کورونا وائرس سے نمٹنے کے لیے گومگو اور بالک ہٹ سے کام لے رہے ہیں۔

دنیا میں کئی ایسے ملک بھی ہیں جہاں کورونا وائرس کا ایک بھی نیا مریض سامنے نہیں آیا جبکہ پاکستان اس مرض کے متاثرین کی تعداد کے حوالے سے آگے بڑھتا چلا جا رہاہے۔ ضد اور تنگ نظری سے معاملات الجھتے جاتے ہیں اور بے اعتمادی پھیلتی ہے جو سب سے زیادہ خطرناک وائرس ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں بصیرت اور عزم عطا فرمائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments