ہم جنسیت، انسانی حقوق، ہندوستان اور سیدنا لوط علیہ السلام


جمعرات 6 ستمبر2018 کو ہندوستانی سپریم کورٹ نے ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے سیکشن 377 آئین کو واضح طور پرغیر قانونی بتا یا ہے۔ چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ ججوں نے اتفاق رائے سے اس فیصلے کا اعلان کیا۔ ہندوستان کی اس خبر کو برطانیہ کے تقریباً تمام اخبارات اور ٹیلی ویژن پر پڑھا اور دیکھا گیا۔ دراصل خبرہی ایسی تھی جس کو نشراور شائع کرنا شاید ضروری اور اہم سمجھا گیا۔ ہندوستانی سپریم کورٹ نے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دیتے ہوئے اس پرانے قانون کو رد کر دیا جسے انگریزوں نے 157 سال قبل لاگو کیا تھا۔

سیکشن 377 کے تحت اگر کسی بھی انسان پر ہم جنسی کا الزام لگایا جائے تو اسے دس سال قید کی سزا سنائی جاتی تھی۔ تاہم 2013 میں اس قانون کوکورٹ میں چیلنج کیا گیا تو کورٹ نے اسے جاری رکھنے کا فرمان دیا تھا۔ لیکن اس بار کورٹ انسانی حقوق اور مساوات کی بنیاد پر سیکشن 377 کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا ہے۔ تاہم سپریم کورٹ نے سیکشن 377 کے تحت جانوروں اور بچّوں کے ساتھ جنسی تعلقات کو غیر قانونی رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ اس کے علاوہ کورٹ نے یہ بھی کہا کہ وہ ہم جنس شادیوں اور وراثت کے معاملے میں کوئی فیصلہ نہیں کر رہے ہیں۔

اس خبر کو سنتے ہی ہزاروں ہم جنس پرست اور ان کے حامی خوشی سے جشن منانے لگے۔ وہیں ہندوستانی ٹیلی ویژن پر خوشی کا اظہار کیا گیا اور (LGBT)lesbian, gay, bisexual, and transgender کے حامی سڑکوں پر اتر آئے۔ مختلف مذہبی جماعتوں اور قدامت پرستوں نے اس کی مخالفت بھی کی ہے۔ حکمراں بی جے پی نے اسے کورٹ کا معاملہ بتا کر اپنا پلّو جھاڑ لیا ہے۔ لیکن بی جے پی کے سینئر لیڈر سبرامنیم سوامی نے اس فیصلے پر افسوس جتاتے ہوئے کہا کہ ’ اس سے (HIV) ایچ آئی وی کو بڑھاوا ملے گا جو کہ ایک افسوس ناک بات ہوگی‘۔ تو وہیں کانگریس پارٹی نے اس کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ’سماجی اور معاشرتی مساوات کے لیے یہ ایک امید افزا بات ہے‘۔ اقوامِ متحدہ نے اس خبر کا استقبال کرتے ہوئے کہا کہ ’ دنیا بھر میں جنسی شناخت اور جنسی واقفیت ایک فرد کی شناخت کا لازمی حصّہ ہے‘۔

اقوامِ متحدہ کی حمایت اور دنیا بھر میں ہم جنسی کے فروغ کے باوجود اب بھی 72 ممالک میں ہم جنسی کو ایک جرم مانا جاتا ہے۔ ان ممالک میں زیادہ تر افریقہ، مشرق وسطی اور چند ایشیا ئی ممالک ہیں۔ اس کے علاوہ دنیا کے آٹھ ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی کے جرم میں موت کی سزا دی جاتی ہے۔

ہم جنس پرستوں نے اٹھارہ سال کی طویل جدوجہد کے بعد آخر کارہندوستانی عدلیہ کو اپنے حقوق کے لیے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ عدلیہ کے فیصلے کے بعد ہم جنس پرستوں کو اپنے اپنے طور پر ہاتھوں میں بینر لیے ہوئے دیکھا گیا تو وہیں کئی لوگ خوشی کے مارے رو بھی رہے تھے۔ ان میں کئی لوگ اپنا اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ آخر کیوں وہ اپنی شناخت کو چھپائیں۔ وہ بھی ہندوستان کے ایک عام شہری کی طرح ہیں اور انہیں بھی اپنی مرضی سے جینے کا اختیار ہے۔ ایک ہم جنس پرست نے کہا کہ کئی برس سے وہ اپنے ماں باپ سے اس بات کو راز میں رکھ کر جی رہا تھا۔ جس سے اسے کافی پریشانی ہو رہی تھی۔ اس نے مزید کہا کہ اب وہ اس بات کو اپنے ماں باپ سے بلا کسی خوف کے بتا پائے گا۔

حالانکہ اس خبر کو ہندوستان کے بڑے شہروں میں کافی حمایت ملی اورعدلیہ کے فیصلے کا استقبال کیا گیا لیکن اس کا اثر ہندوستان کے چھوٹے شہروں اور مضافات میں شاید برعکس ہو۔
دلی کے عیسائی مذہب کے دو اہم اپوسٹولک چرچ نے اس فیصلے کو افسوس ناک بتایا ہے اور کورٹ کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ وہیں مسلمانوں کی تنظیم آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈنے بھی مذمت کی ہے اور غیر جانبدار موقف رکھتے ہوئے اس معاملے کو عدالت پر چھوڑ دیا ہے۔ ہندو قوم پرست جماعت آر ایس ایس نے عدالت کے فیصلے سے اتفاق کیا ہے اور ہم جنسی کو غیر قانون ماننے سے انکار کیا ہے۔ آر ایس ایس نے مزید کہا کہ اس مسئلے کو سماجی اور نفسیاتی سطح پر دیکھا جانا چاہیے۔

47سالہ عارف ظفر جو کہ لکھنؤ کا رہنے والا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ میری زندگی کافی تکلیف دہ تھی۔ عارف کے شرٹ پر ہلکی گلابی رنگ کا بٹن اس بات کی نشاندہی کر رہا تھا کہ عارف ہم جنس پرستوں کا حامی ہے۔ عارف کا کہنا ہے کہ ہم جنسی کی وجہ مجھے کئی دفعہ سماجی تشدد جھیلنی پڑی۔ سماجی ناہمواریوں سے دوچار ہونا پڑا۔ میرے لیے سب سے زیادہ مشکل وہ وقت تھا جب لوگ ہمیں ٹھیک طرح سے پانی بھی نہیں پینے دیتے تھے۔ اس کے علاوہ کئی بار اس کی پٹائی بھی کی گئی۔ عارف کو اس فیصلے کے لیے 17سال انتظار کرنا پڑا۔ پولیس کئی بار سیکشن 377کے تحت گرفتار کر کے اس پر ظلم بھی ڈھاچکی ہے۔

ہیومن رائٹس (انسانی حقوق) نے عدالت کے فیصلے کو ایک تاریخی اور نہایت اہم فیصلہ بتاتے ہوئے کہا کہ اب ہم جنس لوگوں پر زیادتیاں بند ہو جائیں گی۔ کیونکہ پولیس ذاتی رنجش کی وجہ سے کئی ہم جنس لوگوں پر سیکشن 377کے تحت ظلم ڈھاتی رہتی تھی۔ اس کے علاوہ ہیومن رائٹس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہر انسان کو اس کی مرضی سے جینے کا حق ہے۔ پھر ہم جنس لوگوں کو سماج میں گناہ کی نظر سے کیوں دیکھا جاتا ہے؟ ہیومن رائٹس ہر انسان کے لیے مساوات اوراس کے بنیادی حقوق کے لئے آواز اٹھاتاہے اور ہم جنس پرست بھی اس سے علاحدہ نہیں ہے۔

اسلام مذہب میں ہم جنسیت کے لئے کوئی جگہ نہیں ہے۔ میں اس فعل کو ایک غیر ضروری اور ذہنی بیماری مانتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا لوط علیہ السلام کو نواحی علاقے میں پیغمبر بنا کر بھیجا تھا جہاں کے لوگ ہم جنس پرستی میں مبتلا تھے۔ سیدنا لوط علیہ السلام نے ان لوگوں کو اس بد فعلی سے روک کر اللہ کی طرف سے وعیدسنائی تو انہوں نے لوط علیہ السلام کو نبی ماننے اور نصیحت قبول کرنے سے صاف انکار کردیا اور اپنی ہوس کو جاری رکھی۔ بالآخر اللہ کا ان نافرمانوں پر شدید عذاب نازل ہوا اور وہ ایک عبرت انگیز عذاب کی وجہ سے ہمیشہ کے لئے نیست و نابود ہو گیے۔

قوم لوط کے اس شہر کو عیسائیت کی مقدس کتاب بائبل میں ’سدوم‘ یعنی گنا ہ گاروں کے شہر کا نام دیا گیا ہے۔ قرآن نے سیدنا لوط علیہ السلام کے متعلق فرمایا ہے کہ ’ قوم لوط نے (ان کی) تنبیہ کو جھٹلایا۔ ہم نے پتھراؤ کرنے والی ہوا ان پر بھیج دی(جس نے انہیں تباہ کر دیا)، صرف لوط علیہ السلام کے گھر والے اس سے محفوظ رہے، جنہیں ہم نے اپنے فضل سے صبح ہونے سے قبل (وہاں سے) بچا کر نکال لیا۔ ہم ہر اس شخص کو جزا دیتے ہیں، جو شکر گزار ہوتا ہے۔ اور لوط نے اپنی قوم کے لوگوں کو ہماری (جانب سے بھیجی گئی) سزا سے خبردار کیا لیکن وہ ساری تنبیہات پر شک کرتے اور انہیں نظر انداز کرتے رہے۔ (سورہ القمر۔ آیات 33تا 36)۔

ہم جنس پرستی کافی تیزی کے ساتھ پوری دنیا میں مقبول ہوتی جارہی ہے اور اب تو اس کے خلاف کچھ کہنا ایک جرم مانا جارہا ہے۔ میں ہندوستان کے مسلمانوں سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ ہم جنس پرستی کے فعل میں نہ مبتلا ہوں اور نہ ہی ہندوستانی عدالت کے فیصلے سے متاثر ہوں۔ ہم ایک نہایت ہی نازک دور سے گزر رہے ہیں جہاں ایک طرف انسانی حقوق اور مساوات جیسی باتوں سے خوشی محسوس کرتے ہیں تو وہیں دوسری طرف ہم جنسی اور دیگر خرافات سے ہمارے اندر ایک شک وشبہ کا شیطان سر اٹھانے لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے ہم اپنی مذہبی تعلیم اور رواداری کو بالائے طاق رکھ کر انسانی زندگی اور اس کے حقوق پر یا تو حمایت کرنے لگتے ہیں یا پھر ہم اپنا منہ بند کر لیتے ہیں۔ میں مساجد کے اماموں سے اپیل کروں گا کہ وہ اپنے خطبے میں ایسی باتوں کو سنجیدگی اور شائستگی سے لوگوں کو سمجھائے تا کہ ہم اور آپ اس فعل سے محفوظ رہیں اور اللہ کی عذاب سے ہمیں خوف ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).