ہم جیسے ماٹھے لوگوں کی توقعات


ہم چھوٹے ناکارہ ماڑ ے موٹے اور ماٹھے سے لوگ، جو اس ملک کی کرسیوں پر نئے بیٹھنے والوں سے کیسی کیسی انقلابی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں۔ خواب بننے لگتے ہیں۔ ہتھیلی پر سرسوں اُگانا چاہتے ہیں۔ ہماری تمنا ہوتی ہے کہ ہر رات جب آنکھیں بند کریں اور صبح دم جب یہ کھلیں تو ملک کے لیے کی جانے والی کسی نئی اصلاح کی آواز کانوں میں پڑے۔اخبار اٹھائیں تو امید افزا خبریں پڑھنے کو ملیں۔ الیکڑونک میڈیا کے چینلز سے آنکھیں پھوڑیں تو نئے اقدام کی آوازیں بصارتوں اور سماعتوں کی تواضع کریں۔

سچی بات ہے زرا سی کوئی تبدیلی، کسی بہتری کی طرف کوئی اشارہ، کوئی نیا اور صحیح سمت میں اٹھا قدم حوصلے کا پیغام دیں اور ہمیں خوش فہمیوں میں مبتلا کریں۔ ہمارا اندر باہر مسرور ہو جائے۔ آخر یہ وطن ہی تو ہماری کل کائنات اور ہمارا سرمایہ ہے۔ پھر یہ بھی ہوتا ہے کہ غلط افراد کا انتخاب غلط سمت کی طرف جاتے قدم مایوسی اور نہ امیدی بھر دیتے ہیں۔ اس صورت نے پہلی بار اس شدّت سے جنم نہیں لیا ہے۔ بھٹو کے دورمیں بھی کچھ ایسے ہی جذبات تھے۔ مگر وہ شدّت جو اب ہے، تب ایسی نہ تھی۔ اب توقعات بہت اونچی ہیں۔بڑا کڑا امتحان ہے۔

عام لوگوں کی بات کیا کروں سچی بات ہے میرا تو اپنا دل اِس آس میں بڑا اتھل پتھل ہوا تھا کہ جب امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو آئے، تو اُنھیں یہ ضرور احساس ہو کہ پاکستان کی نئی قیادت سابق قیادتوں سے مختلف، اپنے موقف میں واضح اور پالیسیوں میں مصمم ہے۔ وہ ڈو مور کی بجائے نو مور کہنے کا حوصلہ رکھتی ہے۔ اُسے یہ بتانے کی پوزیشن میں ہے کہ یہ امریکا بہادر کولیشن اسپورٹ فنڈ بند کرنے کا تو مجاز ہی نہیں کہ یہ امریکی امداد تھوڑی ہے۔ یہ تو اُن اخراجات اور نقصان کی تلافی کی ایک ادنیٰ سی کوشش ہے، جو پاکستان نے امریکا کو سپر پاور بنانے کے لیے جھیلی۔

ظاہر ہے دنیا کی دوسری سپر پاور کو توڑنے، اس بے وفا ملک کو دنیا کا تھانیدار بنانے کے لیے جو تباہی ہوئی، اُسے اس بے چارے غریبڑے سے ملک پاکستان ہی نے تو جھیلا ہے۔ جسے اس وقت اس نے اپنے مفاد کے لیے آنکھوں کا تارہ بنایا اور بعد میں کمی کمینوں کی طرح کھڈے لائن لگا دیا۔ ہمارا تو سچی بات ہے وہ احوال ہے، کہ ؎ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
یعنی جن کے لیے اپنے گھر کے سکون کو داو پر لگا دیا، وہ بھی خوش نہیں۔ ہمی کو دوش دیتے ہیں۔ تو بات پھر ہونٹوں پر آتی ہے کہ
؎ یہ جانتا اگر تو لٹاتا نہ گھر کو میں

یہ گھر تو نشانے پر رکھا گیا نا۔ ہمارے تو کسی بڑے کو عقل نہ آئی کہ اِس افغان پھڈے میں نہ پڑے۔ ہماری تزویراتی اسٹریٹیجی کی دھجیاں، جس طرح اُڑیں، اُسے ہم نے خود دیکھا۔ اب ہم تو ٹھہرے دشمن اس کے اور باقی سارے ہی اس کے مامے چاچے بن گئے۔ سبھوں کو افغانستان کی ممتا ابلی پڑ رہی ہے۔ ایک مظاہرہ تو خود چشم دید ہے کہ انڈیا میں سارک کانفرنس میں جیسے افغان مندوبین کی پذیرائی کی جا رہی تھی، وہ ہندوستان کی ساری سیاسی ڈپلومیسی کے راز فاش کرتی تھی۔

اب رہی یہ نئی حکومت؛ ہائے لگتا ہے، جیسے اناڑیوں کے ٹولے اکٹھے ہو گئے ہیں۔ جنھوں نے کوئی ہوم ورک نہیں کیا۔ اہم امور کو فوکس نہیں کیا۔ زرا سا ٹیلی فون بجے تو افسانے شروع ہو جاتے ہیں۔ افواہیں، اعتراضات اور تردیدیں۔ عاطف میاں کے کیس میں عالمی سطح پر شرمندگی کا سامنا۔ غور و خوض کیوں نہیں ہوا۔ زمینی حقائق سے آنکھیں کیوں چرائی گئیں۔ اگر پاکستانی عاطف میاں جو بلا شبہ ایک ماہر اقتصادیات ہیں۔ ان کے ایجنڈے میں سی پیک نہیں تھا تو اس منصوبے کے تمام مخفی اور ظاہری پہلو عوام کے سامنے لائے جاتے۔ انھیں اِن امور سے آگاہ کیا جاتا، کہ ماضی کے حکمرانوں نے ڈیل کرتے ہوئے، کہاں کہاں حقائق قوم سے چھپائے اور اس سارے سودے میں قوم کو فائدہ کتنا اور گھاٹے کتنا ہو گا۔ ابھی بھی صورت احوال کھل کر سامنے نہیں۔ لوگ تو جانتے ہی نہیں منصوبے کی تفصیلات کہاں طے ہوئیں، کیا کوئی پاکستانی کمپنی اس میں شامل ہوئی۔ اگلے تو ساز و ساماں کے ساتھ لیبر تک بھی اپنی لے آئے۔

زرا مہاتیر محمد کا بیان پڑھ لیجیے، توفیق ہو تو غور بھی کر لیں، انھوں نے واشگاف لفظوں میں کہا، چین کے ساتھ کام کرنے میں کوئی ہرج نہیں، مگر کوئی بھی معاہدہ ایسا نہیں ہونا چاہیے، جس میں ملائشیا کاحصّہ صرف 10% ہو۔ نجیب رزاق اور نواز شریف دونوں ہی کے ذاتی مفادات قومی مفادات سے زیادہ اہم تھے۔

یہاں سری لنکا کی مثال بھی سامنے رکھ لیں کہ کیسے وہ چین کی ہاربر انجیئنرنگ کمپنی کے جال میں پھنسا اور کیسے اپنی بندر گاہ سے محروم ہوا۔ یہ احساس تو بعد میں ہوا کہ چین کے قرضوں کا جال اس سے کہیں بد تر تھا، جو انھوں نے سوچا تھا۔

گورنر ہاوس کو عوام کے لیے کھولنا بہت خوش آیند ہے۔ بڑے لوگوں نے کیا وہاں جانا ہے کہ وہ تو ماحول شناس لوگ ہیں۔ مگر عوام تو جائیں گے۔ ان کے وسیع سبزہ زاروں پر اُن کے بچے بھاگیں دوڑیں گے۔ اس دنیا کو جو اُن کے لیے ایک آسمانی اور تخیر زدہ سی ہے، اپنی آنکھوں سے نظارہ کریں گے۔ میرے جیسے میلہ گھومنی عورت بھی جب عراق جاتی ہے، تو بغداد جیسے تاریخی شہر کے گرین زون کو دیکھنے کے لیے مری جا رہی تھی، اور چاہتی تھی کہ گرین زون کے محل کی وسعتوں اور اس کے شاہانہ رنگ ڈھنگ کو دیکھوں تو سہی۔ در اصل یہ المیہ بہت تکلیف دیتا تھا، کہ بیسیویں صدی کے عام سے مسلمانوں کے پاس جب جب اقتدار آیا، تو وہ آپے ہی میں نہ رہے۔ افسوس وہ کسی ہائی فائی خاندان کا فرد نہ تھا، مگر اُس نے ذاتی محل باڑیوں کا مینا بازار سجا رکھا تھا۔

کچھ حاصل ہوا؟ میں نے بے اختیار اپنے آپ سے کہا۔ امریکی جب اپنے ٹینکوں کے ساتھ ان محلوں میں داخل ہوئے تھے، اُس کی شان و شوکت دیکھ کر گنگ رہ گئے تھے۔

’’اتنا بڑا ہے۔ اتنا پھیلا ہوا ہے کہ اندر شٹل سروس چلتی ہے۔ وہ کمرے جن میں کِسی کو داخل ہونے کی اجازت نہیں تھی وہ عام امریکیوں کے بوٹوں نے روند ڈالے۔ ہمارے وزیر اعظم ہاوس کا بھی دیکھنے سے تعلق ہے۔ وقت بھی کتنا ظالم ہے چیونٹی کی طرح مسل دیتا ہے۔ بس رہے نام ﷲ کا۔

مگر اس اتنی بڑی تلخ حقیقت کا ایک روشن پہلو بھی میرے سامنے پیٹرز برگ روس کی سیاحت کے دوران آیا۔ جب میں ایکڑوں میں پھیلے پیٹر ہاف کی سیر کرتی تھی۔ اس کے تحیر اور سحر میں گم تھی۔ یہاں اتفاقاً میری ملاقات میخائل ویزا الیوچ سے ہوئی، جو زاروں کا قریبی رشتہ دار تھا۔ اُس سے باتیں کرتے ہوئے میں احمقوں کی طرح بول پڑی۔
’’یہ شبستانِ حرم، یہ عشرت گاہیں، ظلم و جبر چیخوں اور کراہوں پر اُٹھانیں اِن کی۔ کیا بولوں؟ کیا نہ بولوں۔‘‘

زبردست قہقہہ گونجا تھا، وہاں اُس کا۔ ’’بہت خوب خدا کے لیے اِس خود ساختہ قسم کی مظلومیت کو اتنا فنٹاسٹک رنگ مت دیجیے۔ زار کھا پی گئے۔ پھولوں کی سیج پر سوئے یا کانٹوں کے بستروں پر۔ بات سادہ سی ہے کہ جن پر ظلم کیے۔ اُنھی کی آل اولادوں کے لیے روزی کا سامان چھوڑ گئے۔ اُن کی اپنی نسلیں تو ذبح ہو گئیں، سان پر چڑھ گئیں یا بھاگ بھگا گئیں۔ زرا اندازہ تو لگائیے، اِن عشرت کدوں کا، جن میں سے بہت سے میوزیم بنے ہوئے ہیں۔ جہاں چپّے چپّے پر موجود اُدھیڑ عمر، بوڑھی، جوان، دیہاتی، شہری عورتیں اور مرد رزق روٹی کماتے ہیں۔ خزانوں میں دھڑا دھڑ روبل جمع ہوتے ہیں۔

عقل آ گئی ہے انھیں۔ کھول رہے ہیں دُنیا پر اپنے دروازے۔ کچھ محل ٹریننگ سینٹرز میں تبدیل ہو گئے ہیں، جہاں عام آدمی کے بچے کی کِسی نہ کِسی شعبے میں تربیّت ہوتی ہے، کہیں لائبریریاں بن کر علم کے قیمتی اثاثوں کی حیثیت اختیار کر گئی ہیں۔ اور آپ بھی دل پر ہاتھ رکھ کر کہیے کہ یہ محل منارے نہ ہوتے، تو آتیں یہاں؟ چجھو کے چوبارے کے لیے کون پینڈے مارتا ہے۔ وہ تو ماڑا موٹا آپ کا بھی اپنا ہو گا۔‘‘
میں تو سچی با ت ہے۔ دل کھول کر ہنسی تھی۔ یہ رُخ تو مانو جیسے آنکھ اوجھل ’دماغ‘ اوجھل تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).