خوش نصیبی کی چار علامتیں


1-اس کا رزق اس کے وطن میں ہو
2- اس کی بیوی ہم مزاج ہو
3-اس کی اولاد تابع فرمان ہو
4- اس کا دوست مخلص ہو

1- وطن کی تعریف بصفت عمومی ملک ہے مگر یہاں اعتباری فرق کے ساتھ وطن سے مراد اس کا آبائی وطن ہے جہاں اس کی نشو و نما ہوئی؛ جہاں گلیوں اور سڑکوں پر کهیل کود کر وہ بڑا ہوا؛ جہاں ہر طبقے کے لوگوں سے اس کو جذباتی لگاؤ ہوتا ہے اور بچپن کی یادیں جڑی ہوتی ہیں؛ جہاں مٹی کی خوش بو آخر سانس تک اس کے مشام میں بسی ہوتی ہے اور اس کی سوندھی سوندھی خوش بو غریب الدیار میں اسے مضطرب رکھتی ہے اور کہتی ہے کہ لوٹ کے آجا میرے میت… اور جب وہ وہاں جاتا ہے اور چھٹیاں گزار کر واپس اس شہر یا اس ملک کا ارادہ کرتا ہے، جہاں سے وہ معاشی طور پر مرتبط ہے، تو وہاں کی مٹی اس کے پاؤں سے چمٹ جاتی ہے اور کئی کئی بار سفر دو چار دنوں کے لیے ملتوی کرنے پر مجبور کرتی ہے؛ ریزرویشن کینسل کرانا پڑتا ہے.

2- عموماً لڑکا اور اس کے گهر والوں کی تمنا ہوتی ہے کہ بیوی تابع فرمان ملے۔ مگر جو لطف ہم مزاج بیوی میں ہے وہ تابع فرمان بیوی میں کہاں؟ آپ کے اعزا و اقارب دوست احباب آپ سے ملاقات کی خاطر آپ کے گهر آتے ہیں، آپ چاہتے ہیں ان کی مناسب خاطر مدارات کی جائے. تابع فرماں بیوی خاطر مدارات تو کر دیتی ہے مگر بد دل ہو کر اور بیزاری کے ساتھ، جب کہ ہم مزاج بیوی سے آپ مہمان کے لیے چائے کو کہیں گے تو وہ وائے یعنی بسکٹ اور نمکین بھی بهیج دے گی؛ قورمہ اور روٹی تجویز کریں گے، تو وہ بریانی کا بهی اہتمام کر دے گی.

3- اولاد جب تابع فرمان ہوگی تبھی ان کی صحیح تربیت ہوگی اور ان سے دوست جیسا تعلق بنا کر ہی ان کا مستقبل سنوارا جا سکتا ہے. جن گھروں کے بچوں اور بچیوں کی روش بچپن سے خود سری کی ہوتی ہے، عموماً ان کی صحیح تربیت مشکل ہوتی ہے. 18 کی عمر کے بعد ان میں علم و دانش کا ایسا زعم ہوتا ہے کہ والدین کی باتیں انھیں زہر لگتی ہیں؛ اس لیے والدین بهی ان سے ان کی اصلاح کی بات کرنے میں ڈرتے ہیں، کہ جوان جہان اولاد کہیں ناراض نہ ہو جائے. اس کے بر عکس قدرے کم ناز میں پرورش پائے اور نسبتاً غیر پروفشنل کورس کے بچے خود ڈرتے ہیں کہ ہم ایسی کوئی بات نہ کریں جن سے میرے والدین کو تکلیف ہو یا ان کے مزاج کے خلاف ہو یا ان پر گراں گزرے. یہ عمومی تاثر ہے، اس لیے کہ بہت سارے اعلیٰ تعلیم یافتہ بچوں کے اندر فطرتہ ایسا ادب کا مادہ ہوتا ہے، کہ ان پر محلہ والے رشک کرتے ہیں۔ ان کے بر عکس بہت سارے مدارس کے تعلیم یافتہ لوگوں کا برتاؤ ان کے اپنے والدین کے اتنا برا ہوتا ہے کہ لوگ تمام علما برادری کو زن مرید کہنے پر مجبور ہوتے ہیں.

4-دوست کی تعریف مختلف زبانوں میں متعدد انداز اور اسلوب میں کی گئی ہے، ان میں ایک بہت زیادہ زبان زد عام ہے : friend in need is friend indeed یعنی دوست وہی ہے جو وقت پر کام آئے. لیکن اس تعریف میں اس سے اہم پہلو کو نظر انداز کردیا گیا ہے اور وہ ہے دوست کا مخلص ہونا. ایک غیر مخلص دوست وقت ضرورت آپ کی مادی اور معنوی مدد کرتا ہے، لیکن کبهی وہ آپ کی شخصیت کی تعمیر میں معاون نہیں ہوتا، کہ مبادا آپ کا قد مالی، اخلاقی یا علمی اعتبار سے اس سے اونچا نہ ہو جائے. ایک مخلص دوست کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ وہ آپ کو اکیلے میں آئنہ دکهاتا ہے اور اچهے انداز میں آپ کی خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔ مثلاً چار دوستوں یا کسی اور محفل میں یہ نہیں کہتا کہ یار باقی خوبیاں تو آپ کے بڑی اچهی ہیں، لیکن آپ نماز نہیں پڑھتے یا کسی کی رقم لے کر واپس نہیں کرتے، وغیرہ۔ اس کے بجائے وہ آپ کو تنہائی میں بیٹها کر کہتا ہے کہ ما شا اللہ آپ تو بہت خوبیوں کے مالک ہیں، غم گسار ہیں، ضرورت مندوں سے ہم دردی رکهتے ہیں، لیکن میں نے سنا ہے کہ بغیر کسی عذر کے آپ نماز چھوڑ دیتے ہیں یا کچھ لوگوں سے کبهی رقم لی تهی، ان کے مانگنے پر بهی آپ نہیں لوٹاتے، جب کہ اب اللہ نے نہ صرف اس کی ادائی کی وسعت دی ہے، بلکہ سخاوت کا جذبہ سے بھی نوازا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).