۲۸واں خواب نامہ: دولت، شہرت، عورت


یکم جون 2018
درویش کا راتوں کو جاگنے والی رابعہ کو آداب!
درویش رابعہ کے خلوص اور اس کے تخلیقی لمحات کے احترام سے متاثر ہے۔ اسے غالبؔ کا مصرع یاد آ رہا ہے۔
؎ عاشقی صبر طلب اور تمنا بے تاب
درویش کو اندازہ ہے کہ جب کوئی تخلیقی اقلیت کا نمایندہ شاعر‘ ادیب‘ افسانہ نویس یا فن کار کسی روایتی خاندان اور معاشرے میں گھرا ہوتا ہے، تو وہ کس کرب سے گزرتا ہے اس کرب کی اذیت اور بھی بڑھ جاتی ہے، اگر وہ فن کار ایک عورت ہو؛ کیوں کہ روایتی لوگ عورت کی عزت‘ اس کی عصمت کو بہانہ بنا کر اس کی زندگی‘ اس کے فن اور اس کے مستقبل کو کنٹرول کرنا چاہتے ہیں۔ نجانے کتنی فن کار عورتیں ان روایتوں کی اسیر ہو جاتی ہیں؛ گھٹنے ٹیک دیتی ہیں اور ہار مان جاتی ہیں۔ درویش رابعہ سے اس لیے بھی متاثر ہے کہ اس کا جسم چاہے معاشرے کی قید میں ہو لیکن اس کا ذہن آزاد ہے۔ اس کا ظاہر چاہے پابندِ سلاسل ہو لیکن اس کا باطن ایک ایسے پرندے‘ ایک ایسے پنچھی کی طرح ہے جو اپنے تخیلات کی دنیا میں محوِ پرواز رہتا ہے اور یہ تخیلات تصورات کی دنیا لامتناہی ہے۔ غالب فرماتے ہیں:
؎ ہے کہاں تمنا کا دوسرا قدم یا رب
ہم نے دشتِ امکاں کو ایک نقشِ پا پایادرویش جانتا ہے کہ جو فن کار روایتی ماحول میں اپنے آزاد پنچھی کو زندہ نہیں رکھ سکتے وہ یا تو نفسیاتی مسائل اور ذہنی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں اور یا خود کشی کر لیتے ہیں۔

درویش نے بہت سی سوانح عمریاں پڑھ کر جانا کہ میر تقی میرؔ جوانی ہی میں ذہنی بحران کا شکار ہو گئے تھے۔ بقول علی سردار جعفری وہ کئی مہینوں تک ’زندانی و زنجیری‘ رہے۔ گھر سے باہر نہ نکلتے تھے۔ باہر نکلتے تو بچے دیوانہ سمجھ کر پتھر مارتے تھے۔ انھیں چاند میں عورت دکھائی دیتی تھی، جس کا ذکر انھوں نے اپنی ایک مثنوی میں بھی کیا ہے۔ چند ماہ بعد وہ ذہنی بحران سے تو باہر نکل آئے لیکن اس بحران کا سایہ ساری عمر ان کے ساتھ رہا۔ میر کم گو تھے شرمیلے تھے لوگوں سے کم بات کرتے تھے۔ لوگ انھیں مغرور و متکبر سمجھتے تھے، جب کہ وہ نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔ درویش نے اس حوالے سے ایک طویل مضمون ’میر کا فن اور پاگل پن‘ لکھا تھا، جو بہت متنازِع فیہ ٹھہرا۔
میرؔ تقی میر ذہنی بحران کا جب کہ جون ایلیا ڈیپریشن کا شکار ہو گئے۔ منیر نیازی اپنے غم شراب میں گھول کر پی گئے اور شعر لکھا
؎ مجھ میں ہی کچھ کمی تھی کہ بہتر میں سب سے تھا
میں شہر میں کسی کے برابر نہیں رہا

یہ کہانی تو مشرقی فن کاروں کی تھی مغرب میں ورجینیا وُلف‘ سلویا پلیتھ‘ ارنسٹ ہیمنگوے اور ونسنٹ وین گو نے خود کشی کر لی۔ بعض فن کاروں کے لیے زندہ رہنا مرنے سے زیادہ تکلیف دہ ہو جاتا ہے، اس لیے جرمن فلاسفر شوپنہار نے کہا تھا۔

WHEN HORRORS OF LIVING OUTWEIGH THE HORRORS OF DYING PEOPLE COMMIT SUICIDE

جب درویش پر CREATIVITY AND INSANITY کے رشتے کے راز سے منکشف ہوئے تو اس نے اپنے کلینک کا نام CREATIVE PSYCHOTHERAPY CLINIC رکھا۔ اب وہ بہت سے شاعروں‘ ادیبوں اور فن کاروں کی مدد کرتا ہے، کیوں کہ ایسے لوگوں میں نفسیاتی مسائل روایتی لوگوں کی نسبت زیادہ ہوتے ہیں، جو انھیں ایک کام یاب فن کار بننے سے روکتے ہیں اور ان کی راہ میں حائل ہو جاتے ہیں۔ روایتی ماہرینِ نفسیات ان کا علاج مسکن ادویہ سے کرتے ہیں، وہ نہیں جانتے کہ فن کاروں کا سکون ان کے فن کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔

رابعہ نے درویش سے کام یاب ادیب کے بارے میں پوچھا ہے۔ درویش کی نگاہ میں کام یاب ادیب‘ شاعر اور فن کار وہ ہے، جو اپنے سچ کا تخلیقی اظہار جانتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ اس کا میڈیم کیا ہے اس کا میسیج کیا ہے اور اس کا انسانیت کے نام تحفہ کیا ہے۔ کام یاب ادیب اپنے کام میں مگن رہتا ہے۔ اسے دوسروں کی رائے کی زیادہ پروا نہیں ہوتی۔ اسی لیے غالب فرماتے ہیں
؎ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی نہ سہی

درویش چوں کہ مرد ہے، اس لیے وہ جانتا ہے کہ مرد ادیب کے لیے تین آزمائشیں ہیں۔
دولت؛ شہرت؛ عورت
جو ادیب ان تین آزمائشوں پر پورا اترتا ہے، وہ یک سوئی سے تخلیقی کام کر سکتا ہے۔ وہ اپنی MUSE کے ساتھ وفادار ہو سکتا ہے۔ یہ میوس دولت، شہرت اور عورت کو اپنی سوکن اپنی حریف اور اپنی رقیب سمجھتی ہے۔ کام یاب ادیب جانتا ہے، کہ تخلیقی سفر

CREATIVE JOURNEY IS A LONG MARATHON RACE NOT A SHORT 100 METER SPRINT

درویش کو اسی لیے کچھوے بہت پسند ہیں۔ اگر کبھی رابعہ درویش کے کلینک آئی، تو اسے سیکڑوں کچھوے نظر آئیں گے۔ تھیریپی کا سفر بھی تخلیقی اور خود آگہی کے سفر کی طرح خود پر منکشف ہونے کی طرح سست رو ہے۔

اے راتوں کو جاگنے والی رابعہ! ہر فن کار کے اندر ایک درویش اور ہر فن کارہ کے اندر ایک رابعہ چھپی بیٹھی ہوتی ہے، جو وقت آنے پر اس پر منکشف ہوتی ہے اور پھر دھیرے دھیرے اس کی تخلیق اور اس کی شخصیت کے حوالے سے ساری دنیا پر منکشف ہوتی ہے۔ درویش اور رابعہ دو نام ہی نہیں ہیں‘ دو انسان ہی نہیں ہیں‘ یہ دو اشارے بھی ہیں‘ دو استعارے بھی ہیں‘ زندگی کے دریا کے دو کنارے بھی ہیں جو تخلیق کے پل سے جڑے ہوئے ہیں۔ جو اپنی ذات اور کائنات کے سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافر بھی ہیں۔ یہ سچ صدیوں سے شاعروں‘ ادیبوں‘ فن کاروں‘ سنتوں‘ سادھوؤں‘ صوفیوں‘ فلسفیوں اور دانشوروں کی وساطت سے انسانیت پر منکشف ہو رہا ہے۔ سچ کی تلاش میں نکلے ہوئے مسافروں کا ایک خاندان ہے‘ ایک قافلہ اور ایک قبیلہ ہے اس قبیلے کی نشانی یہ ہے کہ اس قبیلے کے ہر فرد سے اخلاص کی‘ اپنائیت کی اور ساری انسانیت سے محبت کی خوش بو آتی ہے۔ یہی ایک کام یاب ادیب اور فن کار کی نشانی ہے۔

یہ علیٰحدہ بات کہ اس اقلیت کو اپنے سچ کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے اور بعض دفعہ وہ قیمت بہت بھاری ہوتی ہے۔ روایتی اکثریت کبھی انھیں جلا وطن کر دیتی ہے، کبھی قید میں ڈال دیتی ہے، کبھی سولی پر چڑھا دیتی ہے۔ بقول بخشؔ لائل پوری
؎ ہمارا شہر تو چھوٹا ہے لیکن
ہمارے شہر کا مقتل بڑا ہے

درویش کچھ اور بھی لکھنا چاہتا تھا؛ رابعہ کے ایک اور سوال کا جواب بھی دینا چاہتا تھا، لیکن شعور اور لاشعور کی رو میں بہہ گیا اور اب اس کی نیند اور اس کے خواب اسے بلا رہے ہیں۔ وہ اب رابعہ سے اجازت چاہتا ہے۔ درویش اس حوالے سے خوش قسمت ہے کہ وہ جونھی تکیے پر سر رکھتا ہے، نیند اسے لوری سناتے ہوئے بڑی محبت سے اپنی آغوش میں لے لیتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).