تبدیلی کا ٹولہ اور اوئے وزیراعظم


عمران خان کو وزیراعظم کا منصب سنبھالے دو ہفتے گزر چکے ہیں۔ ان دو ہفتوں میں تو ہم بس عمران خان کی تصاویر دیکھ دیکھ کر ہی خوش ہوتے رہے ہیں۔ عمران خان نے میڈیا سے تین ماہ کا وقت مانگ لیا اور گا کہ مجھے تین ماہ کا وقت دیں پھر میرا احتساب کریں۔ عمران خان کی بات بھی پانی جگہ درست ہے کہ ایک نئی حکومت خاص طور پر ایسے لوگ جو تبدیلی لانے کے دعویدار ہوں ان کو اتنا موقع تو ملنا چاہئیے۔ لیکن اب بندہ کرے بھی تو کیا پہلا دھچکا ہمیں تب پہنچا جب عمران خان کی تیس رکنی کابینہ پر ایک نظر ڈالی جن میں سے 12 ارکان مشرف کابینہ میں بھی کام کر چکے تھے۔

ان میں فروغ نسیم، طارق بشیر چیمہ، غلام سرور خان، زبیدہ جلال، فواد چودھری، شیخ رشید احمد، خالد مقبول صدیقی، شفقت محمود، مخدوم خسرو بختیار، عبدالرزاق داؤد، ڈاکٹر عشرت حسین اور امین اسلم شامل ہیں۔ اور ہم جو نوجوان قیادت کا خواب دیکھ کر تبدیلی کا نعرہ لگاتے رہے، دھڑم سے نیچے آ گرے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کی کابینہ میں کام کرنے والے بھی 5ارکان شامل تھے جن میں پرویز خٹک، بابر اعوان، شاہ محمود قریشی، فہمیدہ مرزا اور فواد چودھری شامل ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ حیرانی کا لمحہ تو وہ تھا جب خالد مقبول صدیقی کا نام بطوروزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی پڑھا۔ ایسی بھی کیا سیاسی مجبوری کہ کروڑوں عوام جنھوں نے تحریک انصاف کو ووٹ دیا آپ ایم کیو ایم کو وزارتیں سونپ کر ان کی دل آزاری کیسے کر دی؟ خیر آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا !

اس کے بعد ذرا نظر ڈالتے ہیں نئی حکومت کے لطیفوں پر، فواد چوہدری کا یہ کہنا ہے کہ وزیراعظم جس ہیلی کاپٹر پر سفر کرتے ہیں ان کا کرایہ 55 روپے فی کلومیڑ پڑتا ہے۔ یہ سنتے ہی ہم نے بھی آفس والوں سے ہیلی کاپٹر کا مطالبہ کر دیا۔ اس کے بعد وزیراعلی پنجاب کا پروٹوکول دیکھ کر بھی دنگ رہ گئے۔ اس موقع پر یقینا سب کو لانگ بوٹ پہن کر لوگوں کے جھرمٹ میں کھڑے خادم اعلیٰ تو یاد آئے ہوں گے۔ کراچی میں تحریک انصاف کے ایم پی اے عمران شاہ کا شہری کو تھپر مارنا بھی نئے پاکستان کے نظریے پر دھبہ ثابت ہوا۔

اس کے بعد ڈی پی او پاکپتن کے تبادلے نے تو سب کچھ ہلا کر رکھ دیا۔ اور اس تمام واقعے میں بار بار خاتون اول کا ذکر کیا جانا بھی کچھ عیجب سا لگا اور اپنا پرانا پاکستان یاد آنے لگا جس میں کسی پر تنقید کرتے ہوئے شرمندگی تو نہیں ہوتی تھی اور سب کھلم کھلا ایک دوسرے پر تنقید کرتے تھے، لیکن یہاں تو کبھی خاتون اول کا نام آ رہا ہے، کبھی ان کی صاحبزادی مبشرہ مانیکا اور کبھی فرح خاتون کا۔ یعنی کے نئے پاکستان کے آغاز نے کچھ مزا نہیں دیا۔ سونے پہ سہاگا، فیاض الحسن چوہان کی گفتگو تھی۔ ایک وزیر کے منہ سے کسی خاتون کے لیے یہ سننا کہ میں اسے حاجن بنا دوں گا مجھے عمران شاہ کے شہری کو تھپڑ مارنے سے بھی ناگوار گزرا۔

مختصر یہ کہ نئے پاکستان کے آغاز نے عمران خان کے مخالفین کو تو بہت مزا دیا ہو گا۔ تاہم تبدیلی کا نعرہ لگانے والے کھلاڑی جو کہ عمران خان کے ساتھ کئی سالوں سے شانہ بشانہ چل رہے تھے۔ عمران خان کے منہ سے نکلی ہر غلط صحیح بات کا دفاع کر رہے تھے ان کو یقنیا ہلکی سی مایوسی ضرور ہوئی ہو گی۔ بے شک وزیراعظم نے ٹھیک کہا کہ مجھے تین ماہ کا وقت دیں۔ لیکن تین ماہ کا وقت نئی حکومت کو حالات ٹھیک کرنے کے لیے تو دیا جا سکتا ہے لیکن حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے نہیں دیاجا سکتا۔ وزیراعظم کی ایمانداری پر کوئی شک نہیں ہے۔ لیکن وزیراعظم کو اپنے ٹولے کو بھی خبردار کرنا ہو گا۔ کیونکہ انہوں نے ا س ٹولے کو ووٹ عمران خان کے نام پر دیا تھا۔ یہ قوم اس ٹولے کے پاس جا کر سوال جواب نہیں کرے گی تاہم عمران خان کو ضرور کہے گی۔ ’اوئے وزیراعظم‘۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).