کشمیریو ں کو بھی ملنے دو


پاکستان کی نئی حکومت کی جانب سے ہندوستان سے تعلقات کا اچھا آغاز کرنے کے لئے کرتار پور بارڈر کھولنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ بی بی سی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں پاکستان کے وزیر اطلاعات کا کہنا تھا کہ ”پاکستان انڈیا سے آنے والے سکھ یاتریوں کے لیے کرتار پور بارڈر کھول دے گا، جس کے بعد یاتری ویزے کے بغیر گرو دوارہ دربار صاحب کے درشن کر سکیں گے۔ ‘ اس اعلان پر عملی اقدامات پاکستان بھارت تعلقات کا ایک نیا باب ہو گا۔ 1965 کے بعد پہلا موقع ہو گا کہ ہندوستان سے سکھ یاتری بغیر ویزے پاکستان کا سفر کر سکیں گے۔ مذہبی بنیادوں پر پاکستان اور بھارت کے عوام دونوں ممالک کا سفر کرتے ہیں، تاہم پاکستان اور ہندوستان کے درمیان متنازع ریاست جموں کشمیر میں مذہبی بنیادوں پر عبادت گاہیں ابھی تک نہیں کھولی جا سکیں، نا ہی کشمیریوں (سوائے منقسم خاندانوں کے) کو ادھر ادھر سفر کی اجازت ہے۔

2003 میں جنرل رِٹائرڈ پرویز مشرف نے واجپائی حکومت سے مل کر کشمیریوں کو ملانے اور با اختیار بنانے کے لئے چار نکاتی فارمولا پیش کیا تھا۔ جب مشرف نے کشمیر کے حوالے سے اپنا فارمولا پیش کیا تو اس کا پہلا نکتہ ہی دونوں اطراف کے کشمیری عوام کو آپس میں ملانا تھا۔ جس میں واضح کہا گیا تھا کہ ’بھارت کے زیر انتظام کشمیر اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی سرحدوں (سیز فائر لائن) کو جوں کا توں برقرار رکھا جائے اور دونوں جانب سے لوگوں کو آزادانہ آنے جانے کی اجازت دی جائے‘۔ (یعنی یہ لائن آف کنٹرول پاکستان اور بھارت کے لئے ہو گی، بھارت زیر انتظام کشمیر اور پاکستان زیر انتظام کشمیر کے عوام کے مابین کوئی لائن آف کنٹرول نہیں ہو گی، دونوں طرف کے کشمیریوں کو ایک کارڈ جاری کیا جائے گا، جس پر ان کی سکونت ریاست جموں و کشمیر ظاہر کی جائے اور وہ اس کارڈ پر ریاست میں ہر جگہ آ جا سکیں گے)۔

اس فارمولے پر عمل در آمد تو نہ ہو سکا، تاہم اس کے پہلے نکتے پر جزوی عمل در آمد ضرور ہوا اور اس نتیجے میں مظفر آباد تا سری نگر اور راولا کوٹ تا پونچھ بس سروس کا آغاز ہوا، جو کئی مشکلات اور رکاوٹوں کے باوجود ابھی بھی جاری ہے۔ اس سروس کے ذریعے دونوں اطراف بسنے والے کئی منقسم خاندان دہائیوں بعد ایک دوسرے سے مل سکے۔ اس کے علاوہ ایل او سی ٹریڈ کا آغاز بھی ہوا اور وہ بھی کئی رکاوٹوں کے باوجود جاری رہی۔ بس سروس کے ذریعے صرف منقسم خاندانوں کو ملنے کی اجازت ہے، عام کشمیریوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا تا حال کوئی اقدام نہ کیا جا سکا۔ ان حالات میں سوشل میڈیا سے اطراف کے کشمیریوں کے رابطے ہوئے لیکن بنفس نفیس ملنے کا کوئی میکنزم نہیں بن سکا۔

موجودہ حکومت نے مذہبی بنیادوں پر کرتارپور بارڈر کھولنے کا عندیہ دیا ہے، تو وہیں دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ وہ انسانی بنیادوں پر دونوں اطراف کے کشمیریوں کو بھی ملنے دیں، اس کے لئے بارڈر (سیز فائر لائن) کو سافٹ کریں یا کوئی اور اقدامات کریں۔ تاہم دونوں حکومتوں کی جانب سے ایسے اقدامات ہونے چاہئیں کہ منقسم ریاست کے دونوں اطراف کے عوام آپس میں بنفس نفیس مل سکیں۔ اس کے لئے اگر حکومتیں چاہیں تو لائن آف کنٹرول پر موجود زمینی راستوں یا مناسب پوائنٹس پر مشترک پارکس قائم کریں، جہاں دونوں اطراف کے کشمیریوں کو آنے جانے کی اجازت ہو۔ جس سے دونوں اطراف کے کشمیری آپس میں مل سکیں۔ اس کے لئے دونوں اطراف کی مقامی حکومتیں کوئی میکنزم بنا سکتی ہیں۔

اس سے قبل بھی بھارت کی زیر انتظام کشمیر کی سابق وزیر اعلی محبوبہ مفتی ہندوستان کی مرکزی حکومت سے سکردو کرگل شاہراہ کھولنے کا مطالبہ بھی کر چکی ہیں اور ریاست کو آپس میں ملانے والے دوسرے راستوں کو کھولنے کی بات بھی کرتی رہی ہیں۔ مقامی حکومت کے اس مطالبے پر ہندوستان حکومت نے شاید سنجیدہ نہیں لیا یا اس وقت پاک بھارت تعلقات اس نہج پر نہیں تھے کہ دونوں حکومتیں اس مطالبے پر سوچ بچار کر سکتیں۔ تاہم اس وقت پاکستان کی جانب سےکیے گئے اعلان سے پاکستان اور بھارت میں اعتماد کی فضا قائم ہو گی اور تعلقات کے نئے باب کا آغاز ہو گا۔ اس اعتماد کو زیادہ موثر کرتے ہوئے دونوں حکومتوں کو طرفین کے کشمیریوں کو بھی آپس میں ملنے اور رابطہ پیدا کرنے کے مختلف زیر تجویز طریقوں پر سوچنا چاہیے اور متنازع علاقے کی حکومتوں کو بھی مرکزی حکومتوں سے عوامی رابطوں کے لئے مطالبہ کرنا چاہیے۔

منقسم ریاست کے عوام کو ملانے کے لئے کئی اقدامات کیے جا سکتے ہیں۔ اگر مشرف فارمولے ہی کو بنیاد بنا کر کام کیا جائے تو متنازع خطے کے کئی زمینی راستوں کو کھولا جا سکتا ہے۔ آزاد کشمیر اور بلتستان میں موجود مذہبی عبادت گاہوں (راولا کوٹ اور مظفر آباد میں سکھ گردوارے ہیں، جہاں سکھ یاتری آنا چاہتے ہیں اور شاردہ میں ہندووں اور بودھ مذہب کی کئی معبد موجود ہیں، جہاں کشمیری پنڈت اور بودھ عبادت کے لئے آنا چاہتے ہیں۔ اسی طرح آزاد کشمیر کے عوام درگاہ حضرت بل اور شاہ ہمدان کے مزار پر جانا چاہتے ہیں اور سکرود میں بودھ مذہب کی عبات گاہیں موجود ہیں) کو طرفین کے لئے کھولا جا سکتا ہے۔ کم از کم اقدام کے طور پر کچھ پوائنٹس پر ’مشترک پارکس بنائے جائے سکتے ہیں‘۔ اگر عوام کو مظفرآباد سے سری نگر اور لداخ سے استور آنے جانے کی اجازت نہیں ملتی تو کم از کم کچھ مشترک پارکس کا قیام عمل میں آنا چاہیے۔ جیسے آزاد کشمیر میں دو جگہ سے بس سروس گزرتی ہے وہاں مشترک پارکس کا قیام عمل میں لایا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ حاجی پیر اور کیرن میں بھی مشترک پارکس بنانے کے لئے مناسب مقام ہیں۔ اسی طرح گلگت بلتستان اور لداخ و کرگل کے عوام کو ملانے کے لئے ’فرانو گاؤں (بلتستان) سے ٹیاقشی دو تھنگ گاؤں (لیہ)، الڈینگ گاؤں (بلتستان) اور کرگت ہندرمو گاؤں (کرگل)، گلتری (سکردو) سے دراس (کرگل) کے درمیان اور منی مرگ دومیل (استور)سے سری نگر کو ملنے والی بارڈر (لائن آف کنٹرول) پر پارکس بنائے جا سکتے ہیں، جن میں دونوں اطراف کے عوام مختصر وقت کے لئے آپس میں مل سکیں اور اس پارک کے دونوں اطراف کی سیکورٹی فورسز کا میکنزم موجود ہو یا مقامی حکومتیں اس کا میکنزم بنا سکیں۔

پاک بھارت حکومتیں اگر مذہبی بنیادوں پر مختلف بارڈرز کھول سکتی ہیں، تو انسانی بنیادوں پر منقسم ریاست کے عوام کے لئے بھی اقدامات کرنے چاہئیں اور اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ ایک بڑی پیش رفت ہو گی اس سے طرفین کے کشمیری کم وقت کے لئے ہی لیکن اپنے پیاروں سے مل سکیں گے اور اطراف کے عوام کو ایک دوسرے کے خیالات کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).