میرا بیٹا پڑھے گا


پتا نہیں کیوں آج جب میں لکھنے بیٹھا تو ابا جی یاد آ گئے۔ عام طور پر مجھے امی زیادہ یاد آتی ہیں اور ابا جی نسبتاً کم۔ شاید اس لیے کہ ماں ہر معاملے میں بچوں کی آخری پناہ گاہ ہوتی ہے۔ ابا جی سخت گیر تھے اور عملی طور پر زمینداری نہ کرنے کے باوجود گاؤں کا زمیندار ان کے اندر سے زندگی بھر نہیں نکل سکا تھا۔ میں ضلع گجرات کے ایک دور افتادہ گاؤں ناگڑیاں کے ایک متوسط زمیندار گھرانے میں پیدا ہوا، جہاں سڑک تھی نہ بجلی نہ ریل کی پٹڑی، بس ایک پرائمری اسکول تھا۔ آپا، میں اور چھوٹی بہن امی کے ساتھ گاؤں میں رہتے تھے اور ابا جی کھاریاں میں رہائش پذیر تھے اور ہفتہ عشرہ بعد گاؤں آتے تھے۔ سب سے چھوٹا بھائی بعد میں کھاریاں میں پیدا ہوا۔ کھاریاں جرنیلی سڑک پر واقع فوجی چھاؤنی اور تحصیل ہیڈکوارٹر ہے، جہاں اس وقت ریلوے اسٹیشن، ہائی اسکول اور کینٹ میں ڈگری کالج بھی تھا۔ میں تیسری جماعت میں تھا جب ایک تائی کے آئے دن کے جھگڑوں سے تنگ آ کر ایک دن امی جی نے ہمیں ساتھ لیا اور ہم اپنے اپنے سامان کی گٹھڑیاں اٹھائے کھاریاں ابا جی کے پاس پہنچ گئے۔ تب میں نے پہلی بار مال گاڑی دیکھی جو مجھے قطار میں بندھی ماچس کی ڈبیوں جیسی لگی۔ ابا جی پہلے تو غصے سے آگ بگولا ہوئے اور جی بھر کر گالیاں دیں، لیکن امی نے کہہ دیا کہ جو بھی ہو ہم اب واپس گاؤں نہیں جائیں گے۔ پھر جب انہوں نے دیکھا کہ یہ تو سچ مچ واپس نہیں جانے والے تو آہستہ آہستہ غصہ ٹھنڈا ہونے لگا اور تھوڑی دیر بعد خود ہی اپنے ’چھڑے خانے‘کو ’فیملی ہاؤس‘ میں بدلنے اور سامانِ خور و نوش سے بھرنے میں لگ گئے۔ اور اگلے ہی روز مجھے چوتھی جماعت میں اسکول داخل کروا دیا۔

کھاریاں تب ایک قصبہ نما شہر تھا اور قریب کے گاؤں غربت زدہ تھے۔ جب ہم گاؤں میں تھے تو روپوں پیسوں کی تو نہیں لیکن کھانے پینے کی اشیا، اناج، دودھ، دہی، مکھن، لسی کی فراوانی تھی۔ گاو¿ں میں صرف ایک دکان تھی جسے ہٹی کہا جاتا تھا اور جس میں بارٹر ٹریڈ بھی ہوتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ جب دوپہروں میں دادی، ماسیاں، تائیاں، خالائیں اور خاندان کے دیگر بزرگ اور بوڑھیاں قیلولہ کرتی تھیں تو ہم سب بچے مِل کر ’پڑولوں‘سے جھولیاں اور تھیلے بھر بھر کر گندم نکالتے اور اس کے بدلے ہٹی سے نغدی، مکھانے، پھلیاں، منٹ کی سفید گولیاں اور شکر پارے لیتے اور خوب جی بھر کر کھاتے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے ہٹی ہمارے ہی دم سے چلتی تھی۔ موقع ملتے ہی “کاڑھنیوں” سے سارے دن کی بالائی اتار کر کھا جانا اور رسوئی میں چھپ کر قیماق کھاتے ہوئے پکڑے جانے پر دادی کی گھرکیاں سننا بھی ہم بچوں کا محبوب مشغلہ ہوتا تھا۔ کھاریاں آ کر گندم، دالیں وغیرہ تو گاؤں سے آ جاتی تھیں، سب سے بڑا مسئلہ تازہ اور خالص دودھ کا حصول تھا۔ بازار کا دودھ ہمیں راس نہیں آتا تھا۔ ابا جی نے کئی تجربے کیے، بھینس رکھی، بکریاں پالیں، اپنے اعتماد کے ہوٹلوں اور گھروں سے دودھ لگوایا لیکن کوئی تجربہ کامیاب نہ ہوا۔ پتا چلا کہ شہر میں گاؤں پالنا بڑا مشکل ہے۔ قریب ترین گاؤں بدر مرجان تھا جہاں زیادہ تر لوگوں نے بکریاں پالی ہوئی تھیں، بھینسیں اور گائیں خال خال تھیں۔ دودھ فروشی اس گاؤں کی کل معیشت تھی۔ وہاں کے لوگ صبح سویرے بکریاں لے کر کھاریاں کے گلی محلوں میں آ جاتے تھے اور تازہ دوددھ براہ راست بکریوں کے تھنوں سے برتن میں نکال کر دیتے تھے جو جھاگ بیٹھنے کے بعد آدھا رہ جاتا تھا۔ جن کے پاس گائیں بھینسیں تھیں وہ سائیکلوں پر یا پیدل ڈبے اٹھائے دودھ فروخت کرنے آتے تھے لیکن ان کے دودھ میں دودھ کم اور پانی زیادہ ہوتا تھا۔ ہم کچھ عرصہ بکریوں کا ’انسٹنٹ‘نامیاتی دودھ استعمال کرتے رہے۔ یہاں تک کہ پانی اور پاو¿ڈر مِلے بازاری دودھ کے عادی ہو گئے۔

ابا جی عجیب مجموعہ تضادات تھے۔ ان کے اندر بیک وقت قدیم اور جدید انسان موجود تھا۔ جب انہوں نے کھاریاں گھر بنایا تو اپنی طرف سے گلی کھلی رکھی تا کہ آمد و رفت میں آسانی رہے۔ جبکہ باقی لوگ گلی تنگ سے تنگ کرتے گئے۔ لیکن آج بھی ہمارے اس خالی پڑے گھر کے سامنے گلی کا چوڑا حصہ ابا جی کی روشن خیالی، مستقبل پسندی اور کشادہ دلی کی دلیل ہے۔ اور ابا جی واقعی کشادہ دل تھے، عسرت کے دنوں میں بھی، جب بارانی زمینیں بے کاشت رہنے لگیں تھیں، شہر کے ہر پاگل، فقیر، سائیں کو کھانا کھلانے گھر لے آتے تھے۔ اس کے برعکس جب محلے میں بجلی آئی تو ابا جی لگوانے پر تیار نہ ہوئے۔ وہ کچھ دنوں کے لیے کہیں گئے تو ہم نے ان کی عدم موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بجلی لگوا لی۔ ابا جی واپس آئے تو حسبِ توقع سخت ناراض ہوئے اور رات کو بلب کی تیز روشنی میں اپنی لنڈی کوتل کی لالٹین جلا کر بیٹھ گئے۔ انھیں بجلی کی روشنی قبول کرنے میں کئی دن لگ گئے لیکن جب عادی ہوئے تو بجلی چلے جانے پر سب سے زیادہ برا حال انہی کا ہوتا تھا۔ ہم میں سے کوئی بیمار ہوتا تو دوائی کے بجائے ابا جی کی ڈانٹ کھانے کو ملتی کہ تم لوگ کمزور کیوں ہو۔ ایک بار خود بیمار ہوئے تو آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اسی طرح ایک طرف وہ بلا امتیاز ہم بھائی بہنوں کی تعلیم کے لیے کوشاں رہتے تھے تو دوسری طرف ہماری شستہ مزاجی اور نرم گفتاری پر سیخ پا ہوتے تھے۔ مجھے کہتے تھے کہ تم گالیاں کیوں نہیں دیتے، تہ بند کیوں نہیں باندھتے، کالج پتلون، جسے وہ ’پھتوئی‘ کہتے تھے، پہن کر کیوں جاتے ہو۔

kharian- circa 1960

کھاریاں کی ایک معروف شخصیت چوہدری نیک عالم کے ساتھ ابا جی کا یارانہ تھا۔ نیک عالم نے زراعت میں ایم ایس سی کی تھی اور گولڈ میڈلسٹ تھا۔ لیکن ریئل اسٹیٹ اور لوگوں کو بیرونِ ملک بھجوانے کا کام کرتا تھا۔ کام کیا یہ اس کا مشن تھا۔ اس نے ایک سیاسی پارٹی بھی بنائی جس کا نام ’بھوک مکاو پارٹی‘تھا۔ ا±س زمانے میں کھاریاں اور ارد گرد کے دیہات کے جتنے لوگ انگلینڈ، ڈنمارک اور ناروے گئے وہ زیادہ تر نیک عالم نے بھجوائے۔ جس کے پاس پیسے نہیں ہوتے تھے وہ ا±سے اِس وعدے پر سمندر پار بھجوا دیتا تھا کہ جب کماو¿ گے تو ادا کر دینا۔ آج وہ لوگ ارب پتی ہیں اور نہ صرف یورپ میں ان کے بڑے بڑے کاروبار ہیں بلکہ کھاریاں کی تنگ گلیوں بازاروں میں بھی جائیدادوں، پلازوں اور منی ایکسچینج کمپنیوں کے مالک ہیں۔ بدر مرجان اب علاقے کا امیر ترین گاو¿ں ہے۔ نیک عالم اور ابا جی تقریباً روزانہ نیک عالم مارکیٹ میں ا±س کے دکان نما دفتر کے سامنے چارپائی بچھا کر بیٹھتے تھے۔ دونوں چوہدری صاحبان حقہ پیتے، اخبار پڑھتے اور گپ شپ کرتے۔ ایک بار میں وہاں سے گزرا تو نیک عالم نے مجھے دیکھ کر ابا جی سے کہا کہ چوہدری صاحب آپ کا بیٹا تھوڑا اور بڑا ہو جائے تو میں اسے مفت ڈنمارک یا انگلینڈ بھجوا دوں گا۔ ابا جی کا رد عمل شدید تھا۔ انھوں نے کہا چوہدری نیک عالم دوبارہ یہ بات نہ کہنا۔ ’میرا بیٹا پڑھے گا‘۔ ابا جی کا یہ تاریخی جملہ اب تک میری زندگی پر محیط ہے۔ گو میں اپنی اور ابا جی کی خواہش کے مطابق اتنا نہ پڑھ سکا کہ جس پر فخر کر سکوں لیکن میرے بہن بھائی، ناتے دار اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں اور یہ جملہ ہم سب اور ہماری اگلی نسلوں میں جاری و ساری ہے۔ میں ملک سے باہر تو گیا لیکن اپنی قابلیت و صلاحیت کے بل بوتے پر، بڑے بڑے کثیر الاقوامی اداروں میں کام کیا اور اپنی مرضی سے واپس آ گیا۔ میرا چھوٹا بھائی بھی ملک سے باہر گیا لیکن نیک عالم کے مشورے سے نہیں بلکہ اسکالرشپ پر ڈاکٹریٹ کے لیے۔ میرا اور میری پروفیسر شریک حیات کا بھی یہی نصب العین رہا کہ ہمارا بیٹا اور بیٹیاں پڑھیں گی۔ آج ہمارے تینوں بچے پی ایچ ڈی اسکالرز ہیں۔ ابا جی کو آخر دم تک قلق رہا کہ میں بڑا ہونے اور گھریلو ذمہ داریوں کے باعث حسبِ خواہش تعلیم حاصل نہیں کر سکا۔ مجھے اکثر کہتے تھے ملازمت چھوڑ کر پھر سے کسی یونیورسٹی میں داخلہ لے لو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لوگ مجھے خاندان کے دیگر افراد کی نسبت زیادہ پڑھا لکھا سمجھتے ہیں جبکہ حقیقتاً میں نصابی طور پر ان سب کے مقابلے میں اَن پڑھ ہوں۔ اگر ابا جی نیک عالم کی بات مان لیتے تو ممکن ہے میں بھی آج کھاریاں اور نواحی دیہات کے بیشتر لوگوں کی طرح کروڑ پتی ہوتا لیکن وہ نہ ہوتا جو میں ہوں۔ اگر ہمارے ملک کے تمام والدین یہ سلوگن اپنا لیں کہ کچھ بھی ہو جائے ہمارے بیٹے اور بیٹیاں پڑھیں گی تو ملک سے چائلڈ لیبر، افلاس اور ذہنی پس ماندگی اور فکری دریوزہ گری ہمیشہ کے لیے ختم ہو سکتی ہے۔ ہمیں ارب پتیوں کی نہیں، پڑھے لکھے شہریوں کی ضرورت ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments