وہ کچھ مردانہ کرنا چاہتی تھی


سنو! میری ایک خواہش پوری کروگے؟ ہاں کیوں نہیں، کہو کیا حکم ہے؟ یار وہ، میں نہ۔ امممممم! چھوڑو رہنے دو۔ تم نہیں سمجھوگے۔ اب بتا بھی دو۔ کیا نہیں سمجھوں گا؟ میں کچھ مردانہ کرنا چاہتی ہوں؟ ہاہاہا وہ قہقہ لگا کر ہنس دیا۔ پھر سے کہو پھر سے کہو۔ یار کہا تھا تم نہیں سمجھو گے۔ ہوں! وہ غصہ ہوگئی۔ اچھا منہ مت بناؤ۔ میری موٹر سائیکل ایک پہیے پر چلالو، یا گولڈلیف کا ایک کش لگالو، سب چھوڑو موچھیں بڑھالو۔ پسٹل سے دوچار ہوائی فائر کرلو، اور کچھ نہیں تو کسی پیپر میں سپلی لے لو۔ ہوجائے گا مردانہ کام اتنا بھی مشکل نہیں ہے۔

اف! نہیں پاگل۔ میں کچھ اور کرنا چاہتی ہوں۔
یقین کرو ابرش تم ایسا ویسا کچھ نہیں کرسکتی۔ سائنس نے ابھی اتنی ترقی نہیں کی ہے۔ وہ پھر سے ہنس دیا۔

بکواس بند کرو! تم نے مجھے ڈیٹ کرنا ہے یا نہیں؟ بلکل کرنا ہے۔ تو بس پھر مجھے پٹھان کے ہوٹل پر بیٹھ کر کوئلہ چائے پینی ہے۔ جیسے تم اپنے دوستوں کے ساتھ پیتے ہو۔ کیا؟ یہ خیال کہاں سے آگیا تمہارے دماغ میں؟ یار وہاں صرف مرد ہوتے ہیں۔ لڑکیوں کا نام و نشان بھی نہیں ہوتا۔ تم مرواؤ گی مجھے بھی۔ خود بھی مروگی۔ کیوں پورے شہر میں مشہور ہونا ہے؟

دیکھا مجھے معلوم تھا تم نہیں مانو گے۔ مجھے ڈیٹ پر لے جانے کے خواب دیکھنا بھی پھر چھوڑدو۔ اب کال تب کرنا جب کوئی پٹھان کا ہوٹل ڈھونڈلو۔ ہوں! اس نے فون کاٹ دیا۔

ایک حسینہ کو ڈیٹ کرنے کے لئے تو لڑکا کچھ بھی کرسکتا تھا۔ تو بس حکم کی تعمیل ہوگئی۔

دسمبر کی سرد رات تھی۔ ہوٹل پر زیادہ حجوم نہیں تھا لیکن رونق برقرار تھی۔ رات کے قریب نو بجے ہوں گے۔ ہوٹل کے سامنے ریل کی پٹڑی تھی۔ ایک ٹرین آتی تو دوسری جاتی تھی۔ اسنے پٹڑی کے ساتھ ہی دوکرسیاں اور ٹیبل لگوا دی اور ہوٹل والے پٹھان کو معاملہ سمجھا دیا۔

سخت سردی خون جما رہی تھی۔ وہ خاموشی سے آکر کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس سردی میں بھی اس کی جیکٹ غائب تھی۔ اس کو شاید اس طرح کھلی فضا میں بیٹھنے کی امید نہیں تھی۔ اس کے آتی ہی ہوٹل پر دو دودھ پتی کا اشارہ کردیا گیا جو کہ جلد ہی بچے کے ذریعے ٹیبل تک پہنچ گئی۔ وہ خاموشی سے چائے کے گھونٹ بھرتی رہی اور لڑکا چپ چاپ اسے تکتا رہا۔ جیسے وہ ان لمحات کو اپنی یادداشت کاحصہ بنا رہا ہو۔

کیا دیکھ رہے ہو؟ اس نے پوچھا۔
تم بہت خوبصورت لگ رہی ہو۔ جواب ملنے پر مسکرادی۔

جلد ہی دھند نے شہر بھر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اب ہوٹل بھی اوجھل ہوچکا تھا۔ بس وہاں جلتا گرم بلب مدھم سا دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے سردی لگ رہی ہے۔ جی میڈیم لیجیے جیکٹ حاضر ہے۔ اس نے جھٹ سے اپنی جیکٹ پیش کی تو وہ ہنس پڑی۔ وہ چائے کی چسکیاں بھرتی رہی۔ اور خاموشی گفتگو کرتی رہی۔ جیکٹ کا تو پتہ نہیں۔ دل دلوں کو گرماتے رہے۔ یار یہ دھند میں لپٹی پٹڑیاں کتنی اچھی لگ رہی ہیں نہ، آؤ واک کرتے ہیں۔ وہ دنوں اٹھے اور چل پڑے۔ چلتے چلتے اس نے لڑکے کا ہاتھ تھام لیا۔ قدم سے قدم ملے اور رفتار دھیمی ہوگئی۔

ایک مقام پر پہنچ کروہ رک گئی، اس کی جانب دیکھا اور آنکھیں بند کرلیں۔ وہ سردی اور خوف سے کانپ رہا تھا۔ لمحے کے ہزارویں حصے میں دونوں کے ہونٹ ایک ہوئے اور اس کے مسکرانے پر جدا ہوگئے۔ دونوں پھر سے چل پڑے۔ اب وہ ہنستی تھی تو وہ شرماتا تھا۔ سنو! میں نے مردانہ کام کرلیا ہے۔ اس نے سرگوشی کی اور تیز تیز قدم لیتے ہوئے دھند میں کہیں کھوگئی۔ رہ گئی تو بس ایک یاد ایک پرچھائی۔ دسمبر کی پرچھائی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).