شہادتِ حسین کا فلسفہ


نیکی اور برائی دونوں کے حساس مادے ابتداء ہی سے انسانی جبلت میں قدرت کی جانب سے ودیعت کیے گئے تھے۔ انسان کا ضمیر اور الہامی علوم اسے نیکی پر ابھارتے ہیں جب کہ نفسانی خواہشات، ہوس پرستی اور شیاطین اسےعمالِ بد کی طرف مائل کرتے ہیں۔ انسانی ہرجانب سے خواہشات کے جال میں الجھا ہوا ہے اور ساتھ ہی خدا کی بندگی کا عنصر بھی اس کے ذہن میں رچا ہے۔ چونکہ یہ احساس انسانی فطرت کا ابتدائی جزو ہے اور طائفہ انسانی بھی پھیلتے چلے جارہے ہیں تو نیکی و بدی کا تصادم ابتدا ہی سے ہے اور انتہاء تک جائے گا۔ارشادِ الہی ہے:
” پھر سمجھ دی اس کو برائی کی اور بچ کر چلنے کی۔ تحقیق مراد کو پہنچا جس نے نفس کو سنبھال لیا اور نامراد ہوا جس نے اس کو خاک میں ملا چھوڑا”۔
(8،9-91)
یہ اختلاف محض جنگی نہیں بلکہ اس کا دائرہ ذہنیت، افکار ،کردار، طور طریقوں اور رویوں کا بھی احاطہ کرتا ہے۔
انسان اگر زیا کار ہے تو پرہیزگار بھی ہے۔اگر ابلیس کا۔پیرو ہے تو خداکابندہ بھی ہے۔ تاریخ کے اوراق نیکی و بدی کے جھلاپ کے بے شمار واقعات سے بھر پور ہے اور اس بات کے بھی عینی گواہ ہیں کہ نیکی کا عنصر بالآخر برائی کے مادے پر غالب آ کر رہا ہے۔جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:
” کہہ دیجیےحق آ گیا اور باطل مٹ گیا بے شک باطل تو آیا ہی مٹنے کے لئے ہے”
( الاسرا)
واقعہُ کربلا بھی حیات اآدم سے چلے آرہے کائنات کے اس مجموعی اصول کا ایک مظہر ہے جب حق اور باطل آمنے سامنے ہوئے اور حق نے اپنے عزمِ مصمم اور نصرتِ خدا کی بنا پر باطل کو شکست سے دوچار کیا۔ یہی وجہ ہے کہ لشکرِ یزید تاحیات ملعون ٹھہرا جبکہ حسینی لشکر شہدا کی صورت میں ہمارے دلوں میں زندہ ہے:
“اور جو لوگ خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں اور اپنے رب کے ہاں سے رزق پا رہے ہیں البتہ تمہیں شعور نہیں”
(البقرہ)
بزرگ انسانوں کی مانند عظیم حوادث کو بھی ان کےاپنے دور میں جانچنا مکان پذیر نہیں ہوتا بلکہ سالوں بیت جائیں تو ان کی حقیقت آشکار ہوتی ہے۔ ایسے وادث بھی جنم لیتے ہیں جن کے صحیح ادراک کیلئے ہزاروں برس انتظار کرنا پڑتا ہے۔کربلا ایک ایسی ہی حقیقت ہے۔تاریخ اس نوعیت کے واقعات اس سبب محفوظ رکھتی ہے کہ لوگ اس سے سبق حاصل کریں اور عبرت پکڑیں۔ واقعہ کربلا محض سانحہ نہیں بلکہ یہ انسانی زندگی کی تربیت کے لئے ایک لازمی جزوہے ۔حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی ثابت قدمی، راستبازی اور بہادری کے اصولوں کو اگر ہادی بنایا جائے تو دنیاوی واخروی ہو کامیابی یقینی ہو جائے گی۔ کربلا کے واقعے میں پوشیدہ حکمتیں اور انفرادی و اجتماعی سطح پر اس سے حاصل ہونے والے چند اسباق ذیل میں پیش ہے:
1) مومن کے تمام اعمال کا مقصد اور محرک صرف رضائےالہی کا حصول ہونا چاہیے۔ اخلاق ہوں، رویے ہوں، معمولات ہوں ۔الغرض بندے کے ہر فعل کی عمارت خدا کی رضا کے حصول کی جدوجہد پر استوار ہونی چاہیے۔

“تو کہہ دیجئے کہ میری نماز اور میری اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لئے ہے جو پالنے والے ہے سارے جہانوں کا۔”
(163-6)
2)اسلام کا بنیادی نکتہ “امربالمعروف ونہی عن المنکر” ہے۔واقعہُ کربلا یہ درس پیش کرتا ہے کہ نیک کام کرنےکم کرنے اور برائی سے منع کرنے کے معاملے میں کسی بھی قربانی سے دریغ نہ کرنا چاہیے:
“تم ہو بہتر سب امتوں سے عالم بھیجی گئی ہو اس واسطے کہ اچھے کاموں کا حکم دو اور منع کرتے رہو برے کاموں سے”
(108-3)
3) اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔دینِ کامل نےنظام معیشت، نظام معاشرت، نظام سیاست، نظام حکومت اور نظام عدالت بتائے ہیں اور خصائل و نقائص بیان کئے ہیں۔ واقعہ کربلا اس بات پر دلیل ہے کہ خدا کے برگزیدہ بندے دینی نظام کے مکمل نفاذ کے لئے لڑتے ہیں اپنی جان بھی خدا کے سپرد کردیتے ہیں ۔
“جدوجہد کرتے رہو کے دین سارا کا سارا اللہ ہی کو ہو جائے”
(انفال)

4) سچائی اور راست بازی کو اپنا وطیرہ بنانا چاہئے۔ باطل کے آگے سر جھکانے سے بدرجہا بہتر ہے کہ حق کی خاطر جان دے دی جائے:
“اے ایمان والوں ڈرتے رہو اللہ سے اور سیدھی اور سچی بات کہو”
(70-33)
5) بہادری، شجاعت اور پامردی دنیائے اسلام کے عظیم مجاہدین کےزبردست اوصاف رہے ہیں۔اسی بنا پر ظالم شہنشاہوں کی اکڑی ہوئی گردنیں درِ اسلام پر عاجزی سے جھکتی تھی۔واقعہُ کربلاجواں مردی کی عمدہ مثال ہے:
” اللہ نے خرید لی ہے مسلمانوں سے ان کی جان اور ان کا مال جنت کے بدلے۔ اللہ کے نام میں پھر مارتے بھی ہیں اور مرتے بھی ہیں
(111-9)
6) واقعی کربلا کا فلسفہ یہ بھی باور کراتا ہے کہ حق پرستی اور راست بازی پر ثابت قدمی سے کھڑے رہنا اور حق کی خاطر لڑنا مومن کی شان ہے۔ چاہے اس پر خار راستے میں اسے کتنی ہی مشکلات کا سامنا کیوں نہ ہو؟؟
“اور جنہوں نے کہا کہ ہمارا رب اللہ ہے اور اس پر ثابت قدمی اختیار کی تو ان پر فرشتے نازل ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ نہ کوئی خوف کھاؤ نہ کوئی غم کرو تمہارے لئے جنت کی خوشخبری ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا”
(30-41)
دلی دعا ہے کہ خدا ہمیں فلسفہُ شہادتِ حسین رضی اللہ تعالیٰ سمجھنے اور اسے اپنے معمولات زندگی میں شامل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).