لکشمی اور سرسوتی میں عداوت


ہندو دیو مالا کے مطابق لکشمی (دولت کی دیوی) اور سرسوتی ( علم کی دیوی) دونوں بہنیں ہیں، اور ان دونوں میں پیدائشی عداوت ہے۔ نہ تو دونوں ایک جگہ جمع ہو سکتی ہیں، اور نہ ایک دوسرے کو برداشت کر سکتی ہیں۔ یعنی جہاں لکشمی ( دولت کی دیوی) ہو گی، وہاں سرسوتی ( علم کی دیوی ) نہ جائے گی، اور جہاں سرسوتی قدم رکھے گی، وہاں سے لکشمی چلی جائے گی۔ علم اور دولت کا اتحاد نہیں ہو سکتا، یہ دونوں متضاد ہیں۔

چنانچہ پچھلی تاریخ گواہ ہے، کہ علم و ادب کے پرستار ہمیشہ ہی فاقہ کش رہے، اور دولت مند علم و ادب کے کبھی قریب نہ آئے، بلکہ میرا ذاتی تجربہ یہ ہے، کہ جب کبھی کسی علم و ادب سے دلچسپی والے کے ہاتھ میں اگر کبھی دولت آگئی، تو اس علم و ادب سے دلچسپیاں کم یا ختم ہو گئیں۔ اچھی کتابیں، اچھے مضامین، اچھی نظمیں اور اچھے خیالات صرف اس زمانہ میں ہی لکھے گئے یا قلمبند ہوئے جب فاقہ اور تنگدستی تھی، اور دولت کے ملنے پر لکھنے والوں نے دوسری دلچسپیاں، اختیار کر لیں۔ مثلاً عیاشی، لیڈری اور تجارت وغیرہ۔ بلکہ میں اس کا بھی دعویدار ہوں، کہ علما ء اور ادیبوں کو چھوڑ کر ایک درویش اور ولی اللہ بھی اس وقت تک ہی خدا کے قریب رہ سکتا ہے، جب تک کہ وہ دولت سے دور ہے اور اس کی درویش کو اس وقت سے زوال نصیب ہونا شروع ہو جائے گا، جب اس کے درویش خانہ میں روپیہ اور دولت کی آمد ہو گی۔ لکشمی اور سرسوتی کی عداوت کے سلسلہ میں چند واقعات سنیے:۔

سوامی رام تیرتھ ان لوگوں میں سے تھے، جن کو مائیں کبھی کبھی ہی پیدا کرتی ہیں۔ آپ مرالی والا ( خاص گوجرانوالہ) کے رہنے والے تھے۔ ایم۔ اے پاس کرنے کے بعد کالج میں پروفیسر ہوئے۔ ہندوستان ہی نہیں، امریکہ اور دوسرے ممالک میں بھی آپ کو شہرت نصیب ہوئی۔ علم اور روحانیت کے اعتبار سے آپ نے بہت اونچا اور بلند جھنڈا نصب کیا۔ آپ آغاز کے زمانہ میں لاہور کے مشہور رئیس، سرمایہ دار اور کروڑ پتی رائے بہادر مسٹر رام سرن داس کے لڑکے کے ٹیوٹر تھے، اور آپ کو وہاں سے پچّیس روپیہ ماہوار تنخواہ ملتی تھی۔ ایک با ر سوامی رام تیرتھ نے چاہا، کہ آپ ہر دوار جا کر وہاں کے صاحب کمال مہاتماؤں سے ملیں۔ اور آپ نے رائے بہادر سے ہر دوار جا نے کے لئے دو ماہ کی تنخواہ پچاس روپیہ پیشگی دینے کی درخواست کی، مگر رائے بہادر نے انکار کر دیا۔ کیونکہ سرمایہ داروں کی تجوریوں میں علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے کچھ نہیں ہوا کرتا۔

مرحوم مولانا ابو الکلام آزاد کی پو زیشن ہند وستان کے آزاد ہونے کے بعد تمام لیڈروں میں بلند ترین تھی، کیونکہ ہندوستان کے وزیراعظم پنڈت نہروفی الحقیقت آپ کی جیب میں تھے۔ یعنی بغیر مولانا کی رائے کے پنڈت جی کسی قسم کا کوئی قدم نہ اٹھاتے۔ اور اس صورت میں، اور ان کے غریزو اقارب بھی لاکھوں میں کھیل رہے ہیں۔ مولانا اگر چاہتے، تو اپنے اقتدار کے زمانہ میں کروڑوں نہیں اربوں روپیہ حاصل کر سکتے تھے۔ کیونکہ سیاسی قمار بازی میں تو تاش کے پتوں کی جگہ کرنسی نوٹوں کی گڈیاں حرکت کیا کرتی ہیں۔ مگر یہ واقعہ دلچسپ ہے، کہ مولانا کے انتقال کے بعد ان کے عزیز اور قریبی رشتہ دار مولانا کی چھوڑی ہوئی جائیداد میں سے حصہ لینے کے لئے نئی دہلی پہنچے، تو وہاں کرنسی نوٹوں اور چیک بکوں کی جگہ وہ کاغذات تھے، جن کے مطابق مرحوم مولانا کی خریدی ہوئی موٹر کی سات اقساط کا روپیہ باقی تھا، جو موٹر کمپنی کو ابھی ادا نہ ہوا تھا۔

مرحوم مولانا کے پرائیویٹ سیکرٹری محمد اجمل خاں صاحب نے یہ واقعہ جب راقم الحروف کو سنایا، تو میں رات کو دیر تک اس مسئلہ پر غور کرتا رہا، اور غور کرنے کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا، کہ اگر مولانا مقروض نہ ہوتے، اور ان کے پاس بھی بعض وزراء کی طرح پر مٹوں سے حاصل کیا ہوا لاکھوں یا کروڑوں روپیہ ہوتا، تو مولانا ابو الکلام، ابو الکلام نہ ہوتے، وہ بھی کوئی شریمان جی ہوتے، اور ان کے جنازہ میں لاکھوں انسانوں کے شریک ہونے کا سوال ہی تھا۔ اچھا ہوا ابو الکلام ( علم کے باپ ) ابو الکلام ہی رہے، اور انہوں نے صرف سرسوتی سے ہی محبت کی، انہوں نے لکشمی کو قریب نہ پھٹکنے دیا۔

کئی برس کی بات ہے، جب جون کے مہینہ دہلی میں سخت گرمی ہوتی، اور بمبئی میں برسات کا موسم بہت ہی پر فضا ہوتا ہے۔ بمبئی میں تھا، تو ایک فلم کمپنی کی دعوت پر فلم کی شوٹنگ دیکھنے کے لئے بمبئی ٹاکیز کے سٹوڈیو ( میرا خیال ہے، کہ یہی سٹوڈیو تھا) میں گیا، تو وہاں کسی نے بتایا، کہ مشہور افسانہ نویس منشی پریم چند اس سٹوڈیو میں ہی مقیم ہیں، اور فلمی ڈرامے لکھتے ہیں۔ میں منشی جی سے ملنے کے لئے ان کے کمرے میں گیا، جو بڑے دروازے کے بالکل قریب تھا۔ منشی جی کو دیکھا، کہ وہ اپنے میزپر کا م کر رہے ہیں، مگر بہت مایوس اور د لگیر ہیں۔ باتیں ہوئیں، اور حالات پو چھے، تو معلوم ہوا، کہ مالی مشکلات ان کو بمبئی کھینچ لائیں، مگر بمبئی کی فلمی لائن ان کے لئے موزوں ثابت نہیں ہوئی۔ یعنی ان کو اپنا مستقبل وہاں تاریک نظر آرہا ہے۔

افسانہ اور فلمی ڈرامے دونوں مختلف لائنیں ہیں۔ یعنی ایک افسانہ نویس کے لئے یہ ضروری نہیں، کہ وہ فلمی ڈرامے میں بھی کامیاب ہو سکے۔ ان کے معمولی لباس اور بد دلی کو دیکھ کر مجھے بہت ہی افسوس ہوا۔ ہندوستان کا وہ افسانہ نویس، جسے اردو زبان میں افسانہ نویسی کا گورو دیو کہنا چاہیے، افلاس اور تنگدستی کا قابل رحم حد تک شکار۔ اس کے کچھ عرصہ بعد منشی پریم چند کا انتقال ہو گیا، تو لوگوں ان کی یادگاہ میں میموریل، یادگاریں اور اکیڈمیاں بنانے کی تجاویز پیش کیں، اور روپیہ جمع ہونا شروع ہوا۔

یعنی منشی پریم چند نے جب تک زندگی میں سرسوتی ( علم کی دیوی ) کا ساتھ دیا، لکشمی ( دولت کی دیوی ) ان کے قریب نہ آئی، اور جب انہوں نے اپنی زندگی کے ساتھ ہی سرسوتی کو بھی چھوڑ دیا، تو لکشمی نے پر پرزے نکالنے شروع کر دیے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے، ان کے زندگی میں فاقہ اور تنگدستی کے شکار ہونے اور مرنے کے بعد ان کی یادگاریں قائم ہونے کو دیکھ کر میں نے پنجابی زبان کے ایک شاعر کی ایک نظم کا مصرعہ لکھا:۔
دل چاہو اندا اے مورہ کھا مریئے
( دنیا کی ناقدر شناسی کو دیکھ کر جی چاہتا ہے، کہ زہر کھا کر مرجائیں، تاکہ زندگی میں نہیں، تو مرنے کے بعد ہی لوگ قدر کریں)۔

حضرت جوش ملیح آبادی میں ایک بہت بڑی صفت یا ایک بہت بڑا نقص یہ بھی ہے، کہ آپ جب کبھی کسی مشاعرہ میں شرکت کریں، تو دنیا کی تعریف اور مذمت سے بے نیاز ہو کر اپنے دلی خیالات کا اظہار کر دیتے ہیں۔ جس کی وجہ شاید شراب سے پید ا ہونے والی جسارت یا جرات ہی ہو۔ آپ حیدرآباد میں ملازم تھے، کہ ایک مشاعرہ میں آپ نے نظام دکن کی سرمایہ داری اور کنجوسی پر چوٹ کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا، کہ نظام کے حکم سے ریاست حیدر آباد کی حدود سے نکال دیے گئے، اور دہلی آگئے۔ دہلی آ کر آپ نے ایک ماہوار ادبی رسالہ ” کلیم“ جاری کیا۔ ایک رسالہ کا جاری کرنا اور اسے زندہ رکھنا جوش صاحب کے بس میں نہ تھا۔ ”کلیم“ چند ماہ جاری رہا، تو مالی پریشانیوں کے باعث اسے بند کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یہ فیصلہ مجھ سے مشورہ کے بعد میرے مکان پر ہی ہوا، کیونکہ میں نے اسے بند کر دینے کی رائے دی تھی۔

مزید پڑھنے کے لئے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

دیوان سنگھ مفتوں

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

دیوان سنگھ مفتوں

سردار دیوان سنگھ مفتوں، ایڈیٹر ہفتہ وار ”ریاست“ دہلی۔ کسی زمانے میں راجاؤں، مہاراجوں اور نوابوں کا دشمن، ان کے راز فاش کرنے والا مداری، صحافت میں ایک نئے خام مگر بہت زور دار انداز تحریر کا مالک، دوستوں کا دوست بلکہ خادم اور دشمنوں کا ظالم ترین دشمن۔ سعادت حسن منٹو کے الفاظ۔

dewan-singh-maftoon has 26 posts and counting.See all posts by dewan-singh-maftoon