دو قومی نظریے کے تحت برصغیر کے تمام مسلمان پاکستانی ہیں


ہمارے وزیراعظم عمران خان نے افغان اور بنگلہ دیشی شہریوں کو پاکستانی شناخت دینے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ اگر ہم ان لوگوں کی مدد نہیں کریں گے تو تباہی کی طرف جائیں گے، ہماری حکومت افغانستان سے 50 برس قبل آنے والوں اور بنگلہ دیشیوں کو بھی شناختی کارڈز اور پاسپورٹ جاری کرے گی اور انھیں پاکستان کے شہری بنائیں گے۔ بنگالیوں اور افغانیوں کے پاکستان میں پیدا ہونے والے بچوں کو شناختی کارڈ دلوائیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ کراچی میں بڑھتی ہوئی جرائم کی شراح کے پیچھے ایک ایسا طبقہ ہے جس کے پاس روزگار کمانے کے مواقع نہیں ہیں۔ ”کراچی میں سٹریٹ کرائم اس لیے بڑھ رہے ہیں کیونکہ یہاں پر انڈر پریولجڈ کلاس بڑھتی جارہی ہے۔ یہ ان پڑھ لوگ ہیں جن کو نوکریاں نہیں ملتیں، جن کے پاس کوئی طریقہ نہیں ہے روزگار کا۔ یہ وہ لوگ ہیں جو یہاں رہتے ہیں۔ بنگلہ دیش سے ڈھائی لاکھ لوگ ہیں، افغانستان کے لوگ رہتے ہیں یہاں۔ ان کے بچے بھی یہاں بڑے ہوئے ہیں، ان کو پاسپورٹ اور شناختی کارڈ نہیں ملتے۔ یہ دو چیزیں نہ ہوں تو نوکریاں نہیں ملتیں۔ جو ملتی بھی ہیں، وہ آدھی اجرت پر۔ “

یہ ایک بہترین اعلان ہے۔ جو لوگ اس کی مختلف وجوہات کی بنیاد پر مخالفت کر رہے ہیں وہ اپنی مطالعہ پاکستان کی تاریخ کو فراموش کر رہے ہیں۔ کیا انہیں یاد نہیں کہ دو قومی نظریہ کیا تھا؟ قرار دادِ لاہور کی تقریر میں قائداعظم نے فرمایا تھا ”قوم کی کوئی بھی تعریف کیجیے اس کے مطابق (ہندوستان کے) مسلمان ایک الگ قوم ہیں اس لیے انہیں حق حاصل ہے کہ اپنا الگ وطن بنائیں اپنے علاقے الگ کر لیں اپنی الگ مملکت بنائیں“۔

مہاتما گاندھی نے قائداعظم کو لکھا: ”آپ کو علیحدہ قوم ہونے کا دعویٰ فتح کی وجہ سے نہیں، بلکہ لوگوں کے قبول اسلام کی وجہ سے ہے، کیا اگر ہندوستان کے سب لوگ اسلام قبول کرلیں تو دونوں قومیں ایک ہوجائیں گی؟ ‘‘

قائداعظم نے دو روز بعد خط کا جوب دیا: ”ہم اس نقطہ نظر پر قائم ہیں کہ مسلمان اور ہندو ہر لحاظ سے اور ہر اعتبار سے دو بڑی قومیں ہیں۔ ہم دس کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم ہیں۔ مزید برآں ہم اپنی مخصوص تہذیب اور تمدن، زبان اور ادب، فن اور معماری، نام اور القاب، اقدار اور تناسب، قوانین اور اخلاق، رسوم اور تقویم، تاریخ اور روایات، رجحانات اور خواہشات کی حامل قوم ہیں۔ مختصر یہ کہ زندگی اور اس سے متعلق تمام بین الاقوامی قوانین کی رو سے ہم ایک قوم ہیں‘‘۔

ایسے ہی بے شمار اقوال تاریخ کے زریں قرطاس پر بکھرے پڑے ہیں جن سے یہ واضح ہے کہ دو قومی نظریے کی بنیاد پر یہ بننے والا یہ عظیم ملک برصغیر کے تمام مسلمانوں کے لئے بنا تھا۔ اگر ناقدین نے مطالعہ پاکستان کے علاوہ معاشرتی علوم بھی فراموش نہیں کیا تو ان کو علم ہونا چاہیے کہ برصغیر میں تمام ہندوستان، نیپال، سری لنکا اور بھوٹان بھی شامل ہے۔ موجودہ بنگلہ دیش کو تو قائداعظم نے خود اپنے ہاتھوں سے پاکستان کا اٹوٹ انگ بنایا تھا۔ جہاں تک افغانستان کی بات ہے، آپ قدیم تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں، مہاراجہ اشوک کے زمانے سے مغلوں کے زمانے تک کابل اور قندھار برصغیر میں دکھائی دیں گے۔ بلکہ محمود غزنوی سے دو راجہ پہلے لاہور کے ہندو شاہی دور میں تو مزار شریف تک برصغیر میں شامل تھا۔

برما والے مانتے نہیں مگر ہیں وہ ہندوستانی ہی۔ اسی وجہ سے نا صرف آخری مغل شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کا مزار ادھر رنگون میں ہے بلکہ لاکھوں برمی بھی کراچی میں آباد ہو چکے ہیں۔ برما کو عیار فرنگیوں نے 1935 میں زبردستی ہندوستان سے الگ کیا تھا ورنہ ہیں ہیں ہندوستانی ہی۔ بلکہ ہندوستانی کیا وہ 1986 سے دوسرے ممالک میں رہ کر بھی پاکستانی ہیں۔

قومی اسمبلی کو 2012 میں بتایا گیا تھا کہ ”سابق صدر جنرل ضیاء الحق نے ایک آرڈر کے تحت 1986ء میں سعودی عرب میں مقیم برما کے مسلمانوں کو یہ حق دیا تھا کہ وہ پاکستان کا پاسپورٹ حاصل کرسکتے ہیں اور تب سے برما کے مسلمانوں کو پاکستانی پاسپورٹ جاری کیے جاتے ہیں۔ درمیان میں کچھ عرصہ انھیں پاسپورٹ کا اجراء بند ہوگیا تھا لیکن 1994ء میں دوبارہ پاسپورٹ کا اجراء شروع ہوگیا تھا۔ آڈٹ حکام اور ارکان کمیٹی کے تحفظات تھے کہ برما کے مسلمانوں کو پاکستانی پاسپورٹ ایک مخصوص مدت کے لئے جاری کیے گئے تھے اور انھیں کہا گیاتھا کہ دو سال کے اندر اندر پاکستانی شہریت کے لئے درخواست دے دیں لیکن نہ تو انھوں نے پاکستانی شہریت کے لئے درخواست دی نہ پاکستان کا کبھی دورہ کیا اور نہ کبھی پاکستان میں رقم بھیجی۔ “

وہ پاکستانی پاسپورٹ پا کر بھی پاکستانی شہریت کے لئے درخواست نہیں دیتے نہ دیں، ہم ان کو پاکستانی شہری ہی مانتے ہیں۔ لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ جو لاکھوں برمی کراچی کے اراکان آباد میں آباد ہیں اور پاکستانی شہریت چاہتے ہیں انہیں ہم دینے سے انکاری رہے ہیں۔

ہمارے وزیراعظم تو صرف بنگلہ دیشیوں اور افغانوں کو پاکستانی بنا رہے ہیں، دو قومی نظریے کے تحت ان تمام ملکوں کے سب مسلمان شہریوں کو پاکستانی شہری بنا دینا چاہیے۔ ہمارے وزیراعظم نے بہترین فیصلہ کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ فیصلہ باقی ہمسایوں مثلاً چینیوں اور بھارتیوں کے لئے بھی کیا جائے گا۔ چینی شہد سے زیادہ میٹھے ہیں اور سنکیانگ والوں پر تو ویسے بھی ان دنوں دو قومی نظریے کی بجائے چین کا ایک قومی نظریہ تھوپ کر انہیں چینی بنایا جا رہا ہے۔

بھارتی ہمارے کلچر میں آسانی سے ضم ہو جاتے ہیں۔ خاص طور پر مسلمان ہوں تو مندرجہ بالا دو قومی نظریے کے تحت وہ بھی پاکستانی ہیں۔ قائداعظم فرما چکے ہیں کہ یہ وطن تمام ہندوستانی مسلمانوں کے لئے بنایا گیا تھا۔ اس لئے جو بھی بھارتی شہری ویزے کے لئے اپلائی کرے، اس سے کلمہ پڑھوا کر چیک کر لیا جائے اور وہ سنا دے تو اسے ویزے کی بجائے سیدھا پاکستانی شناختی کارڈ ہی ایشو کر دیا جائے۔

اگر زیادہ ہی تسلی کرنی ہے تو پھر مسلمانی چیک کرنے کا وہ طریقہ بھی استعمال کیا جا سکتا ہے جو 1947 میں کیا گیا تھا۔ سعادت حسن منٹو اس پر اپنے ”سیاہ حاشیے“ میں روشنی ڈالتے ہیں۔
”چھری پیٹ چاک کرتی ہوئی ناف کے نیچے تک چلی گئی۔ ازار بند کٹ گیا۔ چھری مارنے والے کے منہ سے دفعتاً کلمۂ تاسف نکلا۔ چ، چ، چ، چ، مشٹیک ہو گیا۔ “

ہم وزیراعظم کے ان اقدامات کی پرزور حمایت کرتے ہوئے مزید امید کرتے ہیں کہ سب سے پہلے بنگلہ دیش کے کیمپوں میں پڑے ان لاکھوں افراد کو لایا جائے گا جنہوں نے 1971 میں بنگلہ دیش کی شہریت لینے سے انکار کرتے ہوئے خود کو پاکستانی کہا تھا اور اس جرم کی سزا ان کی نسلیں آج تک بھگت رہی ہیں۔ یہ سزا بنگلہ دیش بھی دے رہا ہے اور پاکستان بھی۔ پہلے مرحلے میں چالیس پچاس لاکھ افغانیوں اور بنگلہ دیشیوں کو یہ سہولت دی جا رہی ہے تو ان تین چار لاکھ مشرقی پاکستانیوں کو بھی دے دی جانی چاہیے۔

ہو سکتا ہے کہ چند صوبے وزیراعظم کے ان بہترین اقدامات کی مخالفت کرتے ہوئے ان لاکھوں کروڑوں نئے پاکستانیوں کو اپنے علاقے میں آباد کرنے کی مخالفت کریں۔ سندھ میں تو خیر مخالفت میں پہلے ہی آوازیں اٹھتی رہتی ہیں مگر کپتان کے اپنے وزیراعلی پرویز خٹک بھی افغانوں کو اپنے صوبے سے نکالنے کا مطالبہ کرتے رہتے تھے۔ ان سب کو چاہیے کہ کپتان کی بات غور سے سنیں کہ ”اگر ہم ان لوگوں کی مدد نہیں کریں گے تو تباہی کی طرف جائیں گے“۔ غیر ملکی جرائم پیشہ افراد سے بچنا ہے تو انہیں پاکستانی شہری بنا دینا چاہیے۔ پھر سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا اور وہ شناختی کارڈ پاتے ہی جرائم سے توبہ کر کے قانون پسند شہری بن جائیں گے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar