ڈاکٹر یاسمین راشد محکمہ صحت کو کیسے بہتر بنا سکتی ہیں؟



بات یہ ہے کہ امیدیں تو بہت ہیں اور ہونی بھی چاہئیں۔ کونسی کسی مسّلم لیگ یا پیپلز پارٹی کی حکومت ہے کہ جن کو بار بار آزمانے یا ان سے ڈسے جانے کے بعد اب امید بھی دم توڑ جائے۔ حکومت بھی تو عمران خان کی ہے جس نے 22 سال لوگوں کو یہ بتایا ہے کہ اچھا حکمران کون ہوتا ہے اور اپنے حکمران کا احتساب کیسے کیا جاتا ہے؟ لہذا اب ہم ہر کالم میں نئے نئے مشورے اور امیدیں لیکر حاضر ہوتے رہیں گے اور کبھی کبھی گلے شکوے بھی۔ کہ یہ ہمارا حق ہے۔

جب سے پنجاب میں محکمہ صحت کا قلمدان ڈاکٹر یاسمین راشد کے حوالے کیا گیا ہے تب سے مریض اور ڈاکٹرز ایک پیاسے کی طرح ڈاکٹر صاحبہ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔سب سے پہلے تو ڈاکٹر صاحبہ کو مبارکباد کہ اس عہدے کے لیے شاید ان سے بہتر کوئی انتخاب نہیں تھا۔ڈاکٹر صاحبہ نے اپنی آدھی سے زیادہ زندگی اس محکمے میں غریبوں کی مدد کرتے گزاری ہے۔ ڈاکٹروں کے حقوق کی جنگ بھی لڑی ہے۔ بیشمار ڈاکٹرز کی وہ استاد ہیں اور سب انھیں عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ آج دل کر رہا ہے کہ ڈاکٹر صاحبہ سے اپنے دل کی کچھ باتیں کروں۔ تو میڈم بات یہ ہے کہ سب سے پہلے ہمیں یہ سمجھنا ہے کہ مسئلہ ہے کیا؟ اور اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہے کہ جو محکمہ سالوں میں تباہ کیا گیا ہے وہ چند ہنگامی دوروں یا شکایت سیل بنانے سے دنوں میں ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ اس کو وقت لگنا ہے اور اسکو وقت دیں۔ کوئی ایسی پالیسی بنانے یا اعلان کرنے کی خواہش نا کریں جس کے نتیجے میں شام تک آپ ریٹنگ کے عروج پر ہوں۔ اپنے مسائل پہ غور کریں اور پھر دیکھیں کہ وسائل کتنے ہیں۔ کتنے مسئلے فوری حل ہو سکتے ہیں اور کونسے مسئلے سالوں میں حل ہوں گے؟ ڈاکٹرز کو معطل کر دینے یا شکایت سیل بنا دینے سے تبدیلی نہیں آنے لگی۔ یہ تو وہی راستہ ہے جس پہ قبلہ شہباز شریف سالوں سے چل رہے تھے اور نتیجہ سب کے سامنے ہے۔

سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہسپتال over crowded ہیں۔جس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ ایک تو ہسپتال کم ہیں اور دوسرا بڑے ہسپتالوں میں بہت سے مریض ایسے بھی آتے ہیں جنکو بنیادی مرکز صحت یا تحصیل لیول پہ ڈیل کیا جانا چاہئے۔ ایسا کیوں ہے؟ ہر کسی کو لاہور ریفر کیوں کر دیا جاتا ہے؟ اس کے لیے سب سے پہلے پورے پنجاب کے تحصیل اور ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتالوں کی رپورٹ طلب کی جائے۔دیکھا جائے کہ جو سہولیات وہاں ہونی چاہئیں کیا وہ وہاں موجود ہیں؟ وسائل اور جدید سہولیات کی کمی کو پورا کیا جائے۔ بیشمار جگہوں پر سی ٹی سکین مشینیں نہیں ہیں۔ ای سی جی مشینیں نہیں ہیں۔ اب اگر ڈاکٹر تو موجود ہے لیکن تشخیص اور علاج کے لیے مطلوبہ مشینری دستیاب نہیں تو آپ ڈیوٹی ڈاکٹر کو سو بار بھی معطل کر دیں مسئلہ تو حل نہیں ہو سکتا۔ اسے مشینری مہیا کی جائے۔اور پھر اس کے بعد ریفرل کے نظام کو آن لائن کیا جائے۔ جو ڈاکٹر مریض کو ریفر کرے۔۔ ساتھ اسکی وجہ بھی لکھے۔ایک مہینے بعد آپ کو پتا چل جائے گا کہ کہاں پہ کیا مسئلہ ہے۔ اور پھر بتدریج ان مسائل کو حل کریں۔ اور دوسرا بڑے ہسپتال بنانے کی فوری منصوبہ بندی کریں۔ پنجاب کے ہر ڈویژن کو ایک بڑے
ٹیچنگ ہسپتال کی ضرورت ہے جس میں وسائل اور سہولیات کا معیار وہی ہو جو لاہور کے میو ہسپتال یا جناح ہسپتال میں ہے۔

دوسرا بڑا مسئلہ ڈاکٹروں کے مسائل ہیں۔ہر حکومت چاہتی ہے کہ وہ ڈاکٹرز کو شکنجے میں کس دے اور صحت کا نظام فوراً ٹھیک ہو جائے۔ ایسا نہیں ہو سکتا۔ جب تک آپ ڈاکٹر اور بلخصوص ینگ ڈاکٹر کے مسائل حل نہیں کریں گے تب تک وہ پرسکون طریقے سے اپنی خدمات سرانجام نہیں دے سکے گا۔ اولین مسئلہ ڈیوٹی آورز ہیں۔ ینگ ڈاکٹر 36،36 گھنٹے مسلسل ڈیوٹی دیتے ہیں۔ جو ڈاکٹر صبح 6 بجے ایمرجنسی میں ڈیوٹی پہ آیا ہے، کیسے ممکن ہے کہ وہ رات 2 بجے آنے والے مریض کے ساتھ خوش اخلاقی سے بات کرے۔؟ اور پھر کسی نے یہ سوچا ہے کہ 24 گھنٹے ڈیوٹی کے دوران اس نے کھانا کہاں سے کھایا ہے؟ کس جگہ بیٹھ کر کھایا ہے؟ کتنے سرکاری ہسپتال ایسے ہیں جہاں ایمرجنسی میں ڈاکٹرز کے بیٹھنے کی باقاعدہ جگہ موجود ہو؟ ایک ہفتہ میں 80 گھنٹے ڈیوٹی کرنا کہاں کی انسانیت ہے؟ کیسے ممکن ہے کہ اس کے بعد وہ ڈاکٹر اپنے شعبے کے ساتھ انصاف کر سکے گا؟ ضروری ہے کہ پورے پنجاب میں یکساں ڈیوٹی سسٹم بنایا جائے۔ اور پھر آپکا حق ہے بلکہ فرض ہے کہ حاضری چیکنگ کا سخت سسٹم بنائیں۔ بائیو میٹرک حاضری سسٹم نافذ ہو۔آنے کا وقت بھی متعین ہو اور چھٹی کا وقت بھی مخصوص ہو۔ اور اگر کوئی ڈاکٹر اپنے مختص ورکنگ آورز سے زیادہ کام کرتا ہے تو اسے اس کی ڈبل تنخواہ دی جائے۔ جس طرح پوری دنیا میں ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).