ریاست حیدر آباد دکن انڈیا کے آگے ریت کی دیوار ثابت ہوئی


جنرل العیدروس اور جنرل چودھری
جنرل العیدروس (دائیں) جنرل چودھری کے آگے ہتھیار ڈالتے ہوئے

وقت: 18 ستمبر 1948، دن 12 بجے

مقام: حیدرآباد دکن سے پانچ میل دور

تقریب: ہندوستان کی سب سے بڑی اور گنجان آباد ریاست حیدرآباد کی جانب سے انڈین فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے کی رسم

کردار: حیدرآباد کے کمانڈر انچیف جنرل سید احمد العیدروس اور انڈین فوج کے میجر جنرل جینتو ناتھ چودھری۔

جنرل چودھری نے، جو بعد میں آرمی چیف بنے، اس تاریخی واقعے کی تفصیل کچھ یوں بیان کی ہے:

‘مجھے بتایا گیا تھا کہ اس موقعے پر ولی عہد ہز ہائی نیس شہزادہ اعظم جاہ بھی موجود ہوں گے، لیکن جب میں اپنی جیپ میں مقررہ وقت پر پہنچا تو صرف جنرل العیدروس کو دیکھا۔ ان کی وردی ڈھیلی ڈھالی اور آنکھووں پر سیاہ عینک تھی، اور وہ غم کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ میں ان کے قریب پہنچا۔ ہم نے ایک دوسرے کو سیلیوٹ کیا۔ میں نے کہا:

میں آپ کی فوج سے ہتھیار ڈلوانے آیا ہوں۔’

جنرل العیدروس نے مدھم آواز میں کہا: ‘ہم تیار ہیں۔’

‘کیا آپ کو معلوم ہے کہ ہتھیار غیر مشروط طور پر ڈلوائے جائیں گے؟’

‘جی ہاں۔’

‘کیا آپ کو معلوم ہے کہ جنوبی کمان کے جی او سی انچیف کے حکم کے مطابق حیدرآباد آرمی میری کمان میں رہے گی؟’

‘جی ہاں، مجھے معلوم ہے۔’

بس یہی سوال جواب ہوئے اور رسم پوری ہو گئی۔ میں نے اپنا سگریٹ کیس نکال کر جنرل العیدروس کو سگریٹ پیش کیا۔ ہم دونوں نے اپنے اپنے سگریٹ سلگائے اور خاموشی سے الگ ہو گئے۔’

اور یوں آج سے ٹھیک 70 سال پہلے کی اس گرم دوپہر کی دھوپ میں حیدرآباد پر مسلمانوں کا ساڑھے چھ سو سالہ اقتدار بھی دھویں میں تحلیل ہو کر رہ گیا۔

اس دوران جو کچھ ہوا، اس نے اس دھویں کی سیاہی میں خون کی سرخی بھی شامل کر دی۔ ان چند دنوں میں دسیوں ہزار عام شہری جان کی بازی ہار گئے۔ بہت سے ہندو مسلمان بلوائیوں اور مسلمان ہندو بلوائیوں کے ہاتھوں مارے گئے۔ کچھ کو انڈین فوج نے قطاروں میں کھڑا کر کے گولی مار دی۔

دوسری طرف نظام کی حکومت کے خاتمے کے بعد ہندو اکثریتی آبادی بھی حرکت پر آ گئی اور اس نے بڑے پیمانے قتلِ عام، ریپ، آتش زنی اور لوٹ مار کا بازار گرم کر دیا۔

جب یہ خبریں جواہر لال نہرو تک پہنچیں تو انھوں نے رکنِ کانگریس پنڈت سندر لال کی قیادت میں ایک تحقیقاتی کمیشن قائم کر دیا۔ تاہم اس کمیشن کی رپورٹ کو اشاعت کا منھ دیکھنا نصیب نہیں ہوا۔ البتہ 2013 میں اس کے بعض حصے افشا ہوئے جن سے پتہ چلا کہ اس میں شہری ہلاکتوں کا تخمیہ 27 ہزار سے 40 ہزار بتایا گیا تھا۔

رپورٹ میں لکھا ہے کہ ‘ہمارے پاس ایسے واقعات کے ناقابلِ تردید ثبوت موجود ہیں کہ انڈین آرمی اور مقامی پولیس نے لوٹ مار میں حصہ لیا۔ ہم نے اپنے دورے میں دیکھا کہ بہت سے مقامات پر انڈین فوجیوں نے نہ صرف ترغیب دی بلکہ بعض جگہوں پر ہندو جتھوں کو مجبور کیا کہ وہ مسلمانوں کی دکانوں اور گھر لوٹیں۔’

سندر لال کمیٹی

سندر لال کمیٹی کی رپورٹ آج تک شائع نہیں ہو سکی

رپورٹ میں لکھا ہے کہ انڈین فوج نے کئی دیہات میں مسلمانوں سے اسلحہ لے لیا جب کہ ہندوؤں کے پاس اسلحہ رہنے دیا، جس سے مسلمانوں کا بڑا جانی نقصان ہوا۔

رپورٹ کے مطابق بعض جگہوں پر انڈین فوجیوں نے معاملات خود اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔ ‘بعض دیہات اور قصبوں میں فوجی مسلمان بالغ مردوں کو باہر لے کر آتے تھے اور انھیں بلا اشتعال (in cold blood) گولی مار دی جاتی تھی۔’

البتہ رپورٹ کے مطابق کچھ جگہوں پر فوج نے مسلمانوں کے جان و مال کے تحفظ میں اہم کردار ادا کیا۔

تاہم مسلمانوں کی جانب سے سقوطِ حیدر آباد میں دو لاکھ سے زیادہ ہلاکتوں کا دعویٰ کیا جاتا رہا ہے، البتہ اس ضمن میں کوئی شواہد پیش نہیں کیے گئے۔

رپورٹ کیوں منظرِ عام پر نہیں لائی گئی؟ اس کی وجہ یہ بتائی جاتی رہی ہے کہ اس سے انڈیا میں ہندو مسلم منافرت کو ہوا ملے گی۔

برطانیہ سے بڑی ریاست

عثمانیہ جنرل ہسپتال

عثمان علی خاں کے دور میں 1911 میں تعمیر ہونے والا عثمانیہ جنرل ہسپتال جو جدید طبی مرکز ہونے کے ساتھ فنِ تعمیر کا بھی نمونہ تھا

حیدرآباد دکن کوئی چھوٹی موٹی ریاست نہیں تھی۔ 1941 کی مردم شماری کے مطابق یہاں کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ سے زائد اور اس کا رقبہ دو لاکھ 14 ہزار مربع کلومیٹر تھا، یعنی آبادی اور رقبے دونوں لحاظ سے برطانیہ، ترکی یا اٹلی سے بڑی۔

ریاست کی آمدن اس وقت کے نو کروڑ روپے تھی جو اقوامِ متحدہ کے 20 سے زائد ملکوں سے زیادہ تھی۔

حیدرآباد کی اپنی کرنسی، ٹیلی گراف، فون، ڈاک کا نظام، ہوائی اڈے، ریلوے لائنیں، تعلیمی ادارے اور ہسپتال تھے۔ یہاں واقع جامعہ عثمانیہ ہندوستان بھر کی واحد یونیورسٹی تھی جہاں مقامی زبان میں تعلیم دی جاتی تھی۔

1947 میں تقسیم کے وقت برطانوی راج کے دائرے میں قائم چھوٹی بڑی ریاستوں کو یہ آزادی دی گئی تھی کہ وہ چاہیں تو انڈیا یا پاکستان میں سے کسی ایک کے ساتھ الحاق کر لیں۔

ریاست کے حکمران میر عثمان علی خاں نے انڈیا یا پاکستان کے ساتھ ملنے کی بجائے برطانوی دولتِ مشترکہ کے اندر خودمختار ریاست کی حیثیت سے رہنے کا فیصلہ کیا۔

لیکن ایک مسئلہ تھا۔ حیدرآباد میں مسلمانوں کی آبادی صرف 11 فیصد تھی، جب کہ ہندو 85 فیصد تھے۔ لازمی طور پر ہندوؤں کی بڑی اکثریت انڈیا کے ساتھ الحاق کی حامی تھی۔

‘پولیس’ ایکشن

جب انڈیا میں حیدرآباد کو ضم کرنے کی باتیں ہونے لگیں تو ریاست کے مسلمانوں میں سخت بےچینی پھیل گئی۔ کئی مذہبی تنظیمیں منظرِ عام پر آ گئیں اور انھوں نے لوگوں کو اکسانا شروع کر دیا۔ رضاکار کے نام سے ایک مسلح تنظیم بھی اٹھ کھڑی ہوئی جس کا مقصد ہر قیمت پر ہندوستان سے الحاق روکنا تھا۔ بعض اطلاعات کے مطابق انھوں نے ریاست کے اندر بسنے والے ہندؤوں پر بھی حملے شروع کر دیے۔

اس پس منظر میں ‘اتحاد المسلمین’ نامی تنظیم کے قائد قاسم رضوی کی شعلہ بیانی اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ وہ ’جارحیت بہترین دفاع ہے‘ کے کلیے پر عمل کرتے ہوئے کھلم کھلا لال قلعے پر پرچم لہرانے کی باتیں کرتے تھے اور انھوں نے نظام کو یقین دلا رکھا تھا کہ ‘وہ دن دور نہیں جب خلیجِ بنگال کی لہریں اعلیٰ حضرت کے قدم چومیں گی۔’

انڈیا کی حکومت کے لیے یہ بہانہ کافی تھا۔ انھوں نے حیدرآباد پر فوج کشی کا منصوبہ تیار کر لیا جس کے تحت 12 اور 13 ستمبر کی رات کو بھارتی فوج نے پانچ محاذوں سے بیک وقت حملہ شروع کر دیا۔ نظام کے پاس کوئی باقاعدہ اور منظم فوج نہیں تھی۔ مجلس اتحاد المسلمین کے رضاکاروں نے اپنی سی کوشش ضرور کی لیکن بندوقوں سے ٹینکوں کا مقابلہ کب تک؟

18 ستمبر کو حکومت نے ہتھیار ڈال دیے کہ اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔

اس جنگی کارروائی کو ‘پولیس ایکشن’ کا نام دیا جاتا رہا ہے لیکن بمبئی کے صحافی ڈی ایف کاراکا نے 1955 میں لکھا تھا کہ ‘یہ کیسی پولیس کارروائی تھی جس میں ایک لیفٹیننٹ جنرل، تین میجر جنرل، اور ایک مکمل آرمرڈ ڈویژن ملوث تھے؟’

حیدرآباد دکن پر مسلمانوں کی حکومت کا آغاز دہلی کے سلطان علاءالدین خلجی کے دور میں 1308 میں ہوا تھا۔ کچھ عرصے تو یہاں کے مقامی صوبےدار دہلی کے ماتحت رہے لیکن 1347 میں انھوں نے بغاوت کر کے بہمنی سلطنت کی داغ بیل ڈال دی۔

دکن کے آخری حکمران میر عثمان کا تعلق آصف جاہی خانوادے سے تھا جس کی داغ بیل دکن کے صوبےدار آصف جاہ نے 1724 میں اس وقت ڈالی تھی جب 1707 میں اورنگ زیب عالمگیر کے انتقال کے بعد مغل بادشاہوں کی گرفت ملک کے مختلف صوبوں پر ڈھیلی پڑ گئی تھی۔

آصف جاہ کو نظام اول کہا جاتا ہے۔ انھوں نے 1739 میں نادر شاہ کے حملے کے وقت دہلی کے مغل بادشاہ محمد شاہ رنگیلا کا ساتھ دیا تھا اور انھی نے نادر شاہ کے پاؤں میں پگڑی ڈال کر دہلی میں جاری قتلِ عام رکوایا تھا۔

دکن میں ہے قدرِ سخن

اردو ادب کا باقاعدہ آغاز دکن ہی سے ہوا۔ یہیں اردو کے پہلے صاحبِ دیوان شاعر قلی قطب شاہ اور پہلے نثر نگار ملا وجہی پیدا ہوئے، اور سب سے پہلے یہیں کے بادشاہ علی عادل شاہ نے دکنی (قدیم اردو) کو سرکاری زبان قرار دیا۔

دکن کے سب سے مشہور اردو شاعر ولی دکنی ہیں جو نہ صرف اردو کے پہلے بڑے شاعر ہیں بلکہ جب 1720 میں ان کا دیوان دہلی پہنچا تو وہاں کے ادبی حلقوں میں ہلچل مچ گئی کہ شاعری اس طرح بھی ہو سکتی ہے۔ زمین زرخیر تھی، بس ذرا سے نم کی کمی تھی۔ چند عشروں کے اندر ہی وہاں شاعروں کی ایک کھیپ تیار ہو گئی جس میں میر تقی میر، مرزا سودا، میر درد، میر حسن، مصحفی، شاہ حاتم، مرزا مظہر اور قائم چاندپوری جیسے درجنوں شاعر ایسے ہیں جن کا جواب آج تک اردو ادب دینے سے قاصر ہے۔

دکن کے ایک اور شاعر سراج اورنگ آبادی ہیں، جن کی غزل

خبرِ تحیرِ عشق سن، نہ جنوں رہا نہ پری رہی / نہ تو میں رہا نہ تو تو رہا جو رہی سو بےخبری رہی

کے بارے میں ناقدین دعویٰ کرتے ہیں کہ آج تک اردو میں اس سے بڑی غزل نہیں لکھی گئی۔

دہلی کے زوال کے بعد حیدرآباد برصغیر میں مسلم ثقافت اور ادب کا سب سے بڑا گڑھ بن گیا۔ متعدد دانشوروں، فنکاروں، شاعروں اور ادیبوں نے وہاں کا رخ کیا۔ دکن میں اردو ادیبوں کی قدر کا اندازہ استاد ذوق کے شعر سے ہوتا ہے، جنھوں نے دعوت نامہ تو ٹھکرا دیا لیکن اردو کو یہ شعر دے گئے:

ان دنوں گرچہ دکن میں ہے بڑی قدرِ سخن / کون جائے ذوقؔ پر دلی کی گلیاں چھوڑ کر

داغ دہلوی البتہ دلی کی گلیوں کی پروا نہ کرتے ہوئے دکن جا بسے اور فصیح الملک کا خطاب اور ملک الشعرا کا درجہ پایا۔ اس دور کے ایک اور اہم شاعر امیر مینائی بھی دکن گئے، البتہ غالباً وہاں کی آب و ہوا راس نہ آئی اور جلد ہی دنیا سے رخصت ہو گئے۔

شاعروں پر موقوف نہیں، رتن ناتھ سرشار اور عبدالحلیم شرر جیسے نثر نگار اور شبلی نعمانی جیسے فاضل ایک عرصے تک ناظمِ علوم و فنون رہے۔

اردو کی اہم ترین لغات میں سے ایک ‘فرہنگِ آصفیہ’ حیدرآباد کی سرپرستی سے لکھی گئی۔ ریاست نے جن علما کی سرپرستی کی ان میں سید ابوعلیٰ مودودی، قرآن کے مشہور مترجم مارماڈیوک پکتھال، اور محمد حمیداللہ جیسے علما شامل ہیں۔

جوش ملیح آبادی نے ‘یادوں کی برات’ میں دکن کے قیام کا جو احوال بیان کیا ہے اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہاں علم و فن کی کس قدر قدر کی جاتی تھی۔

اور تو اور، بعض شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ خود علامہ اقبال دکن میں کوئی عہدہ لینے کے متمنی تھے۔ جب عطیہ فیضی کو اس کی بھنک پڑی تو انھوں نے اقبال کو سخت ڈانٹ پلائی:

‘معلوم ہوا ہے کہ تم حیدرآباد میں نوکری کرنا چاہتے ہو حالانکہ ہندوستان کے کسی والیِ ریاست کے ہاں تمہارا نوکرہونا تمہا ری صلاحیتوں کو سلب کر دے گا۔’

تب جا کر کہیں اقبال اپنے ارادے سے باز آئے۔

دنیا کے امیر ترین شخص

ساتویں نظام میر عثمان علی خاں اپنے دور میں دنیا کی امیر ترین شخصیت تھے۔ 1937 میں ٹائم میگزین نے ان کی تصویر سرورق پر چھاپی اور انھیں دنیا کا مالدار ترین شخص قرار دیا۔ اس وقت ان کی دولت کا تخمیہ دو ارب ڈالر لگایا گیا تھا جو اس وقت 35 ارب ڈالر کے لگ بھگ بنتا ہے۔

نظام کو تعلیم سے خاص دلچسپی تھی۔ وہ اپنے بجٹ کا 11 فیصد تعلیم پر خرچ کیا کرتے تھے۔ ریاست نے علی گڑھ یونیورسٹی کے قیام سے سب سے زیادہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اس کے علاوہ ندوۃ العلما اور پشاور کے اسلامیہ کالج جیسے کئی تعلیمی اداروں کی تعمیر میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔

نظام دکن
نظام دکن ششم محبوب علی خاں شیر کے شکار کے بعد

بات صرف برصغیر تک محدود نہیں تھی۔ نظام عثمان علی خاں دنیا بھر کے مسلمانوں کے سرپرست تھے۔ حجاز ریلوے انھی کی مالی اعانت سے تعمیر کی گئی۔ وہ خلافتِ عثمانیہ کے خاتمے کے بعد آخری خلیفہ عبدالحمید کو تاحیات وظیفہ دیتے رہے۔ یہی نہیں بلکہ 1931 میں انھوں نے اپنے ولی عہد شہزادہ اعظم جاہ کی شادی خلیفہ عبدالحمید کی صاحبزادی عثمانی شہزادی درِ شہوار سے کروائی۔

تاہم علمی اور ادبی سرگرمیوں کے اس ماحول میں نظام نے فوجی صلاحیتوں کے فروغ پر توجہ نہیں کی۔ ان کے کمانڈر انچیف کا العیدروس ذکر اوپر آ چکا ہے۔ وہ میرٹ پر ترقی پا کر اس عہدے تک نہیں پہنچے تھے بلکہ یہ مقام انھیں ورثے میں ملا تھا کہ دکن میں روایت چلی آ رہی تھی کہ سپہ سالار بنانے کے لیے عربوں کو ترجیح دی جاتی تھی۔

نظام دکن

العیدروس کی فوجی صلاحیتوں کے بارے میں ریاست کے صدرِ اعظم میر لائق علی اپنی کتاب ‘ٹریجڈی آف حیدرآباد’ میں لکھتے ہیں کہ انڈین فوج کے حملے کے دوران ‘جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا ویسے ویسے اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ فوجی کمانڈر (العیدروس) کے پاس کوئی پلاننگ نہیں تھی۔ کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس میں بدنظمی نہ ہو اور فوجی کمانڈر مجھ سے اور سویلین انتظامیہ سے رہبری کا خواہاں تھا۔‘

وہ لکھتے ہیں کہ ‘یہ بات جب نظام کے علم میں لائی گئی تو وہ حیران رہ گئے۔’

میر لائق علی کے مطابق العیدروس کی جنگی تیاریوں کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جنگ کے دوران ان کے فوجی افسر ایک دوسرے کو وائرلیس پر جو پیغام بھیجتے تھے وہ اتنے قدیم کوڈ پر مبنی تھے کہ انڈین فوج بڑی آسانی سے انھیں سن لیتی تھی اور انھیں لمحہ بہ لمحہ صورتِ حال کا علم ہوتا رہتا تھا۔

ابوالاعلی مودودی نے سقوطِ حیدرآباد سے نو ماہ قبل قاسم رضوی کو ایک خط میں واضح طور پر لکھا تھا کہ ‘نظام کی حکومت ریت کی ایک دیوار ہے جس کا ڈھے جانا یقینی ہے۔ رئیس اپنی جان و املاک بچا لے جائے گا اور عوام پس جائیں گے۔ ان حالات سے قبل ہر قسم کے تصادم کو روکا جائے اور ہر قیمت ہندوستان سے پر امن سمجھوتہ کر لیا جائے۔’

مودودی صاحب کی یہ پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور انگلینڈ سے بڑا ملک صرف پانچ دن کے اندر اندر زیر ہو گیا۔

جب فتح مکمل ہو گئی تو حیدرآباد میں انڈین حکومت کے ایجنٹ کے ایم منشی نظام دکن کے پاس گئے اور ان سے کہا کہ وہ شام چار بجے ریڈیو پر تقریر براڈکاسٹ کریں۔

‘کیسی براڈ کاسٹ؟ میں نے تو کبھی براڈ کاسٹ نہیں کی؟’

منشی نے کہا کہ حضور نظام، آپ کو کچھ نہیں کرنا، بس چند لفظ پڑھ کر سنانے ہیں۔

نظام نے مائیک کے سامنے کھڑے ہو کر منشی کا لکھا ہوا کاغذ تھام کر مختصر الفاظ ادا کیے جن میں انھوں نے ‘پولیس ایکشن’ کا خیر مقدم کیا اور اقوامِ متحدہ میں انڈین حکومت کے خلاف درج شکایت واپس لینے کا اعلان کیا۔

نظام زندگی میں پہلی بار حیدرآباد کے ریڈیو سٹیشن گئے تھے۔ نہ کوئی پروٹوکول، نہ کوئی سرخ قالین، نہ ان کے اعزاز میں ہاتھ باندھے چشم براہ وفد، نہ ان کے احترام میں قومی ترانہ۔

حکومت نے نظام کو اپنی تحویل میں لے لیا۔ ان کا انتقال 1967 میں ہوا۔

جہاں تک سوال ہے ان کی دولت کا تو ان کے 149 بیٹوں کے درمیان وراثت کی جو جنگ نصف صدی قبل شروع ہوئی تھی وہ آج بھی جاری ہے۔

.


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).