ارسطو کی کتاب، کافی، سگار اور مسرت – مکمل کالم


سقراط، افلاطون اور ارسطو، یہ تین فلسفی ایسے ہیں جن سے میں بہت تنگ ہوں۔ تینوں یونانی ہیں اور ایک ہی عہد میں آگے پیچھے وارد ہوئے۔ حضرت سقراط تو خیر قابو میں ہی نہیں آتے، انہوں نے اپنے شاگردوں کو زچ کرنے کے لیے ایک انوکھا طریقہ ڈھونڈا تھا جس میں وہ ان سے مکالمہ کرتے اور شاگردوں سے بظاہر آسان سوال پوچھ کر انہی سے جواب مانگتے اور اگر کوئی بیچارہ جواب دینے کی غلطی کر بیٹھتا تو اس کے جواب میں نقص نکال کر کہتے کہ یہ بات غلط ہے۔ اگر کوئی شاگرد بعینہ وہی بات بھی کرتا جو بعد میں سقراط نے کرنی ہوتی تو بھی حضرت پہلی مرتبہ میں اس غریب سے اتفاق نہ کرتے۔ آپ میں سے جو لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ آج میرا ارادہ سقراط پر تنقید کر کے تاریخ میں اس کے درست مقام کا تعین کرنے کا ہے تو ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں۔

ہر چند کہ استاد بالم ؔجیسے سنجیدہ اور مستند نقادوں کی رائے میں، جن کی شاہ عالم مارکیٹ میں قلفی کی اپنی ریڑھی ہے، فدوی کا مقام و مرتبہ کسی بھی لحاظ سے کانٹ، ہیگل، سپینوزا، دیکارٹ اور نطشے سے کم نہیں تاہم اس کے باوجود میں خود کو سقراط کا ہم پلہ نہیں سمجھتا۔ کچھ لوگ اسے میری کسر نفسی پر محمول کریں گے اور میں انہیں اس کا دوش بھی نہیں دوں گا مگر سقراط کو اس دنیا سے گزرے دو ہزار سال سے زیادہ ہو چکے، وہ زندہ ہوتا تو اور بات تھی، اس صورت میں شاید میں خط لکھ کر اسے فلسفیانہ بحث کی دعوت دیتا۔ ایسا ایک خط ابن انشا کے ’استاد مرحوم‘ نے اقبال کو بھی لکھا تھا کہ کسی کو ثالث بنا کر مجھ سے شاعری کا مقابلہ کر لیجیے لیکن شاید اس کا جواب نہیں آیا۔

رہی بات افلاطون کی تو وہ اپنے استاد سے بھی دو ہاتھ آگے نکلا، اس نے یہ پتا ہی نہیں چلنے دیا کہ کون سے خیالات اس کے اپنے ہیں اور کون سے سقراط کے۔ آج تک دنیا اس مخمصے سے باہر نہیں نکل سکی کہ ’جمہوریہ‘ کی اصل داد کسے دینی ہے۔ یہ کتاب شروع تو سقراط کے مکالموں سے ہوتی ہے جس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں سوال کرتا ہے کہ انصاف کیا ہے اور پھر اپنے شاگردوں کے ہر جواب کو رد کر کے اپنا فلسفہ انصاف بیان کرتا ہے اور بتاتا ہے کہ انصاف اصل میں یہ ہے کہ ہر شخص اور ادارہ اپنی حدود میں ر ہے۔ اب میں سوچتا ہوں کہ سقراط کو موت کی سزا بلا وجہ نہیں دی گئی تھی، موصوف اچھے خاصے باغی تھے۔

خیر، تو اسی کتاب میں افلاطون کے فلسفی بادشاہ کا تصور بھی موجود ہے۔ اس تصور کو پڑھتے ہوئے یوں لگتا ہے جیسے افلاطون نے خود کو سامنے رکھ کر فلسفی بادشاہ کی آسامی کے لیے سی وی تیار کیا ہے۔ لیکن میں اپنی اس رائے پر ہر گز اصرار نہیں کرتا، انکساری کے ہاتھوں مجبور ہوں، اور ویسے بھی کوئی تو بات ہوگی کہ پوری دنیا آج تک افلاطون کے افکار پڑھ کر سر دھن رہی ہے۔ قبلہ وہائٹ ہیڈ تو یہاں تک فرما گئے ہیں کہ افلاطون کے فلسفے کے سامنے باقی تمام دنیا کا فلسفہ محض ایک ’فٹ نوٹ‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔

ان تینوں فلسفیوں میں سے اگر میں واقعی کسی کا مداح ہوں تو وہ ارسطو ہے۔ اور سچی بات یہ ہے کہ میں صرف ارسطو سے ہی تنگ ہوں۔ جب بھی بندہ کوئی بات سوچنے لگتا ہے، لکھنے بیٹھتا ہے تو پتا چلتا ہے کہ ارسطو صاحب دو ہزار سال پہلے یہ بات سوچ کر کتاب بھی لکھ چکے ہیں۔ علم الحیوانات سے لے کر ستاروں کی چال بتانے تک اور منطق کے اصول طے کرنے سے لے کر شاعری کی نزاکتوں پر روشنی ڈالنے تک، شاید ہی کوئی کام ایسا ہو جو اس دیو قامت شخص نے نہ کیا ہو۔ لفظ ’فزکس‘ پہلی مرتبہ ارسطو نے ہی استعمال کیا اور اس موضوع پر بھی کتاب لکھی۔

ارسطو کی درجنوں کتابوں میں سے اگر کسی عام شخص نے کوئی ایک کتاب پڑھنی ہو تو میرا مشورہ ہو گا کہ وہ صرف ’Nicomachean Ethics‘ پڑھ لے۔ یہ کتاب ان بنیادی سوالات کے گرد گھومتی ہے جن کا جواب ہر انسان کو چاہیے۔ گزشتہ دو ہزار برسوں میں اس موضوع پر شاید لاکھوں کتابیں لکھی جا چکی ہیں مگر ارسطو کی کتاب اب بھی بائبل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اس کتاب کا نام ارسطو نے اپنے بیٹے کے نام پر رکھا ہے۔ ایک اوسط درجے کی قابلیت رکھنے والے قاری کے لیے اس کا انگریزی ترجمہ پڑھنا مشکل نہیں مگر قاری کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اس کتاب کی ترتیب شاید وہ نہ ہو جو ارسطو نے رکھی تھی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کتاب کے چند باب ارسطو کی ایک دوسری کتاب کے ابواب میں سے بھی لیے گئے ہیں کیونکہ محققین کا خیال ہے کہ وہ اسی کتاب کا حصہ تھے۔

کتاب کا آغاز اس سوال سے ہوتا ہے کہ زندگی کا مقصد کیا ہے، ایک اچھی زندگی کیسے گزاری جا سکتی ہے، مطمئن اور مسرور زندگی کے اجزا کیا ہیں، کیا انسان دائمی مسرت حاصل کر سکتا ہے، وہ کون سے عوامل ہیں جو مسرت کے حصول کا تعین کرتے ہیں اور انہیں اپنی زندگی کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ یہ وہ چند سوالات ہیں جن پر ارسطو اپنے دلائل کی عمارت کھڑی کرتا ہے اور پھر سوال کرتا ہے کہ انسان کے لیے اچھائی کیا ہے؟ اچھائی کو پانا ہی انسانی زندگی کی معراج اور اس کا حتمی مقصد ہونا چاہیے کیونکہ مسرت کے حصول کے لیے یہ لازم ہے۔ ارسطو کہتا ہے کہ جس طرح انسان مختلف قسم کے کام کرتے ہیں اور ان میں درجہ بندی ہوتی ہے، کسی کا کام دوسرے سے بہتر ہوتا ہے اور کسی کا بہترین، اسی طرح زندگی گزارنے کا ڈھنگ بھی بہتر اور بہترین ہوتا ہے۔ بہترین زندگی وہ ہے جو روح کی پاکیزگی کے ساتھ اور متقی انداز میں گزاری جائے، ارسطو نے یہاں virtue کا لفظ استعمال کیا ہے اور پھر ایک طویل فہرست دی ہے کہ بھلائی، خیر، اچھائی اور تقویٰ کے ممکنہ درجے کیا ہو سکتے ہیں اور ان میں توازن کیسے رکھا جا سکتا ہے۔ انسان کی اخلاقی ذمہ داریاں کیا ہیں، مسرت اور خوشی کی بنیاد کون سی باتیں ہیں، دوستی کے کیا اصول ہیں، وغیرہ۔ غرض یہ کہ اس موضوع پر ایسا کوئی سوال نہیں جو آپ کے ذہن میں آئے اور ارسطو نے اس کا جواب نہ دیا ہو۔

لیکن بے رحم نقاد مغرب میں بھی پائے جاتے ہیں۔ ارسطو کی اس کتاب کا مقدمہ جس شخص نے تحریر کیا ہے اس مرد عاقل نے ارسطو پر ایسی عالمانہ تنقید کی ہے کہ بندہ حیران رہ جاتا ہے ۔ مثلاً وہ لکھتا ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر انسان کے اخلاقی فضائل یا اس کا کمال فن ہی مسرت کا سبب بنے، دنیا میں بے شمار انسان ایسے ہیں جو کوئی ڈھنگ کا کام نہیں کرتے مگر مسرور اور شاداں رہتے ہیں، انسان بنا کچھ کیے بھی خوش رہ سکتا ہے اور مسرت صرف کامیابی سے مشروط نہیں، دنیا میں پر مسرت ناکامیاں بھی ہوتی ہیں۔ ارسطو نے یہ فرض کر لیا کہ دنیا میں ایک کام اور اسے کرنے کا ایک مخصوص طریقہ ہی مسرت اور خوشی کے حصول کو ممکن بناتا ہے جبکہ ایسی بات نہیں، دنیا میں مختلف انسان مختلف طریقوں سے مسرت کشید کرتے ہیں، یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے مختلف لطیفوں پر لوگوں کا رد عمل مختلف ہوتا ہے، کوئی قہقہہ لگاتا ہے اور کوئی صرف مسکرا کر رہ جاتا ہے۔ اور پھر مسرت حاصل کرنا ہی انسان کا حتمی مقصد کیوں ہو، انسان کوئی بھی دوسرا مقصد رکھ سکتا ہے، چاہے اس میں مسرت کا حصول یقینی نہ ہو۔

ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ ارسطو کے کام پر تنقید سے متاثر نہ ہوں، یہ ضروری بھی نہیں، دیکھنے کی بات مگر یہ ہے کہ ارسطو جیسا دیوقامت فلسفی اور دانشور بھی تنقید سے مبرا نہیں۔ ہمیں بس یہ اصول یاد رکھنا چاہیے۔ ہم بڑے لوگوں کی شخصیت سے جب مرعوب ہوتے ہیں تو ان کے کام کا بھی مرعوبیت کے عالم میں ہی جائزہ لیتے ہیں۔ جبکہ ضروری نہیں کہ ہر بڑے شخص کا ہر کام ہی معرکۃ الآرا ہو۔ لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ہم کسی عالمانہ ہستی کو پکڑیں اور اسے محض اس اصول کی بنیاد پر رگید کر رکھ دیں۔ جو شخص جتنا بڑا عالم ہوتا ہے اس پر تنقید کے لیے بھی اتنا ہی علم درکار ہوتا ہے۔ ارسطو کی کتاب پر تنقید میں وزن ضرور ہے مگر اس کے باوجود یہ کتاب ایسی ہے کہ دو ہزار سال گزرنے کے بعد بھی اس کی تازگی میں کمی نہیں آئی۔ مسرت کی تعریف اگر وہ نہ ہوتی جو ارسطو نے بیان کی ہے تو یہ کتاب اب تک غیر متعلق ہو چکی ہوتی! سردیوں کی شام ہو، ایک ہاتھ میں یہ کتاب ہو، دوسرے میں سگار ہو، ساتھ کافی کا مگ ہو، مسرت خود چل کر آجاتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 495 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments