کارگل میں پاکستان کے خلاف لڑنے والے انڈین فوجی کی شہریت پر شبہ


سعداللہ احمد

سعداللہ احمد

‘جب کارگل جنگ کا بگل بجا تھا تو بیس پر پہنچنے والا میں پہلا شخص تھا، ملک کے لیے میرا جذبہ اس قدر مضبوط ہے۔’

یہ کہتے ہوئے سعداللہ احمد کی گردن فخر سے تن جاتی ہے۔

لیکن اس سابق فوجی کا نام آسام کی شہریت کے رجسٹر (قومی شہری رجسٹر یا این آر سی) میں شامل نہیں ہے اور اس کے لیے انھیں سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑا۔

سعد اللہ کا کیس اس نوعیت کا واحد معاملہ نہیں ہے۔

یہ بھی پڑھیے

آسام کے 40 لاکھ باشندے انڈین شہریت کی فہرست سے خارج

انڈیا میں انسانی المیے پر بھی سیاست

فوج میں 30 سال تک خدمت انجام دینے والے کے بعد ریاستی دارالحکومت گوہاٹی میں رہائش پزیر اجمل حق کہتے ہیں: ‘میں کم از کم چھ ایسے سابق فوجیوں کو جانتا ہوں جنھیں این سی آر میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔ ایک تو اب بھی فوج میں ہے، جنھیں غیر ملکی قرار دے کر نوٹس بھیجا گيا ہے کہ ‘ڈی ووٹر’ (مشتبہ ووٹر) کی فہرست میں ان کا نام ڈال دیا گيا ہے۔

اجمل

30 برسوں تک انڈین فوج میں خدمات انجام دینے والے اجمل حق کا نام بھی فہرست میں نہیں ہے

اجمل حق کے مطابق یہ سات وہ ہیں جو ان کے رابطے میں ہیں جبکہ پوری ریاست میں ایسے بہت سارے سپاہی اور سابق فوجی ہیں جنھیں اپنی انڈین شہریت ثابت کرنے کے لیے کہا گیا ہو گا۔

وہ اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے مشتعل ہو جاتے ہیں کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو بھی فوج میں بھیجنے کی تیاری کر لی ہے۔ ان کا بیٹا فی الوقت نیشنل انڈین ملٹری کالج دہرہ دون میں زیر تعلیم ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے اور بیٹی کا نام بھی این آرسی میں شامل نہیں ہے۔

‘آسام پولیس نے بھی اسے غلط کہا’

اجمل

اجمل نے این آر سی کے نوٹس اور دیگر کاغذات دکھاتے ہوئے کہا: ‘ہم نے اپنے ملک کو اپنی جوانی کے 30 سال دیے اور آج ہمارے ساتھ ایسا سلوک ہو رہا ہے، یہ بہت تکلیف دہ ہے۔’

پولیس سربراہ مکش سہائے نے خود کو اجمل کے غیر ملکی ہونے اور انڈین شہریت ثابت کرنے کے نوٹس کو غلط قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ شناخت کی غلطی کا نتیجہ ہے۔

وزیر اعلی نے تحقیقات کے حکم بھی دیے اور کہا کہ اس معاملے میں غلطی کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا لیکن پھر بھی شہریت کے معاملے میں سابق جونیئر کمیشن آفیسر اجمل حق کی پریشانی کم نہیں ہوئی۔

فوج نے تقرری کے وقت جانچ کی تھی

ثناء اللہ

ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ تقرری کے وقت گہری چھان بین ہوئی تھی

ان فوجیوں کا کہنا ہے کہ تقرری کے وقت فوج ان کے متعلق مکمل تحقیقات کرتی ہے تو اب ان کی شہریت کے متعلق شک و شبہ کیوں پیدا کیا جا رہا ہے؟

سابق کیپٹن ثناء اللہ کہتے ہیں کہ ‘جب ہماری بحالی (تقرری) ہوتی ہے تو اس وقت مکمل چھان بین ہوتی ہے۔ شہریت کے سرٹیفکیٹ اور دوسرے اسناد مانگے جاتے ہیں۔ فوج اسے ریاستی انتظامیہ کو بھیج کر ان کی پھر سے تصدیق کرواتی ہے۔ ایسے میں یہ سوال تو اٹھنا ہی نہیں چاہیے۔’

ان فوجیوں نے اپنی شہریت پر سوال اٹھائے جانے کے بارے میں صدر جمہوریہ کو ایک خط لکھا ہے اور ان سے اس معاملے میں مداخلت کی درخواست کی ہے۔

گوہاٹی سے 250 کلومیٹر دور بارپیٹا کے باليكڑی گاؤں میں نور جہاں احمد کہتی ہیں کہ اس نوٹس نے ‘ہمیں معاشرے میں بدنام کر دیا ہے۔’

نورجہاں سابق فوجی شمس الحق کی بیوی ہیں جنھیں مشتبہ ووٹرز کی فہرست میں رکھا گیا ہے جبکہ وہ انتخابات میں دو بار اپنا ووٹ ڈالنے کا دعوی بھی کرتی ہیں۔

شمس الحق کا بیٹا اور بیٹی امریکہ میں رہتے ہیں لیکن وہ کہتے ہیں کہ انھیں اپنی زمین اور یہاں کی مٹی سے محبت ہے، وہ آسام میں ہی مرنا چاہیں گے اور وہاں سے کہیں نہیں جائيں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32300 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp