افغانستان: ’جب میں نے افغان مجاہدین کے ساتھ چھٹیاں گزاریں‘
1970 کی دہائی کے اواخر میں برطانوی کاؤنٹی بکنگھم شائر سے تعلق رکھنے والے جان انگلینڈ کے تعلقات اپنے پڑوسی رحمت اللہ صافی کے ساتھ خاصے دوستانہ ہو گئے۔ 1988 میں رحمت اللہ نے جان کو جنگ سے بری طرح متاثرہ افغانستان میں چھٹیاں گزارنے کی دعوت دی جو حیرت انگیز طور پر جان نے قبول کر لی۔
جان نے اپنے تین ہفتوں پر محیط سفر کی ڈائری لکھی، جو اب ای بک کی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب اور اس میں شامل تصاویر سے 30 سال قبل کے افغانستان پر روشنی پڑتی ہے۔
جان کی رحمت اللہ سے 1978 میں پہلی بار ملاقات ہوئی تھی۔ جان ایک سکول میں استاد تھے، اور رحمت اللہ پلاسٹک کی فیکٹری میں کام کرتے تھے۔
رحمت اللہ افغان فوج میں کرنل تھے لیکن جب 1973 میں اس وقت افغانستان کے بادشاہ کو معزول کیا گیا تو وہ بھی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ چھ سال بعد روسی فوجیں ملک میں داخل ہو گئیں۔
یہ بھی پڑھیے
’شربت گلہ واپس افغانستان جانا چاہتی ہیں‘
نیلی آنکھوں والی یہ لڑکی کہاں کی ہے؟
رحمت اللہ مجاہدین سے جا ملے، اور کچھ عرصے بعد انھیں خاندان سمیت برطانیہ میں سیاسی پناہ مل گئی۔
جان رحمت اللہ کے ساتھ پکتیا صوبے کے شہر گردیز گئے۔ اس کے علاوہ انھیں پشاور اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں جانے کا بھی موقع ملا۔
جان نے دیکھا کہ مجاہدین رحمت اللہ کی بڑی عزت کرتے تھے۔ ان کی وساطت سے جان کو مختلف رنگ و نسل اور عمروں کے مجاہدین سے ملنے کا موقع ملا۔
ان کی تصاویر میں شاداب وادیاں، ویران دشت، جلی ہوئی روسی گاڑیاں، بموں سے تباہ شدہ دیہات اور گڑھوں سے پر سڑکیں نظر آتی ہیں۔
اس وقت افغانستان میں روسی ساختہ ٹرک اور ٹویوٹا جیپیں عام تھیں۔
جان نے دیکھا کہ مجاہدین کو اپنے ہتھیاروں کے ساتھ تصویریں کھنچوانے کا بڑا شوق ہے۔
جان نے کئی تصویریں پشاور کی ایک لیبارٹری سے دھلوائی تھیں۔ 30 برسوں بعد ان کے رنگ پھیکے پڑ گئے ہیں۔
جان نے ڈائری میں لکھا ہے کہ ایک بار انھوں نے سرحدی علاقے میں ایک دعوت میں شرکت کی جس کے بعد مجاہدین ناچنے لگے۔ یہ ان کے لیے غیر متوقع تھا۔
مقامی افراد جان میں بڑی دلچسپی لیتے تھے۔ انھوں نے کبھی زندگی میں پاسپورٹ نہیں دیکھا تھا اور وہ برطانیہ کی مہنگائی پر حیرت میں پڑ جاتے تھے۔ ان کے لیے ٹائلٹ پیپر کا تصور بھی انتہائی بھونڈا تھا۔
لیکن ان سب کے باوجود وہ بی بی سی سے اچھی طرح واقف تھے۔
جان نے لکھا کہ درہ آدم خیل میں ہر دکان پر اسلحہ بکتا تھا۔ ’آپ وہاں مشین گنیں، طیارہ شکن گنیں، ماؤزر، کلاشنکوف، غرض ہر طرح کا اسلحہ خرید سکتے تھے۔‘
جان کہتے ہیں کہ ’جس چیز نے میرا سفر یادگار بنایا وہ افغانوں کی سخاوت، مہمان نوازی اور مہربانی تھے۔ جنگ زدہ علاقے میں رہنے کے باوجود مجھے تحفظ کا احساس رہتا تھا۔ میں یہ تجربہ کبھی نہیں بھول سکوں گا۔‘
تصاویر: جان انگلینڈ
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).