کیا آپ نے نیلم احمد بشیر کا ناول ۔۔۔ طائوس فقط رنگ ۔۔۔ پڑھا ہے؟


اگر آپ کسی بے دھڑک، بے خوف، اپنے سچ کا بغیر کسی مصلحت اور سیاست کے اظہار کرنے والی اردو ادیبہ سے ملنا چاہتے ہیں تو آپ کو نیلم احمد بشیر سے ضرور ملنا چاہیے۔ ٹورانٹو میں قیام کے دوران ۲ ستمبر ۲۰۱۸ کو ایک سیمینار میں شکوہ عاطف، اسما باجوہ، بلند اقبال اور مرزا یاسین بیگ نے نیلم احمد بشیر کے ناول ’طائوس فقط رنگ‘ کے بارے میں اپنے خیالات، جذبات اور احساسات کا اظہار کیا۔ مقالوں کے بعد انٹرویو کے دوران جب ایک شاعر منیف اشعر نے نیلم احمد بشیر سے پوچھا کہ جب آپ روایت اور مذہب کو چیلنج کرتی ہیں تو کیا آپ کو ڈر نہیں لگتا کہ شدت پسند اور دہشت پسند طالبان آپ پر حملہ کر دیں گے؟ یہ سوال سن کر نیلم احمد بشیر مسکرائیں اور کہنے لگیں ’میں کسی سے نہیں ڈرتی ویسے بھی طالبان ادب نہیں پڑھتے،۔ اس سیمینار میں میں نے مندرجہ ذیل مضمون پیش کیا۔

خواتین و حضرات ! میں نیلم احمد بشیر کا ٹورانٹو میں خیر مقدم اور اسما باجوہ کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں کہ انہوں نے اس ادبی محفل کا اہتمام کیا اور مجھے نہ صرف نیلم احمد بشیر کا ناول ’طائوس فقط رنگ‘ تحفے کے طور پر دیا بلکہ اس ناول کے بارے میں اپنے خیالات کے اظہار کی دعوت بھی دی۔

میں نے زندگی میں بہت سے ناول پڑھنے کی کوشش کی لیکن دس بیس صفحوں سے زیادہ نہ پڑھ سکا۔ ایک دفعہ ایک ناول کے بیس باب پڑھنے کے بعد ناول نگار سے شکایت کی کہ ناول پڑھنے میں مزا نہیں آرہا تو کہنے لگے پڑھتے رہیے اصل کہانی چھبیسوں باب سے شروع ہوتی ہے۔ لیکن نیلم احمد بشیر کے ناول ’طائوس فقط رنگ‘ نے، جس کا نام علامہ اقبال کے مصرعے ’ بلبل فقط آواز ہے طائوس فقط رنگ‘ سے مستعار لیا گیا ہے، مجھے شروع سے ہی ایسا پکڑا یا جکڑا کہ میں نے تین سو صفحات کا ناول دو دن میں پڑھ لیا۔ یہ کسی بھی ناول کے کامیاب ہونے کی پہلی نشانی ہے۔

نیلم احمد بشیر کے ناول پر کئی حوالوں سے گفتگو کی جا سکتی ہے۔ میں چونکہ کوئی پیشہ ور ادبی نقاد نہیں ایک نفسیات کا طالب علم ہوں اس لیے میں اس ناول کے بارے میں نفسیاتی حوالے سے بات کرنے کی جسارت کروں گا۔

ایک نفسیات کے طالب علم ہونے کے ناطے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ نیلم احمد بشیر نے جس طرح اپنے کرداروں اور ان کے رومانوی اور سماجی رشتوں کو اپنے ناول میں برتا ہے وہ قابلِ صد داد و تحسین ہے۔ یوں لگتا ہے وہ ایک افسانہ نگار اور ناول نگار ہی نہیں ایک ماہرِ نفسیات بھی ہیں اور ہوں بھی کیوں نہ آخر انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے نفسیات میں ایم اے کر رکھا ہے۔

ناول کے دو اہم کردار۔۔۔ڈیلائلہ اور مراد۔۔۔ امریکہ میں پلے بڑھے ہیں لیکن دونوں اپنے خاندانوں کی وجہ سے نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔نیلم احمد بشیر ان کے نفسیاتی مسائل کو بڑے احسن طریقے سے پیش کرتی ہیں۔ مراد عورت کے بغیر اور ڈیلائلہ مرد کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ جنس دونوں کی نفسیاتی کمزوری ہے۔ اور یہ کمزوری بہت سی اور نفسیاتی، قانونی اور سماجی کمزوریوں کو جنم دیتی ہے۔

ناول کے شروع میں جب ڈیلائلہ کی مراد سے ملاقات ہوتی ہے تو وہ اس کی جوانی اور وجاہت کے سحر میں آ جاتی ہے۔ اسے یہ جان کر بہت دکھ ہوتا ہے کہ مراد کی شمع سے شادی ہو چکی ہوتی ہے چنانچہ وہ اس کے دوست اسفند سے فلرٹ کرنا شروع کر دیتی ہے لیکن اسے یہ جان کر بھی پریشانی ہوتی ہے کہ اسفند کی پاکستان میں ایک منگیتر ہے جسے وہ ٹوٹ کر چاہتا ہے۔

کچھ عرصہ بعد جب ڈیلائلہ کی مراد سے دوبارہ ملاقات ہوتی ہے اور وہ دوبارہ محبت کی پینگیں بڑھانا چاہتی ہے تو اسے یہ جان کر حیرانی و پریشانی ہوتی ہے کہ مراد شیری کے عشق میں گرفتار ہے۔ ڈیلائلہ کے دل کی محبت کی لو آہستہ آہستہ حسد کا شعلہ بن جاتی ہے۔ اسی دوران وہ ڈرگز بھی لے رہی ہوتی ہے جس سے اس کی شخصیت مسخ ہونی شروع ہو جاتی ہے۔ اس کا مزاج کبھی گرم ہوتا ہے کبھی سرد۔ کبھی وہ محبت کی دیوی بن جاتی ہے کبھی نفرت کی چڑیل۔ ڈیلائلہ کا دل حاسد کے دل کی طرح ایک چھلنی بن جاتا ہے جس میں کتنی بھی محبت ڈالی جائے اس کی پیاس نہیں بجھتی۔

اگر ڈیلائلہ کسی ماہرِ نفسیات سے مشورہ کرتی تو عین ممکن تھا وہ اس کی تشخیص BORDERLINE PERSONALITY DISORDER کرتا۔ اسی لیے نیلم احمد بشیر کے ناول سے ادب کے طالب علم ہی نہیں نفسیات کے طالب علم بھی استفادہ کر سکتے ہیں کیونکہ ان کا ناول درسی کتابوں سے کہیں زیادہ دلچسپ اور معنی خیز ہے۔

نیلم احمد بشیر نے کرداروں کی نفسیات کے ساتھ ساتھ مراد، شیری اور ڈیلائلہ کے خاندانوں کی نفسیات کو بھی احسن طریقے سے پیش کیا ہے خاص طور پر روایتی مائوں کی نفسیات کو جو اپنے نفسیاتی مسائل کا حل مذہب، گنڈا،  تعویز،دعائوں اور عبادات میں تلاش کرتی ہیں چاہے ان دعائوں کا تعلق اسلام سے ہو یا عیسائیت سے۔

نیلم احمد بشیر کے ناول میں ۱۱ ستمبر ۲۰۰۱ کا حادثہ اہم کردار ادا کرتا ہے۔ وہ بڑی مہارت سے امریکہ اور امریکہ میں مسلمانوں کی بدلتی ہوئی نفسیات پیش کرتی ہیں۔ اس المیے نے نہ صرف پہلی نسل کے مہاجروں کی بلکہ ان مہاجروں کے بچوں کو بھی متاثر کیا جو مراد کی طرح امریکہ میں پلے بڑھے تھے۔ وہ اپنی بھوری جلد کی وجہ سے تعصب کا نشانہ بنے اور انہیں اپنے گھر میں بھی اجنبیت کا احساس ہونے لگا۔

نیلم احمد بشیر نے اپنے ناول میں سوشل میڈیا، فیس بک اور انٹرنیٹ کی نفسیات کو بھی اپنی گرفت میں لیا ہے۔ انہوں نے CYBER HARRASSMENT AND CRIMES کے رازوں کو بڑی خوبصورتی سے اپنے ناول کا حصہ بنایا ہے۔ یہ باب اردو ناول میں نیا ہے جو اس ناول کو CONTEMPORARY بناتا ہے۔ نیلم احمد بشیر نے ہمیں آئینہ دکھایا ہے کہ کس طرح ڈیلائلہ جیسا ایک مریضانہ ذہن معصوم لوگوں کی زندگی کو جیتے جی جہنم بنا سکتا ہے۔

نیلم احمد بشیر نے TIM JONES کے ایک مذہبی CULT کو بھی اپنے ناول میں شامل کر کے ہمیں بتایا ہے کہ مذہبی شدت پسندی کس طرح پڑھے لکھے لوگوں کی عقل کو خیرہ کر دیتی ہے اور وہ کلٹ لیڈر کے جال میں پھنس کر نہ صرف جنسی تشدد کا شکار ہوتے ہیں بلکہ اجتماعی خود کشی کا ارتکاب بھی کرتے ہیں۔ناول کا یہ حصہ مذہب کے تاریک رخ کی نفسیات پیش کرتا ہے۔

نیلم احمد بشیر نے اپنے ناول میں اکیسویں صدی کے امریکہ کے تاریک پہلو پر روشنی ڈالی ہے جس کی ہمت بہت کم مشرقی ادیبوں میں ہوتی ہے۔

نیلم احمد بشیر کہانی لکھنے کے کرافٹ کو جانتی ہیں وہ کرداروں کی، پلاٹ کی اور ماحول کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ کہانی میں سسپنس کی اہمیت سے بھی باخبر ہیں اسی لیے ناول قاری کو پہلے صفحے سے آخری صفحے تک جکڑے رکھتا ہے۔

ہو سکتا ہے اس ناول سے وہ مشرقی قاری، ادیب اور نقاد ناراض ہو جائیں جو ادب کو مذہب اور اخلاقات کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں لیکن وہ قاری‘ ادیب اور نقاد بہت خوش ہوں گے جو ناول کو ادب اور زندگی کی کسوٹی پر پرکھتے ہیں۔ نیلم احمد بشیر زندگی کے رازوں سے بھی باخبر ہیں اور فن کے رازوں بھی جانتی ہیں۔

میں ایک افسانہ نگار اور ایک ماہرِ نفسیات ہونے کے ناطے نیلم احمد بشیر کو ’طائوس فقط رنگ‘ تخلیق کرنے پر مبارکباد پیش کرتا ہوں۔

ڈاکٹر خالد سہیل

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر خالد سہیل

ڈاکٹر خالد سہیل ایک ماہر نفسیات ہیں۔ وہ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ ان کے مضمون میں کسی مریض کا کیس بیان کرنے سے پہلے نام تبدیل کیا جاتا ہے، اور مریض سے تحریری اجازت لی جاتی ہے۔

dr-khalid-sohail has 690 posts and counting.See all posts by dr-khalid-sohail