سعد رفیق کی بے عزتی کیوں کی جاتی ہے؟


میں دس سال سے اسلام آباد میں صحافت کر رہا ہوں اور ان دس برسوں میں اگر میں کسی شخص سے بطور وفاقی وزیرمتاثر ہوا ہوں تو وہ سابق وفاقی وزیر ریلوے سعد رفیق ہیں۔ میرا سعد رفیق سے پارلیمنٹ بلڈنگ میں سینکڑوں بار آمنا سامنا ہوا مگر کبھی ایک بار بھی میں ان سے نہ ملا اورنہ ہی اب میری ان سے کوئی علیک سلیک ہے۔ مگر میں نے ان کو ریلوے کے ساتھ کمٹڈ ایک مکمل سیاسی ذہن اورسیاسی چال چلت رکھنے والا ورکر پایا۔ میری نظر میں سعد رفیق کا یہ کہنا درست ہے کہ ان کو پاکستان ریلوے کو زندہ کرنے پر شاباش ملنی چاہیے مگر بجائے اس کے ان کی ہر عدالتی پیشی پر بے عزتی کی جاتی ہے۔

سندھ کا شہر روہڑی میرا آبائی شہر ہے۔ پاکستان کا لاہور کے بعد سب سے بڑا ریلوے اسٹیشن روہڑی کا ہی ہے۔ اسی اسٹیشن سے کراچی اور بلوچستان کے ریلوے ٹریک جدا ہوتے ہیں۔ اس اسٹیشن پر 24گھنٹے ٹرینوں کی آمد رفت جاری رہتی ہے۔ ریلویز سے منسلک ایسے شہر سے تعلق ہونے کی بنا پر بچپن سے ریلوے ہمارا سب سے اہم ذریعہ سفر رہا ہے اس لئے اس کے اتار چڑہاؤ سے ہم اچھی طرح واقف ہیں۔

پاکستان ریلوے کی ماضی قریب میں سب سے بڑی تباہی محترمہ بی نظیر بھٹو کی شہادت کے دن سے شروع ہوئی جس دن ان کی شہادت پر احتجاج کرنے والوں نے اور چیزوں کے علاوہ پاکستان ریلوے کو تہس نہس کر دیا۔ بوگیاں، انجن، اسٹیشن، مال گاڑیاں جلا دی گئی، ریلوے ٹریک ادھیڑ لئے گئے اور پاکستان میں اس دن سے ٹرین ایسی پٹری سے اتری کہ اگلے کئی سال پھر اپنے پیروں پہ واپس نہیں آئی۔ 2008 سے 2013 تک پیپلز پارٹی کی اگلی پانچ سالہ حکومت میں بھی بجائے ٹھیک ہونے کے مزید ابتر ہو گئی اور اس وقت وفاقی وزیر ریلوے غلام احمد بلور صاحب کے منہ سے کبھی نہیں سنا کہ وہ ریلوے کو ٹھیک کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اس پورے دور میں پاکستان کا ریل کا نظام اس نہج تک پہنچ گیا تھا کہ روز خبر آتی تھی کہ محکمہ آج بند ہوا کہ کل۔ ریلوں کا نہ کوئی نظام رہا نہ کوئی ٹائیم ٹیبل، مین ریلوے لائینوں پر سینکڑوں مسافروں سے بھری ہوئی گاڑیاں پندرہ پندرہ گھنٹے انجن فیل ہونے پر کھڑی رہتی تھی۔ ایسا بھی معمول ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور بھگتا کہ جب انجنوں کا ڈیزل ختم ہو جاتا اور ایکسپریس گاڑیاں کئی کئی گھنٹے شدید گرمیوں میں مسافروں سے بھری ہوئی جنگلوں میں کھڑی رہتی تھی۔ اسٹیشن گندگی کے ڈھیر بن چکے تھے، ریلویز کی ملکیتیں قبضہ گیروں کے ہاتھ ہو گئیں، ٹکٹ کا نظام مکمل طور پر ریلوے پولیس اور کرپٹ عملہ اور افسران کے ہاتھہ میں تھا، مین لائین ٹریک کی ٹرینوں کا بہت ہی برا حال تھا، سائیڈ لائین ٹریک کی تو حالت پوچھیں ئی نہ، مال گاڑیوں والا سارا نظام بند ہو چکا تھا۔

مطلب ریلوے کا جنازہ نکل چکا تھا جس وقت مسلم لیگ نون کی حکومت آئی اور سعد رفیق کو وفاقی وزیر ریلوے بنایا گیا۔ ا ن کو پاکستان ریلوے کا شعبہ ایک مردہ گھوڑے کی طرح ملا اور اسی ایک شخص نے محنت کر کے اس مردہ گھوڑے میں جان ڈالی۔ پٹری پر چلنے والے ریلوے نظام کو بہتر کرنا آسان ہے مگر پٹری سے اترے ہوئے سسٹم کو پٹری پر واپس لانا ہی کارنامہ ہے اور سعد رفیق صاحب نے یہ کر دکھایا ہے۔

یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ریلوے ایک وفاقی ادارہ ہے اور اس پر چاروں صوبوں کے عوام کا حق ہے اور سعد رفیق صاحب نے اس ضمن میں دوسرے صوبوں کے لوگوں کو نہ نوکریاں دینے میں انصاف کیا، نہ نئی ٹرینیں دینے میں انصاف کیا، نہ دوسرے صوبوں میں اکا دکا چلنے والی پرانی ٹرینوں کے نظام کو جدید کرنے پر کوئی توجہ دی، نہ دوسرے صوبوں میں قائم ریلوے اسٹیشنوں کو بہتر کرنے پر کوئی خرچہ کیا۔ ایک رپورٹ یہ ہے کہ سعد رفیق صاحب نےبطور ریلوے وزیر، ریلوے کھاتے کا 92 فیصد بجٹ پنجاب میں ریلوے پر خرچ کیا۔

سعد رفیق پر کرپشن کے کیسز بھی چل رہے ہیں، جن کا فیصلہ عدالتوں نے کرنا ہے، مگر جب بھی وہ سپریم کورٹ آف پاکستان میں پیش ہوتے ہیں، ان کے منہ سے بے اختیار نکل جاتا ہے کہ اتنی محنت کی مگر شاباش ملنے کے بجائےہر باران کی بے عزتی کی جاتی ہے اور ڈانٹ پلائی جاتی ہے، سعد رفیق کی یہ فریاد بالکل درست ہے، انہوں نے ریلوے کے مردہ گھوڑے میں جان ڈالی ہے ان کو شاباش ضرور ملنی چاہیے باقی ریلوے اگر خسارے میں ہے اور مقروض ہے تو پاکستان کا کونسا ادارہ قرض کے نیچے نہیں؟ سعد رفیق پر جو کرپشن کے کیسز ہیں ان پر بھلے کیس چلے اور ثابت ہو تو ان کو سزا بھی ملنی چاہیے مگر، ریلوے کے لئے اگر انہوں نے کوئی دن رات محنت کی ہے تو ان کو اس پر شاباش بھی ملنی چاہیے۔ ٓٓٓ


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).