یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن: قومی ادارہ تباہی کے دہانے پر


یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کا قیام آج سے سینتالیس سال قبل انیس سو اکہتر کو عمل میں آیا، اس فلاحی ادارے کو بنانے کا مقصد ان لوگوں تک معیاری اور سستی اشیائے خوردونوش پہنچانا تھا، جو غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں۔

یوٹیلٹی سٹور کا رخ وہ لوگ کرتے ہیں جو عام مارکیٹ سے خریداری کی قوت نہیں رکھتے ہیں۔ یہ لوگ دس، بیس روپے بچانے کی خاطر قطاروں میں کھڑے رہتے ہیں، گھنٹوں لائنوں میں کھڑے ہونے کے بعد وہ سستی چینی، دالیں، چاول، اور گھی خرید کر خوشی خوشی لوٹتے ہیں۔
یہ لوگ اتنے غریب ہوتے ہیں کہ اگر سٹور میں سستی اشیائے خوردونوش کی وقتی قلت ہو تو ان کو کئی دنوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور ہر روز سٹور کے دروازے پر جاکر پوچھتے ہیں کہ چینی آئی ہے کہ نہیں۔

اس غریب پرور ادارے نے چند سٹوروں سے اپنے سفر کا آغاز کیا تھا آج یہ ایک بہت بڑا مالیاتی ادارہ بن چکا ہے۔ کراچی کے ساہل سے لے کر پاک گلگت بلتستان اور کشمیر کی وادیوں تک اس کی شاخیں پھیلی ہوئی ہیں۔ یہ ادارہ آج چودہ ہزار خاندانوں کا ذریعہ روزگار بن چکا ہے، اور کروڈوں لوگ مستفید ہورہے ہیں۔

جب بھی ملک میں کوئی قدرتی آفات آجائے تو یہی ادارہ متاثرین تک فوری خوراک پہنچاتاہے۔ اس ادارے نے ان سینتالیس سالوں میں بہت سارے اتار چڑھاؤ دیکھا، مشرف کے دور حکومت میں یہ اپنے عروج کو پہنچا تھا۔ اس کے بعد والی حکومتیں اس ادارے کے لئے اچھی ثابت نہیں ہوئیں۔ سابقہ حکومت نے اس ادارے کو تباہی کے دھانے پر پہنچایا۔ آج یہ فلاحی ادارہ اپنے آخری سانسیں لے رہا ہے، اس کے ورکرز اپنے ادارے اور اپنی روزی کو بچانے کے لئے حکام سے فریادیں کررہے ہیں۔ لکین حکومت اس قومی فلاحی ادارے کو بچانے میں سنجیدہ نظر نہیں آرہی ہے۔

سابقہ حکومت جب سبسیڈی کا اعلان کرتی تو ادارے کو مہنگے داموں خریدی گئی چینی عوام کو سستی کر کے بھیچنا پڑتاتھا اور وہ خسارہ سبسیڈی کے پیسوں سے پورا کیا جاتا تھا۔ لیکن سابقہ حکومت نے اپنا اعلان کردہ سبسیڈی کے پیسے ادارے کو نہیں دیے جس کی وجہ سے ادارہ کمپنیوں کے بقایہ جات ادا نہیں کرسکا، حالات یہاں تک آپہنچے کہ کمپنیوں نے یوٹیلٹی سٹورز کو چینی اور دیگر اشیائے خوردونوش کی سپلائی دینا بند کردیا، جس کی وجہ سے سیل میں کمی آئی اور ادارہ خسارے کی طرف چلا گیا۔ اس وقت وفاقی حکومت نے یوٹیلٹی سٹورز کے تیس ارب روپے دینے ہے۔ یہ پیسہ یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن نے پہلے ہی سبسیڈی کی مد میں عوام کو دیا ہے۔

عام آدمی یہ سمجھتا ہے کہ یہ ادارہ سرکاری خزانے پر بوجھ ہے حقیقت اس کے بلکل اس کے برعکس ہے، حکومت سالانہ دو ارب روپے کی سبسیڈی دیتی ہے جو اس ادارے کے ذریعے عوام تک پہنچایا جاتا ہے، جبکہ یوٹیلٹی سٹور اس سے زیادہ ٹیکس دیتا ہے۔ یہ ادارہ سرکاری خزانے پر ہر گز بوجھ نہیں ہے، بلکہ اس ادارے نے ٹیکس کی مد میں اربوں روپے سرکاری خزانے میں جمع کردیا ہے۔

کارپوریشن کا خسارہ اس وقت بڑھنے لگا جب اس میں سیاسی مداخلت حد سے بڑھ گئی، سابقہ حکومت کو پورے پاکستان میں ایک شخص نہیں ملا جو اس ادارے کو چلاتا، اگر ملا بھی تو ان کو کام کرنے نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں درجنوں منیجنگ ڈائریکٹرز کو تبدیل کردیا، رہی کسر سکریٹری صنعت وپیداوار نے پرچیزنگ پر پابندی عائد کر کے پوری کردی۔

پرچیزنگ اس ادارے کے لئے آگسیجن کی حشیت رکھتا ہے، اس وقت ادارہ بغیر اگسیجن کے تڑپ رہا ہے اور حکمران اس کی موت کا انتظار کررہے ہیں۔ اگر کسی کو یہ خوش فہمی ہے کہ اگسیجن بند کرنے کے بعد کسی کو ٹیھک کیا جا سکتا ہے تو یہ ان کی بھول ہوگی۔ جتنی جلدی ہو سکے پرچیزنگ پر عائد پابندی کو ختم کر کے پرچیزنگ کا حکم دیا جائے تاکہ ادارے کی سانسیں بحال ہوسکے۔ جب سانس بحال ہوگی تو دیگر بیماریوں کا علاج ممکن ہوگا۔

اس ادارے کی سب سے اچھی بات یہ ہے کہ یہاں اربوں کی خرید و فروخت ہونے کے باوجود کوئی قابل ذکر کرپشن سامنے نہیں آئی۔ یہ بہت ہی خوش آئند بات ہے ورنہ دوسرے کارپوریشنز میں اربوں کے سکینڈل سامنے آگئے ہیں۔ اس وقت ادارے کے چودہ ہزار ملازمین میں سخت بے چینی پائی جاتی ہے، احتجاج اور دھرنوں کی باتیں ہورہی ہے اگر ایسا ہوا تو نئی حکومت کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ملک کے تمام سٹورز خالی پڑے ہیں اور خسارہ روز بروز بڑھ رہا ہے۔ ابھی بھی اس قومی فلاحی ادارے کو بچایا جاسکتا ہے۔

حکومت یوٹیلٹی سٹورز کے سابقہ بقایہ جات ادا کریں، ایم ڈی کی تعیناتی کم از کم تین سالوں تک کے مدت کے لئے کردیا جائے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو یوٹیلٹی سٹورز کارپوریشن کے ساتھ ملایا جاسکتا ہے۔ بینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو سالانہ سو ارب روپے سے زیادہ رقم دی جاتی ہے، وہ لوگ جو اس پروگرام کے ذریعے پیسے نقد پیسے وصول کررہےہیں ان کو پیسوں کے بجائے یوٹیلٹی سٹورز سے اشیائے خوردونوش دیا جاسکتا ہے۔

ان تمام لوگوں کو اپنے قریبی یوٹیلٹی سٹور میں رجسٹرڈ کر کے ان کو اے ٹی ایم ترس کا ڈیبٹ کارڈ دیا جا سکتا ہے جس کے ذریعے وہ خریداری کریں اس سےعوام کو بھی فائدہ ہوگا اور یہ سو ارب روپے بھی قومی ادارے میں واپس آئیں گے۔ اگر یہ طریقہ کار کامیاب رہا تو ملک میں مزید سینکڑوں سٹور کھولے جاسکتے ہیں اور روزگار کے مواقع بھی پیدا کی جاسکتی ہیں۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ یہ ادارہ سبسیڈی کے بغیر بھی چل سکتا ہے بشرطکہ اس ادارے کے بقایہ جات ادا کرکے اس کو دوبارہ بحال کریں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).