بیوی؟ بلی اور اسلامی نظریاتی کونسل


\"Zamanصاحبو قصہ اس دیہاتی کا سنا؟ جسے بلیوں سے شدید الرجی تھی۔ بلی کے نام سے یوں بدکتا جیسے آجکل رینجرز کے نام سے کچھ لوگوں کے کان اور رونگٹے کھڑے ہونے لگتے ہیں۔ جہاں کہیں بلی ذات دکھائی دی لٹھ لے کے مارنے کو دوڑتا۔ بسا اوقات تو بلی کا نام تک لینے والے پر دانت کچکچانے لگتا۔ البتہ وہ بلیوں کا فضول میں بیری ہرگز نہ تھا۔ اس ذات نے اسے نفرت کا سامان خود مہیا کررکھا تھا۔ مثلا دن بھر کا تھکا ماندہ رات کو سونے کے لیے بستر پر دراز ہوتا تو کھُلتا کہ کوئی بدذات بلی بستر پر جنگل پانی کا فرض چکا گئی ہے۔ اب شب بھر اس کے نتھنوں میں ہنگامی کیفیت رہے گی۔ ایک آدھ بلی کھلے برتن میں ایسے منہ ڈال گئی جیسے چند منہ پھٹ اینکر خواتین و حضرات دوسروں کے معاملات میں غیرضروری طور پر منہ ڈالتے اور اک بیہودہ سنجیدگی کے ساتھ تفتیش فرماتے ہیں۔ ایک ناہنجار بلی تو پتیلے سے اکثر اوقات اس کے حصے کے دودھ پر ہاتھ بلکہ منہ صاف کر جاتی۔ دیہاتی گالیوں اور جو کچھ ہاتھ لگے لے کر اس کی خبر لینے کو دوڑتا مگر بلی تو بلی ہوتی ہے۔ دیہاتی کو ٹھینگا دکھا، یہ جا وہ جا۔ دیہاتی بارہا اپنی بیوی کے سامنے بلیوں سے اپنی چڑ کا اظہار کرتا کہ انہی مشترکہ عادات اور خصلتوں کی بنا پر اسے بلیوں اور سیاستدانوں سے یکساں نفرت ہے۔ دونوں بے حد ملائم اور آواز میں عجز بھرے دکھیں گے۔ اپنے تیز نوکیلے پنجے اور اندرونی خباثتیں اپنی ملائمت اور مسکینی میں نہاں رکھیں گے۔موقع میسر آنے پر پنجہ بھی ماریں گے خوخیائیں گے بھی اور بھرپور خداداد خباثت کا مظاہرہ کرنے سے ہرگز نہ چوکیں گے۔ دوسروں کے مال پر لٹو رہیں گے،بلکہ حق جانیں گے۔

بیوی نے بارہا سمجھایا بجھایا کہ جانے دو، بے زبان ہے، اللہ عزیز رکھتا ہے۔ مارنا تو عذاب الٰہی کو خط لکھ کر دعوت دینا ہوا۔ لہٰذا جیسے میں تمہیں برداشت کرچکی تم بھی اللہ پر چھوڑ دو۔

نزدیکی مسجد کے مولوی کو بھنک پڑی تو اپنا ہتھیار یعنی اسپیکر کھول کے بیٹھ رہا اور بلیوں سے ناروا سلوک کرنے والوں کو جہنم کی کھلی دھمکیاں دے ڈالیں۔ دیہاتی نے یہ منظرنامہ دیکھا تو فورًا حلوہ اور کھیس وغیرہ لے کر مولوی کی خدمت میں حاضر ہوا۔گوڈے گِٹے چومے۔ اور مولوی کو بپتا سنائی۔ آخر میں عرض کیا کہ بلیوں نے جس قدر ناک میں دم کر رکھا ہے۔ انہیں راہ راست پر رکھنے کے لیے مناسب اقدامات ناگزیر ہیں۔ ان کی دیکھا دیکھی ہمارے بچے بھی ہاتھوں سے پھسلتے جارہے ہیں۔ ہلکی پھلکی مالش ہوتی رہے گی تو ڈسپلن میں رہیں گے۔ دوسروں کو عبرت وغیرہ بھی میسر آئے گی۔ مولوی نے حلوہ اور کھیس کی وصولی کے بعد عذاب الٰہی میں تھوڑی ترمیم کردی۔ اور بولا کہ بلی کو مارنا ناقابلِ معافی فعل ہے۔ تاہم بہت ہی کوئی مجبوری آن پڑے تو روئی کے گالے سے بڑھ کے بلی کے کچھ مارا تو گناہ تمہاری گردن پر ہوگا۔ میں ہرگزبیچ میں نہ آؤں گا۔ البتہ گالم گلوچ میں مضائقہ نہیں۔

دیہاتی نے موٹے سےڈنڈے پر روئی لپیٹی اور تاک میں بیٹھ رہا۔جونہی بلی نے دودھ میں منہ ڈالا دیہاتی نے دھنک کر رکھ دیا۔

صاحبو اسلامی نظریاتی کونسل نے سفارشات کیا پیش کیں۔\” مرد\” حضرات مارے خوشی کے پھولے جا رہے ہیں۔ یقیناً اس سےبعض فارغ البال مردوں کو مردانگی کے درست استعمال کے ذریعہ اصلاح احوال کا موقع میسر آئے گا۔ ہاتھ بھی سیدھے ہوجائیں گے۔ کام کا کام ثواب کا ثواب۔ یوں بھی امر بالمعروف کے تابع ہیں۔ رگوں میں ترکوں تیموروں کا خون ٹھاٹھیں مار رہا ہے۔چودہ سو برس سے پیشہ و مشغلہ سپہ گری کے علاوہ کچھ نہیں رہا۔ اب طاغوتی قوموں پر تو چاند ماری بوجوہ ممکن نہ رہی ہے۔ ماضی کی طاغوتی طاقتیں بھلی تھیں۔ زیر ہو جانے میں ذرا تامل نہ کرتیں۔ مگر آج کے اغیار تو آنکھیں دکھانے لگتے ہیں۔

پہلے پہل ہاتھا پائی گولی لاٹھی وغیرہ بھی چل چلا جاتی تھی۔اب وہ سہولت بھی مفقود ہوتی جاتی ہے۔ بعض مرد حضرات آل اولاد کو صراط مستقیم کے طرف رہنمائی کی غرض سے دستِ ناحق کا استعمال کرلیا کرتے تھے مگر بچے تو بچے ہوتا ہیں جلد بڑے ہو جاتے ہیں۔ مرد حضرات کا اظہار مردانگی تشنہ رہ جاتا ہے۔ ایسے میں صرف عورت ہی عطیہ خداوندی ہے جس سے ہلکی پھلکی مار پیٹ سے اصلاح احوال اور مردانگی دونوں کا معاملہ صاف ہو جاتا ہے۔ بعض مشائخ سے ہم نے اس بابت جاننا چاہا تو کُھلا کہ عورت کے لیے مار پیٹ ازحد ضروری ہے۔ اگر مناسب وقت پر \” ہلکی پھلکی\” ٹیوننگ ہوتی رہے تو عورت میں خودسری نہیں آتی۔ وہ گھر اور آپے سے باہر بھی نہیں ہوتی۔ بصورت دیگر ہتھ چھٹ ہوجاتی ہیں اور ملالہ،نرگس مالواوالہ اور شرمین کی طرح ملک و قوم کی عزت پر بٹا لگا دیتی ہیں۔ ان کے سروں اور کمروں پر موزوں دستِ طالبانی کا سایہ ہوتا تو آج یہ آبرومندانہ طریقے سے مولانا عبدالعزیز وغیرہ کے شانہ بشانہ \” نفرتِ امت\” کے بجائے کثرت امت کا باعث بن رہی ہوتیں۔

ایک صاحب کہ اپنی شعلہ بیانی،توند اور تعدد ازواج کے مؤجب قریب قریب مولانا ہوچکے ہیں، تحفظ عورت بل پر خاصے شاکی اور مشکوکی تھے۔ ہم پر پھٹ پڑے۔ ماروی سرمد کے ایک ٹاک شو کا حوالہ دے کر ایسے معاشرے اور میڈیا پر لعنت بھیجی جس میں عورت بےلگام اور مرد بے بس ہو۔ فرمایا کہ عورت پر \” نظر\” رکھنا ضروری ہے۔ بخدا ایسی ایسی بےمہار خواتین دکھائی دیتی ہیں کہ نیت میں خلل وارد ہوتا ہے۔\” مار نہیں پیار\” کا فارمولہ تو سراسر پڑوسی کی بیوی سے متعلق اختراع کیا گیا تھا۔ حکومت ہمیں پہ لاگو کرنے کو تُلی ہوئی ہے۔ ہم نے دریافت کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے عورت کو بھی کوئی حق یا سہولت عطا کی یا انہیں یہود و نصارٰی کی صف میں ہی رکھا جائے گا۔ متعجب بولے \”کیوں نہیں میاں، عورت کو اپنی مرضی سے مار کھانے کا حق حاصل ہوگا۔ اور کس \”آلۂ زد و کوب\” سے اور کتنی مار کھانی ہے اس کا فیصلہ بھی بذریعہ واویلہ وہ کرسکتی ہے۔ ویسے اگر عورت کو مارپیٹ پر قدغن لگانے کا یونہی چلن رہا تو وہ وقت دور نہیں جب عورت غیرت کھانے لگے گی۔ نتیجتاً مردوں کے کشتوں کے پشتے لگ جائیں گے۔

حکومت گر یونہی مغرب زدگی کی تمام حدیں پار کرتی رہی تو بہت جلد مغرب کی کھوکھلی تہذیب جملہ قباحتوں کے جلو میں آ سلام کرے گی۔ اس عالم میں مولانا فضل الرحمٰن کی توند سہلانے کو جی چاہتا ہے کہ مردوں کے حقوق کے تحفظ کا بیڑہ اٹھایا۔ یعنی مرد حضرات مردوں کے خلاف تحریک چلائیں گے کہ ہمیں عورتوں سے مارپیٹ کا لائسنس لے کر دیا جائے۔

رانا ثنااللہ جو ماڈل ٹاؤن جیسے واقعات کو بھی \”ہلکا پھلکا\” لیتے ہیں، نے وضاحت چاہی ہے کہ ہلکا پھلکا تشدد سے کیا مراد ہے؟

ہم عرض گذار ہیں کہ تشدد ہوتا ہے،یا نہیں ہوتا۔ ہلکا پھلکا ہو یا تگڑا توانا، تشدد کو تشدد ہی کہیں گے۔ لہٰذا اگر اسلامی نظریاتی کونسل روئی کے گالے کو بھی ہلکا پھلکا کے زمرے میں لے تو بھی ہشیار باش۔

سوال۔

اگر نظریاتی کونسل کے کسی مرد کی عورت کو اس سے کسی قسم کی شکایت پیدا ہوجائے تو آپ خاتون کی سہولت کے پیش نظر اسےکونسا ہلکا پھلکا آپشن تجویز کریں گے؟

۔

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments