انجمن چرسیان پاکستان کا چیئرمین سینیٹ کے نام احتجاجی مراسلہ


محترم چیئرمین سینیٹ،
یوں تو ہم سیاست میں حصہ لیتے ہیں اور نہ ہی سماج کی سرگرمیوں میں۔ ہم احتجاج کرتے ہیں نہ مظاہرے۔ ہمیں تو کبھی کسی سے کوئی شکایت بھی نہیں ہوتی، ہم چرسی برادری شاید معاشرے کا سب سے مظلوم طبقہ ہیں۔ مگر پھر بھی کبھی آواز نہیں اٹھاتے۔ چرس کی قیمتوں میں دن رات ہوشربا اضافہ ہورہا ہے۔ دستیابی بھی ایک چیلنج ہے۔ معیار تو اتنا گر گیا ہے کہ پوچھیے ہی مت۔ ان سب کے باوجود ہم نے کبھی طوفان برپا نہیں کیا کہ حکومتی معاملات میں رکاوٹ بننا کوئی اچھی بات نہیں۔

ہال ہی میں محترم سینیٹر مشاہداللہ نے سینیٹ میں خطاب کے دوارن ہماری برادری کو تنقید کا نشانہ بنایا اور طنزیہ جملے ادا کرکے مسکراتے رہے۔ موصوف کا کہنا ہے کہ چرسی صرف دو ہی کام کرتا ہے۔ ایک جو چیز اس کے ہاتھ لگے وہ بیچ دیتا ہے اور دوسرا یہ کہ وہ بھیک مانگتا ہے۔ جناب یہ بیان انسانی تاریخ میں کسی بھی سینیٹر کی طرف سے غیر ذمہ داری کی نظیر ہے۔ اسلم چرسی تو اس بیان پر بہت غصے میں ہے۔ کہہ رہا ہے معاشرے میں ہر چیز کو محض سیاہ و سفید کے پیرائے میں دیکھا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔

آغا نے سینیر چرسیوں کو بریفنگ دی ہے کہ اس بیان کے ذریعے حکومت کی چوری چکاری، کرپشن اور غلط فیصلوں کا بوجھ ہم چرسیوں ہر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لہذا ضروری سمجھا لکھ کر وضاحت کردی جائے۔ یوں تو سب چرسی چور ہوتے ہیں نہ ہی بھکاری۔ تمام سیاستدانوں کے بارے میں یہ تاثر مگر ضرور تقویت پکڑ رہا ہے جو کہ خطرناک ہے۔ جناب چرسی اگر کچھ چرا بھی لے گا تو گاڑی کے شیشے، پہیے کے کور، کسی گٹر کا ڈھکن، کوئی بیکار کباڑ۔ زیادہ سے زیادہ دس یا بیس روپے اور بس! حضور یہاں تو مہنگی ترین گاڑیاں، بھینسیں، سرکاری زمین، ترقیاتی منصوبے، فارن پالیسی، خبریں، ضمیر اور نہ جانے کیا کیا برائے فروخت ہے۔

چچا امجد کہہ رہے تھے یار یہ بھینس بیچنے کا خیال تو آج تک آیا ہی نہیں۔ ایسا کرنے والے ہم چرسیوں سے کئی زیادہ تخلیقی ذہن رکھتے ہیں۔ دوسرا نقطہ بھیک مانگنا تھا۔ جس میں خاصے مبالغے سے کام لیا گیا۔ چرسی حضرات کو بھیک میں زیادہ سے زیادہ رقم دس یا بیس روپے مل پاتی ہے۔ ایسے میں موازنہ ان سے کیسے کیا جا سکتا ہے جو ہر دو تین ماہ بعد اربوں روپے امریکا یا چین جیسے ممالک سے مانگ لیتے ہیں اور پھر ڈکار بھی جاتے ہیں۔ جناب ہم آپکو اس مراسلے کے ذریعے یقین دلاتے ہیں۔ ہمارے پاس رجسٹر تمام تر چرسی نہ صرف صادق و امین ہیں بلکہ اپنے تمام تر اثاثے بھی اس ہی مملکت خداداد میں رکھتے ہیں۔ اور تو اور ایک بھی چرسی ایسا نہیں جو بینکوں کا نادہندہ ہو پھر قرض معاف کرانا تو دور کی بات ہے۔ ہماری ہی تنظیم میں ایسے باغیرت افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے اپنے گھر، گھروں کی عزتیں، جوانیاں تو نیلام کردیں مگر کبھی قرض معاف نہیں کروایا۔

جناب محترم سینیٹر کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر ملک بھر کے چرسیوں میں نہ صرف تشویش پائی جاتی ہے بلکہ شدید غم و غصہ بھی اپنی جگہ موجود ہے۔ ہم اس مراسلے کے ذریعے مطالبہ کرتے ہیں کہ اس بیان کو نہ صرف کارروائی سے حذف کیا جائے بلکہ سینیٹر صاحب سے معافی بھی منگوائی جائے۔ ہم محسوس کررہے ہیں کہ پارلیمنٹ میں ہماری نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ لہذا ہمیں تعداد کے مطابق پارلیمنٹ کی مخصوص نشستوں پر نمائندگی دی جائے۔

چرس کی قیمتوں میں کمی کرکے معیاری چرس میسر کروائی جائے۔ سرکاری افسران کو چرسیوں کے حقوق سلب کرنے سے روکاجائے۔ آپکو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ ہم نے انجمن چرسیان پاکستان کا اجلاس آئندہ ماہ اسلام آباد میں طلب کرلیا ہے۔ مطالبات پورے نہ ہونے پر صورتحال کا جائزہ لے کر آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔ حالات ایسے ہی رہے تو اگلی بار مراسلہ لکھنے کے بجائے۔ اسلام آباد کی طرف مارچ کیا جائے گا۔ امید کرتا ہوں حالات اس نہج پر نہیں پہنچیں گے۔
ایک محب وطن چرسی،
محسن شہباز


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).