پاکستانی کرکٹ کا جنازہ


سچن ٹنڈولکر کو گاڈ آف کرکٹ کا خطاب دیا گیا، اس بات سے قطع نظر اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اس صدی کا سب سے بڑا کرکٹر تھا۔ ٹنڈولکر کی اک اور خوبی یہ بھی تھی کہ وہ تنازعات لڑائی جھگڑے الزام تراشیوں سے بچ کے اک ڈیسنٹ دور گزار کر گیا۔

کچھ عرصہ قبل اس کی زندگی پر اک ڈاکومینٹری طرز کی فلم ریلیز ہوئی تھی، اس میں اس نے شاید پہلی بار کسی کرکٹر کی پروفیشنلزم پر تنقید کی، اس کے نزدیک جب یہ کرکٹر بھارتی کرکٹ ٹیم کا کوچ تھا تو اس کی وجہ سے بھارتی ٹیم ورلڈ کپ ہاری تھی، اس کوچ کا نام تھا گریگ چیپل۔

ٹنڈولکر کے مطابق ضرورت سے زیادہ سخت، حد سے زیادہ پراعتماد، اور نفسیاتی عارضے کی حد تک نرگسیت کا شکار گریگ چیپل ٹیم کے لیے مفید کیا ہوتا الٹا نقصان دہ ثابت ہوا۔
اب اسی گریگ چیپل کا نیو ورژن مکی آرتھر پاکستان کرکٹ ٹیم کا کوچ ہے۔ مکی آرتھر بھی اپنی سخت طبیعت اور نرگسیت کی بدولت مشہور ہے پاکستان کرکٹ ٹیم کا اک سنہرا دور گزرا ہے۔ ہمارے بچپن یعنی نوے کی دہائی میں جب وقار یونس، وسیم اکرم، سعید انور، اعجاز احمد، ثقلین مشتاق، معین خان، مشتاق احمد، سلیم ملک، راشد لطیف، انضمام الحق پھر شاہد آفریدی، اظہر محمود، شعیب اختر، عبدالرزاق ٹیم کا حصہ تھے تو میچ فکسنگ، جوئے اور دیگر تنازعات کے باوجود میچ دیکھنا اک مکمل تفریح ہوا کرتا تھا۔ ہماری ٹیم اس وقت دنیا بھر میں اک مقام رکھتی تھی۔

پاکستان جیسے ملک جہاں تفریح کے نام پر سینما، موویز، پارکس، لائبریری، دیگر ایوینٹس میوزک کنسرٹ، میلے ٹھیلے کہیں شدت پسند مولویوں کی مہربانی سے، اور کہیں حکومتی نا اہلی کی وجہ سے چند بڑے شہروں کے علاوہ ناپید ہیں۔ وہاں لے دے کر پاکستانیوں کی واحد تفریح کرکٹ میچز تھے۔ ہماری قوم لاکھ اختلافات کے باوجود کرکٹ کی جیت کو مل کر سیلیبریٹ کرتی تھی۔ کیا سندھ، کیا پنجاب، کیا بلوچستان، کراچی تا خیبر کرکٹ کی جیت ملک کی جیت سمجھی جاتی تھی۔

نئی صدی کی شروعات سے دو ہزار سات ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کی جیت تک جیسے تیسے کرکٹ ٹیم کبھی ہار کبھی جیت کر قوم کی توقعات پر پورا اترتی آئی، دو ہزار آٹھ میں سری لنکن ٹیم کے حملے سے جو زوال شروع ہوا وہ میچ فکسنگ سکینڈل، پھر کرکٹ بورڈ کو سونے کی چڑیا، سیاسی مداخلت اور نام نہاد آزاد میڈیا کے مسترد شدہ کھلاڑیوں کہ ریشہ دوانیوں سے ہوتا ہوا اب مایوسی کی حدوں کو چھو رہا ہے۔

یہ نہیں کہ پاکستان میں ٹیلنٹ کی کمی ہے، گلی گلی میں ٹنڈولکر اور آفریدی ملیں گے، لیکن افسوس اس ٹیلنٹ کو پالش کر کے اک سپورٹس مین بنانے میں ریاستی مشینری فیل ہو چکی ہے۔ شاہد آفریدی بلا شبہ پاکستان کا فخر اور ہمارے ہیرو ہیں، مگر شاہد خان آفریدی کو جس طرح گلیمرائز کیا گیا اس کے نتیجے میں پاکستانی نوجوان بیٹسمینوں میں مستقل مزاجی کا عنصر غائب ہو گیا۔ ہر بال پر چھکا مارنے کے جنون نے جہاں عمر اکمل احمد شہزاد جیسے غیر مستقل مزاج ٹیلنٹڈ مگر بگڑے نوجوان دیے، وہاں بورڈ کے رویے نے اس بحران کو اک درجہ اور اوپر پہنچا دیا۔ کھلاڑیوں کی تربیت کرنے کی بجائے میڈیا پر بیٹھے بد بختوں کی بلیک میلنگ، پرچی کلچر اور کھلاڑیوں پر لٹکتی ڈراپ ہونے کی تلوار نے پاکستان کرکٹ کا بیڑا غرق کر دیا۔ اب حالات یہ ہیں کہ بنگلہ دیش، آئر لینڈ، زمبابوے حتیٰ کہ افغانستان جیسی ٹیموں سے میچ جیتنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہو چکا ہے۔

میں پاکستانی قوم سے واحد تفریح چھن جانے پر پرسہ پیش کرتا ہوں۔ سابق کپتان عمران خان جن کی وجہ شہرت کرکٹ ہے، جس نے اس ملک کو ورلڈ کپ جیت کر دینے والی ٹیم کی قیادت کی، جس کی کرکٹ پر پکڑ کو اک دنیا تسلیم کرتی ہے، وہ اب اس ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے دور حکومت میں بھی اگر مجھ جیسا اک عام شائق کرکٹ ان کو کرکٹ ٹیم کی حالت زار پر نوحہ پڑھ کر سنائے تو اسے تاریخ کا جبر ہی کہا جا سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو پاکستانی کرکٹ کے متعلق سنجیدگی سے فیصلے لینے کی ضرورت ہے۔

قبل اس کہ پاکستانی کرکٹ کا باقاعدہ جنازہ نکل جائے، مکی آرتھر جیسے متنازعہ کوچ کی چھٹی کرائی جائے، اظہر محمود جیسے ایوریج باؤلنگ کوچ کو بھی شکریے کے ساتھ گھر بھیجنے کا وقت آ گیا ہے، چیف سلیکٹر کو مکمل با اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ ٹیم کی کاؤنسلنگ کی جائے، انہیں ڈراپ ہونے کے خوف سے نجات دلائی جائے، کپتان کو جواب دہ کیا جائے، میڈیا پر بیٹھے بدبختوں کی زبان پر لگام لگائی جائے، کمرشلائز ہو چکے معروف ناموں اور اوسط درجے کے کھلاڑیوں کی بجائے کسی سنجیدہ مخلص اور ماہر کرکٹر کو ٹیم کا کوچ مقرر کیا جائے، خصوصاً فیلڈنگ کے شعبے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے اور کرکٹ کو سیاست سے یکسر پاک کیا جائے، تاکہ پاکستانی قوم کرکٹ میچ کا سن کر نا امیدی اور مایوسی کے اظہار کی بجائے اسی جنوں اسی شوق کا مظاہرہ کرے جو ہمارے بچپن کی سنہری یادوں کا حصہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).