انسانی تماشا: ولیم سرویان کے ناول کا اردو ترجمہ


شفیق الرحمٰن مزاح نگار کی حیثیت سے مجھے بہت پسند ہیں، لیکن انھیں دل سے چاہنے کی ایک وجہ امریکا سے تعلق رکھنے والے نامور فکشن نگار ولیم سرویاں(81 19۔ 1908)کے ناول، ” ہیومن کامیڈی ‘‘کا ان کے قلم سے ہونے والا ترجمہ ہے۔ میرے لیے یہ کتاب ایسی کتابوں میں شامل ہے جن کی طرف بقول ولیم فاکنر بندہ اس طرح رجوع کرتا ہے جیسے کوئی پرانے دوستوں کی طرف رجوع کرے۔

انسانی تماشا ‘‘پہلی دفعہ 1956میں مکتبہ جدید لاہور نے شائع کیا۔ اس ناول کی کہانی اور اس کا تخلیقی ترجمہ دونوں ہی اپنی جگہ بے مثال ہیں۔ شفیق الرحمٰن جس نتھرے ستھرے اسلوب میں طبع زاد لکھتے ہیں، اسی میں انھوں نے ترجمہ کیا ہے۔ ایسا شاندار اور خوبصورت ترجمہ کتاب سے لگاوٹ کے بغیر نہیں ہوسکتا۔ محمد خالد اختر ” انسانی تماشا ‘‘ کو اردو میں ہونے والے چند ایک عمدہ ترجموں میں شمار کرتے ہیں۔ انھی سے معلوم ہوتا ہے کہ قلمی سفر کا آغاز شفیق الرحمٰن نے ترجمے سے کیا تھا۔

” میرے والد صاحب کی کتابوں میں واشنگٹن ارونگ کی انگریزی کتاب ” الحمرا کی داستانیں ‘‘کی ایک جلد نکل آئی۔ اسے میں نے شفیق کو دے دیا اور وہ چھٹیوں کے بعد اسے اپنے ساتھ بہاول نگر لے گیا۔ اس نے اس میں سے دو تین کہانیوں کے آزاد ترجمے کیے۔ میرا خیال ہے وہ ” عصمت ‘‘ میں چھپے۔ وہ بڑے خوب صورت ترجمے تھے۔ شوخ اور شگفتہ اور بے تکلف۔ ‘‘

” انسانی تماشا ‘‘ کے کردار خیرکے سفیر ہیں، ان کی نیک خوئی انھیں دوسروں سے بھلائی پر آمادہ رکھتی ہے۔ مرکزی کردار چودہ برس کا ہومر میکالے ہے، جس کا باپ مرچکا ہے۔ بڑا بھائی مارکس فوج میں ہے۔ بہن بیس میکالے کالج میں پڑھتی ہے۔ چھوٹا بھائی الی سسس چار برس کا ہے۔ گھر میں عسرت کا ڈیرا ہے۔ والدہ مسز بیتھیو میکالے چھوٹے موٹے کام کرتی ہے جس سے ہونے والی یافت سے گھرکا چولہا جلتا ہے۔ گھرکی تنگی ترشی دور کرنے کے لیے ہومر تار گھر میں ہرکارے کی نوکری کرتا ہے۔ سکول سے سیدھا تارگھر پہنچتا ہے۔ وہاں اسے بڑا اچھا ماحول ملتا ہے۔ تار گھر کا مینجر سپنگلر اچھی عادت کا ہے۔ گرم وسرد چشیدہ۔ نیک طینت۔ ناول کے ابتدائی حصے میں ایک ضرورت مند نوجوان والدہ سے تیس ڈالر منگانے کے لیے تار بھیجنے آیا ہے۔ سپنگلر یہ جان کر کہ لڑکے کا ہاتھ تنگ ہے اسے اپنے پلے سے پیسے دیتا ہے اور کہتا ہے کہ جب والدہ پیسے بھیج دیں تو لوٹا دے۔ تار کا خرچہ بھی اٹھاتا ہے۔

ناول میں آگے چل کر یہی نوجوان ڈاکو بن کر تار گھر آتا ہے اور مہربان مینجر پر پستول تان لیتا ہے، وہ ساری رقم اس کے سامنے ڈھیر کرکے اسے بتاتا ہے کہ یہ رقم وہ اسے یوں بھی دے دیتا، کسی خوف کی بنا پر نہیں بلکہ اس واسطے کہ وہ ضرورت مند ہے۔ اسے کہتا ہے کہ رقم لے کر گھر کو سدھارو، یہ میری طرف سے اپنی والدہ کو تحفتاً پیش کر دینا۔ سپنگلر کے رویے سے نوجوان نرم پڑ گیا۔ درد بھری داستان اسے سنائی۔ وہ خود کو قسمت کا ہیٹا جانتا تھا۔ سارے جگ سے بیزار۔ اب جو اسے ناصح مشفق ملا تو اس کی کایا کلپ ہوگئی، انسانیت پر اس کا اعتماد بحال ہوا اور اس نے خود کو یہ کہنے پر مجبور پایا :

” اپنے گھر سے ہزاروں میل دور آج مجھے اچانک ایک مہذب انسان ملا ہے۔ مدتوں میرے ذہن میں کشمکش رہی کہ کہیں ایسا انسان بھی ہوگا؟ اگر وہ مجھے مل گیا تو میں انسانیت پر ایمان لے آؤں گا۔ مجھے آپ سے کچھ نہیں چاہیے۔ آپ نے سب کچھ مجھے دے دیا ہے۔ اب میں گھر جاکر صحیح زندگی بسر کرنے کی کوشش کروں گا۔ ‘‘

ہومر کو تار گھر کے ہرکارے کا کام اس لیے خوش آتا ہے کہ اس میں طرح طرح کے آدمیوں سے ملنے اور نت نئی جگہیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ ہفتے بعد جو پندرہ ڈالر اسے ملتے ہیں، وہ والدہ کی ہتھیلی پر رکھ دیتا ہے۔ یہ نیک خاتون گھر میں لہر بہر نہ ہونے کے باوجود غریبوں کی اعانت کرنا چاہتی ہے۔ چار برس کا متجسس الی سس ماں سے پوچھتا ہے :
” غریب کون ہوتے ہیں۔ ‘‘
” ہر ایک غریب ہے۔ ‘‘

”بیٹے، دوسروں کی مدد ہمارا فرض ہے۔ اپنی توفیق سے زیادہ دوسروں کو دینا چاہیے۔ اس نیک کام میں فضول خرچی بھی جائز ہے، جو شخص تمھاری زندگی میں آئے اس کی مدد کرو، کوئی تمھیں دھوکہ نہیں دے گا۔ ‘‘
ماں بیٹے سے یہ بھی کہتی ہے:
” یاد رکھنا کوئی اچھی چیز کبھی فنا نہیں ہوتی۔ اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں انسان نہ رہتے۔ زندگی نابود ہوچکی ہوتی۔ مگر دنیا میں آبادی بھی ہے اور زندگی بھی۔ ‘‘

یہ ناول اس زمانے کی کہانی بیان کرتا ہے جب دوسری جنگ عظیم ہو رہی تھی، امریکی قوم کے جوان محاذ پر لڑ رہے تھے، جن میں ہومر کا بڑا بھائی بھی شامل تھا۔ ہرکارے کے طور پر اس کے لیے سب سے جذباتی اور نازک صورت حال اس وقت پیدا ہوتی جب اسے کسی کے یہاں مرگ کی خبر کا تار لے کر جانا پڑتا۔ ناول میں دو دفعہ وہ اس صورت سے دوچار ہوا۔ دونوں بار اسے منحوس خبر ماؤں کودینی پڑی، جسے سن کر ان کے کلیجے شق ہوگئے۔

پہلی خاتون نے جب ہومر کو دیکھا تو اسے دھچکا لگا کیونکہ جن لوگوں کے یہاں تار نہ آتے ہوں ہرکارے کی آمد پر ان کے ہاتھ پاؤں پھول جاتے ہیں۔ ہومر منحوس تار لے کر گیا کہ یہ اس کا فرض تھا لیکن دل سے اسے اچھا نہیں لگ رہا کہ ماں کو بیٹے کی موت کی خبر دے۔ ستم بالائے ستم یہ کہ خاتون انگریزی پڑھنے سے قاصر، اس لیے تار کا متن بھی اسے پڑھ کر سنانا ہے۔

مسز سینڈول پوچھتی ہے:
” تار کس نے بھیجا ہے؟ میرے لڑکے جوآن ڈومنگو نے؟

وہ جس تار کو بیٹے کی طرف سے سمجھ رہی ہے، اس میں بیٹے کی موت کی خبر ہے۔
ہومر کہتا ہے کہ
” جی نہیں، شعبۂ جنگ سے آیا ہے۔ ‘‘
شعبۂ جنگ سے؟ ‘‘

” مسزسینڈول آپ کا لڑکا مر گیا۔ شاید یہ خبر غلط ہو۔ ایسی غلطیاں اکثر ہوتی رہتی ہیں۔ شاید یہ خبر آپ کے لڑکے کے متعلق نہ ہو۔ کوئی اور مارا گیا ہو۔ تار میں یہ لکھا ہے کہ جوآن ڈومنگو جنگ میں کام آگیا۔ لیکن یہ تار غلط بھی ہو سکتا ہے۔ ‘‘

ہومر خبر بھی سنا رہا ہے اور ساتھ میں لڑکے کی ماں کو طفل تسلی بھی دے رہا ہے اور اس کے زندہ ہونے کا امکان قطعی طور پر رد نہیں کر رہا۔ یہ خبر سنانا بڑے حوصلہ کی بات تھی۔ وہ اس کا غم بٹانا چاہتا تھا اور عورت اب اسے اپنا بیٹا سمجھ کا لاڈ اٹھا رہی تھی لیکن غم نے یوں غلط نہ ہونا تھا، ادھر ہومر کا دل پسیج گیا، وہ سائیکل پر روانہ ہوا تو اس کی آنکھوں سے آنسو رواں اور ہونٹ لرز رہے تھے۔ اس نے زندگی میں کسی کو اس قدر دل شکستہ نہ دیکھا تھا۔ خاتون اسے اپنے بیٹے کے روپ میں دیکھتی رہی اور اس کی نگاہ التفات سے ہومر کو بھی لگا کہ وہ اس کا بیٹا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2