جماعت احمدیہ، چوہدری ظفراللہ خان اورباؤنڈری کمیشن میں گورداسپور کی بحث


اگلے دن یعنی 26 جولائی 1947 کو جسٹس تیجا سنگھ کے ایک سوال کے جواب میں شیخ بشیر احمد صاحب نے احمدیوں کو مسلمان ہی باور کرایا۔

‘جسٹس تیجا سنگھ: جماعت احمدیہ کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے؟
شیخ بشیر احمد: وہ اول و آخر مسلمان ہونے کے مدعی ہیں۔ وہ اسلام کا حصہ ہیں۔ یہ ایک معروف حقیقت ہے کہ جماعت احمدیہ کا اصل مقصد اسلام کی اشاعت ہے۔’
(The Partition of Punjab 1947, Volume 2, Page 250, 1983 Edition)

اس ساری بحث سے کھل کر ثابت ہوا کہ جماعت احمدیہ قادیان نے مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہی قادیان، بٹالہ اور گورداسپور کو مسلم اکثریتی علاقے ثابت کیا اور پاکستان کے ساتھ شامل ہونے کی درخواست کی۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بٹالہ مسلم لیگ نے جو میمورینڈم باؤنڈری کمیشن میں جمع کرایا تھا اس میں بھی احمدیوں کو مسلمان ہی لکھا تھا۔ ‘قادیان کی اہمیت’ کے عنوان سے بٹالہ مسلم لیگ کے محضر نامے میں لکھا ہے۔

‘اگر مذہبی مقامات اور مزارات کو زیر غور لانا ہے تو قادیان کا قصبہ جو بٹالہ صدر پولیس سٹیشن کی حدود میں ہے خاص توجہ چاہتا ہے۔ مسلمانوں میں سے احمدی مرحوم مرزا غلام احمد کو نبی مانتے ہیں۔ یہ نبی یہاں پیدا ہوئے، پلے بڑھے، یہاں ہی زندگی گزاری، وفات پائی اور یہاں دفن ہوئے۔ قادیان احمدی عقیدے کی شروعات کی جگہ ہے۔ (احمدیت) یہاں بڑھی اور پھیلی اور یہاں مٹی کا ہر ذرہ اس کی تاریخ کے ساتھ منسلک ہے۔ اور قادیانوں نے پاکستان کے حق میں غیر مبہم انداز سے فیصلہ دیا ہے۔’
(The Partition of Punjab 1947, Volume 1, Page 472, 1983 Edition)

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ کانگریس کے وکیل سیتل واڈ نے بھی اپنی بحث کے دوران قادیان کو مسلم اکثریتی علاقہ ہی بتایاتھا۔

‘اب اگلے نقطے پر آئیں جو بٹالہ ہے، اس میں تین سفید حصے دیکھیں گے۔ میں آپ کواس تحصیل کے اعدادوشمار دیتا ہوں۔ مسلمان 209,277 اور غیر مسلم 177,776 ۔ 31,501 کی اکثریت ہے اور یہاں میں نے تین پاکٹس کو علیحدہ لیا ہے۔ پہلی (پاکٹ) فتح گڑھ چوڑیاں ہے جہاں مسلمان 18,055 اور غیر مسلم 4,641 ہیں۔ دوسری بٹالہ کا شہر اور مضافاتی گاؤں ہیں جہاں مسلمان 45,181 اور غیر مسلم 14,664 ہیں۔ تیسرا حصہ قادیان ہے جہاں مسلمان 10,226 اور غیر مسلم 1,135 ہیں۔ اگر ہم تینوں کو اکٹھا لے لیں تو مسلمانوں کی مجموعی تعداد 73,462 ہے اور غیر مسلموں کی 22,227 ہے۔
(The Partition of Punjab 1947, Volume 2, Page 528, 1983 Edition)

ہمارے اس طویل مضمون سے یہ بات اب روز روشن کی طرح ثابت کو چکی ہے کہ یار لوگ جو الزامات سر چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب پر اور جماعت احمدیہ پر گورداسپور کے حوالے سے لگاتے ہیں وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہیں اور ان میں رتی بھر بھی حقیقت نہیں ہے۔گورداسپور آبادی کی اکثریت کی بناء پر نہیں بلکہ بددیانتی کر کے ‘دوسرے امور’ کی بناء پر بھارت کے ساتھ شامل کیا گیا تھا کیونکہ آبادی کے لحاظ سے یہ ہر لحاظ سے مسلمان اکثریتی علاقہ تھا اور اسے پاکستان کے ساتھ شامل ہونا چاہئے تھا۔ اس غیر منصفانہ تقسیم کا بیج وائسرائے نے باؤنڈری کمیشن کی کاروائی شروع ہونے سے پہلے ہی بو دیا تھا۔ وائسرائے سے ایک پریس کانفرنس میں سوال ہوا کہ۔

‘آپ نے اپنی کل کی نشری تقریر میں یہ کہا تھا کہ تقسیم شدہ صوبوں کی آخری حد بندی یقینی طور پر اس کے عین مطابق نہیں ہوگی جو عارضی طور پر اختیار کی گئی ہے۔ کیوں؟’

اس کے جواب میں وائسرائے نے کہا کہ۔

‘اس سادہ سی وجہ سے کہ گورداسپور میں مسلمانوں اور غیر مسلموں کی آبادی میں تناسب 50.4% اور 49.6% ہے، فرق 0.8% کا ہے۔ آپ خود دیکھ لیں کہ اس کا امکان نہیں کہ کمیشن تمام ضلع کو مسلمانوں کی اکثریت والے علاقے میں شامل کر دے۔ اسی طرح سے بنگال کے ایک ضلع میں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ ان اضلاع کے باشندے یہ فرض کر لیں کہ یہ طے شدہ امر ہے کہ ان کو ایسے علاقوں میں شامل کیا جا رہا ہے جن میں ان کی قوم کی اکثریت نہیں ہے۔’ (سول اینڈ ملٹری گزٹ 5 جون 1947)

ریڈ کلف ایوارڈ ایک انتہائی غیر منصفانہ تقسیم تھی جس میں ریڈ کلف نے کانگریس اور سکھوں کو فائدہ دینے کے لئے مسلمانوں کے کئی اکثریتی علاقے بھی بھارت میں شامل کر دئے۔ قائداعظم نے بھی اس کو غیرمنصفانہ ، ناقابل فہم اور غلط ایوارڈ قرار دیا، مگر معلوم نہیں ہمارے دانشواران کیوں کانگریس اور احراری مولویوں کی گود میں بیٹھ کر ریڈکلف کو الزام دینے کی بجائے غلط سمت میں چل دوڑتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4