حقائق اور نظریات بھی بھلا قید کیے جا سکتے ہیں؟


عوامی سیاست کرنا تو وطن عزیز میں روز اول ہی سے گناہ کبیرہ کی فہرست میں شمار کیا جاتا تھا لیکن اب معروضی حقائق پر مبنی صحافت بھی گناہ کبیرہ کی اس فہرست میں شامل کر دی گئی ہے۔ خلیل میاں جیسے صحافیوں اور پیرا شوٹ ٹی وی اینکرز کو جھوٹ کی فاختائیں اڑانے کی مکمل آزادی حاصل ہے جبکہ صحافت کے بینادی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حقائق رپورٹ کرنا یا لکھنا صریحا غداری کے زمرے میں آ چکا ہے۔ نواز شریف کے چند ماہ قبل دہشت گردوں کا پاکستانی سرزمین استعمال کر کے ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا بیان سیرل المیڈا کو دیے گئے انٹرویو کے توسط سے دنیا بھر کے میڈیا تک پہنچا تھا۔

اس بیان کی پاداش میں نواز شریف جو کہ پہلے سے ایسٹیبلیشمنٹ کے زیر عتاب ہیں ان پر لاہور ہائی کورٹ میں آئین کے آرٹیکل چھ کی رو سے غداری کا مقدمہ قائم ہونا ہرگز بھی اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ لیکن صحافت کی ذمہ داری کو نبھاتے ہوئے نواز شریف سے اس انٹرویو کو کرنے پر سیرل المیڈا کا نام بھی اس مقدمہ میں شامل ہونا اور پھر سیرل المیڈا کی غیر حاضری کے باعث لاہور ہائی کورٹ سے ناقابل ضمانت وارنٹ جاری ہو جانا اس امر کی غمازی ہے کہ اب صحافت اور صحافیوں کو ”سبق“ سکھانے کا آغاز ہو چکا ہے۔ سیرل المیڈا اور نواز شریف کو لاہور ہائی کورٹ نے 8 اکتوبر کو عدالت کے روبرو پیش ہونے کے احکامات جاری کیے ہیں۔

حیرت انگیز طور پر اپنی کتاب دی سپائی کرانیکل کے ذریعے ممبئی حملوں سے متعلق زیادہ بڑے انکشافات کرنے والے جنرل ریٹائرڈ اسد درانی نہ تو کسی عدالتی کاروائی کی زد میں آئے اور نہ ہی ان کی حب الوطنی کو کسی ”محب وطن“ صحافی، دانشور یا عوام نے مشکوک ٹھہرایا۔ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو آئین دو بار معطل کرنے کے باوجود کسی عدالت نے بیرون ملک سے وطن واپس لا کر انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرنے کا نہیں سوچا۔

آرٹیکل چھ یعنی ریاست سے غداری کا اطلاق ان افراد پر ہوتا ہے جو آئین کو معطل کرتے ہیں یا وطن عزیز کے دستور کو ماننے سے انکار کرتے ہیں۔ لیکن ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے اور آرٹیکل چھ کی زد میں صرف عوامی نمائندے آتے ہیں یا پھر وہ صحافی اور لکھاری جو آئین و قانون کی بالادستی کو مقدم جانتے ہوئے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر عوام تک حقائق کی رسائی کو ممکن بناتے ہیں۔ ایک اصل صحافی پیراشوٹ ٹی وی اینکرز یا قصیدے لکھنے والے قلم فروشوں کے برعکس جس قدر خوف کے سائے اور دباؤ تلے اپنی زندگی بسر کرتا ہے اس کا اندازہ لگانا عام آدمی کے بس کی بات نہیں ہے۔

ان دھمکیوں اور مختلف قوتوں کی جانب سے ڈالے گئے دباؤ کو برداشت کر کےاور ایڈیٹوریل بورڈ یا ٹی وی چینل کے سیٹھ سے بحث و تکرار کے بعد جب حقائق کو عوام تک پہنچایا جائے تو پھر اس کے بعد ملک دشمنی اور غداری کے فتووں اور پراپیگینڈے کو بھی سہنا پڑتا ہے۔ دیدہ اور نادیدہ قوتوں سے تو خیر سچ کی تلاش کے متقاضی صحافیوں اور لکھاریوں کو ہمیشہ ہی نبرد آزما ہونا پڑتا ہے لیکن اب عدالتوں اور قانون کے آرٹیکل چھ کی تلواروں کو بھی ان کے اوپر تان دیا گیا ہے۔

ویسے تو ہمارے صحافی اور لکھاری طبقے میں زیادہ تر تعداد ان پبلک ریلیشن آفیسرز کی ہے جو صحافت اور قلم کا شعبہ اختیار ہی تعلقات عامہ کو بڑھانے اور اس کے نتیجے میں مختلف فوائد حاصل کرنے کے لئے کرتے ہیں لیکن جو چند سرپھرے صحافی و لکھاری پراپیگینڈے کی دبیز تہہ تلے دبے حقائق کو کھوج کر حالات و واقعات کے دوسرے رخ کو پیش کرنے کی جرات کرتے ہیں ان کے لئے اس بنیادی صحافتی ذمہ داری کی ادائیگی کے نتیجے میں آرٹیکل چھ کا اطلاق ایک نئی دھونس اور دھمکی تو ہو سکتا ہے لیکن انہیں ان کے فرض سے روکنے کے لئے نہ تو یہ کارگر ثابت ہو سکتا ہے اور نہ ہی حقائق تک رسائی میں یہ کوئی رخنہ ڈال سکتا ہے۔ البتہ آرٹیکل چھ کے تحت صحافیوں اور عوامی نمائندوں پر غداری کے مقدمے قائم کرنے سے وطن عزیز کی جگ ہنسائی کا سامان ضرور پیدا ہو گا اور جونہی اس مقدمے کا آغاز ہو گا تو دنیا بھر کی صحافتی تنظیمیں، آزادی اظہار کا دفاع کرنے والی این جی اوز اور جمہوری بالادستی پر یقین رکھنے والے وطن عزیز کے باشندے اس کے خلاف آواز اٹھائیں گے۔

یعنی پاکستان ایک بار پھر آزادی اظہار پر قدغنوں اور کنٹرولڈ جمہوریت کے حوالے سے بین الاقوامی خبروں کی زینت بنے گا اور پھر ہمارے مقتدر حلقے دہائیاں دیتے پھریں گے کہ دیکھیے ساری دنیا ہمارے خلاف سازشوں میں مصروف ہے اور ہمیں کبھی شدت پسند ریاست اور کبھی انسانی حقوق کو پامال کرنے والی ریاست قرار دیتی ہے۔ حب الوطنی کے پراپیگینڈے کا شکار، قومی نرگسیت کے مرض میں مبتلا اور اپنے اپنے سیاسی بتوں یا آمریت کے بتوں کی پوجا کرنے والا ہجوم آنکھیں بند کر کے اس پراپیگینڈے پر یقین کر لے گا کہ دنیا ہماری نرگسیت پسندی، اسلاف پرستی اور بنیادی انسانی و آئینی حقوق پر قدغنیں لگانے کی عادات سے خائف ہو کر ہم سے حسد کرتے ہوئے وطن عزیز کا استحصال کرتی ہے کہ مبادا ان عادات کے نتیجے میں کہیں ہم دنیا بھر پر قبضہ ہی نہ جما بیٹھیں۔

وطن عزیز میں پراپیگینڈہ پھیلا کر اور قصیدہ گوئی کر کے پذیرائی حاصل کرنا کس قدر آسان کام ہے اس کا اندازہ ٹی وی سکرینوں پر بیٹھے ان حضرات کو دیکھ کر ہو جاتا ہے جو کل تک موٹر سائیکلوں پر گھوما پھرتے تھے اور آج قصیدہ گوئی کے باعث ذاتی جہازوں کے مالک ہیں۔ جبکہ حقائق پر مبنی صحافت کرنا کس قدر مشکل کام ہے اس کا ثبوت گزشتہ برس احمد نورانی پر قاتلانہ حملے کا ہونا اور اب سیرل المیڈا پر حقائق پر مبنی صحافت کرنے کے کارن آرٹیکل چھ کے مقدمے کی سماعت سے باآسانی ہو جانا چایے۔ اسی طرح عوامی نمائندوں کی تذلیل کر کے انہیں غدار ثابت کرنا کتنا آسان کام ہے اس کا اندازہ نواز شریف کو عدالتوں میں پیشیاں بھگتتے دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے جبکہ اس وطن میں جو قوتیں اصل اختیارات کی مالک ہیں ان کا احتساب کرنا کس قدر مشکل ہے اس کا اندازہ پرویز مشرف یا ایک معمولی سے مہرے راؤ انوار کو آزاد فضاوں میں گھومتے دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے۔

راؤ انوار نے مبینہ طور پر 450 بندے مارے لیکن ہمارا قانونی نظام اسے سلاخوں کے پیچھے بھیجنے کے بجائے تحفظ فراہم کرتا رہا۔ پرویز مشرف نے آئین پر شب خون مارا، اکبر بگٹی کے قتل اور لاتعداد پاکستانی باشندوں کو امریکہ کے ہاتھوں بیچتا رہا لیکن کبھی غدار نہ کہلوایا۔ ملک ریاض نے سر عام زمینوں پر قبضے کیے اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کی سب سے بڑی ہاوسنگ سوسائٹی کھڑی کر ڈالی لیکن ہمارا نظام عدل ملک ریاض کو بھی چھونے میں ناکام رہا۔ ریمند ڈیوس کی رہائی سے لے کر ایبٹ آباد آپریشن میں مخبر اور سہولتکار کا کردار ادا کرنے والوں کی حب الوطنی بھی مشکوک نہ ٹھہری البتہ اہل قلم اور اہل سیاست کے لئے ہر گام پر حب الوطنی کی اسناد حاصل کرنا فرض ٹھہرا دیا گیا ہے۔

دراصل جب قدغنوں کی آڑ میں حقائق پر پابندیاں عائد کی جائیں اور جھوٹ کی تشہیر کے لئے پراپیگینڈے کا سہارا لیتے ہوئے حب الوطنی اور مذہب کا کارڈ استعمال کیا جائے تو پھر شور و غل بپا کر کے حقیقتوں پر چھائے سناٹوں کو اپنے سے دور کرنے کی سعی لاحاصل کی جاتی ہے۔ لیکن کیا کیجئے کہ پرورش لوح و قلم کرنے والے بھی دھن کے پکے ہیں جو ہر حال میں حقائق رقم کرتے ہی رہتے ہیں۔ اور عوامی نمائندے بھی مستقل مزاج ہیں جو کبھی مقتل گاہوں کو سجاتے ہیں اور کبھی بازاروں میں پابجولاں گھمائے جاتے ہیں۔ کیا کیجئے کہ کم بخت حقیقی جمہوریت کی نئی سحر اور حقائق و معلومات کے اظہار پر پابندیوں کا مکمل خاتمہ ایسے خواب ہیں کہ جن کو سچ کر دکھانے اہل قلم اور اہل جمہوریت سب کچھ لٹا کر بھی پھر سے انہی سپنوں کو پورا کرنے کی سعی میں لگ جاتے ہیں۔ اب خوابوں اور نظریوں کو بھلا کون قید کر پایا ہے اور دنیا میں کونسی ایسی مقتل گاہ ہے جہاں سچائی یا عوامی بالادستی کے نظریات کو قتل کیا جا سکا ہے۔ ؟ بقول فراز

خواب مرتے نہیں
خواب تو روشنی ہیں نوا ہیں ہوا ہیں
جو کالے پہاڑوں سے رکتے نہیں
ظلم کے دوزخوں سے بھی پھکتے نہیں
روشنی اور نوا اور ہوا کے علم
مقتلوں میں پہنچ کر بھی جھکتے نہیں
خواب تو حرف ہیں
خواب سقراط ہیں
خواب منصور ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).