تھائی لینڈ میں پاکستانی سفیر اور رام سنگھ پہلوان کی کشتی


ایک مرتبہ میں تھائی لینڈ گیا، دیکھا کہ ہمارے سفیر بڑے دل گرفتہ اور پریشان تھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو کہنے لگے بڑا خوفنا ک واقعہ ہوا اس نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ مجھے جو قصہ سنایا گیا وہ سچا بھی تھا اور مزیدار بھی۔ اس واقعہ سے تھوڑا عرصہ پہلے ہی تھائی لینڈ کے شاہ اور ملکہ نے پاکستان کا سرکاری دورہ کیا تھا۔ مقامی اخباروں میں اس دورے کا بڑا چرچا ہوا۔ سفیر نے بتایا کہ اخباروں اور ریڈیو وغیرہ پر کئی ہفتے تک پاکستان کا ڈنکا بجا اور پاکستان کو بہادروں کی سرزمین کے طور پر پیش کیا گیا۔

شاہ کے دورہ پر فلموں وغیرہ میں فوجی دوستوں کی سلامی، صدر کے باڈی گارڈز کے دستہ۔ جنگجو قبائلیوں اور ا ن کے خو نخوار سرداروں اور پھر ان کے تلواروں والے رقص نظر آئے تو تھائی لوگ ہماری جنگجو یا نہ صلاحیتوں سے بڑے ہوئے اور پاکستان کو ایسا ملک تصور کر لیا گیا جس کے ساتھ دشمنی کی بجائے دوستی ہونی چاہیے۔ شاہ اور ملکہ بھی سرکاری پذیرائی پر بڑے خوش ہوئے، وہ لوگ اپنے شاہی خاندان کا بڑا احترام کرتے ہیں اس لئے پاکستان میں ان کے ساتھ حسن سلوک کے باعث وہ اور بھی خوش ہوئے۔

سفیر نے بتایا کہ شاہ کے پاکستان سے واپسی کے کوئی مہینہ بھر بعد مجھ سے رام سنگھ نام کا ایک معروف سکھ پہلوان سنگاپور سے ملنے آیا۔ مجھے بتایا کہ وہ پاکستان کے ضلع منٹگمری کا رہنے والا ہے اور اب بھی پاکستانی کی حیثیت سے سنگاپور میں رہتا ہے۔ اس کی خواہش تھی کہ پاکستان سفیر اس کی اور تھائی لینڈ کے رستم اعظم کی کشتی کروائے۔ سفیر نے سوچا پاکستان کی دھاک بٹھانے کا ایک اور خدا داد موقع مل رہا ہے۔

کشتی مقامی لوگوں کا ہردلعزیز کھیل بھی ہے اور پھر پاکستان کی سرزمین کے بارے میں ان لوگوں میں جو تاثر پیدا ہوا ہے وہ اور پکا ہو جائے گا۔ سکھ اور پٹھان کے درمیان فرق کا کچھ علم ہی نہیں تھا اور نہ ہی انہیں یہ خبر کہ 1947 کے بعد منٹگمری میں کوئی سکھ رہ ہی نہیں گیا۔ سفیر کو لگا کہ یہ بڑا اچھا پنیترہ ہے اور پھر انہوں نے کشتی کے انتظامات شروع کرا دیے۔ لوگوں کو شاہی جوڑے کی پاکستان میں اعلیٰ تواضع کی باتیں یاد تھیں اس لئے کشتی کا بڑا شوق سے انتظار ہونے لگا۔ بنکاک میں بڑا جوش و خروش پیدا ہوا۔ باد شاہ اور ملکہ بھی خصوصی مہمان بننے پر راضی ہو گئے۔ سفارتی نمائندے بھی بڑی تعد اد میں دنگل دیکھنے آئے۔ سٹیڈیم تماشائیوں سے کھچا کھچ بھرا تھا۔ پاکستان سفیر نے میزبان کی حیثیت میں رام سنگھ کا تعارف یہ کہہ کر وایا کہ وہ شہ زوروں کی سرزمین پاکستان سے آیا ہے۔

مقابلہ شروع ہوا اور چشم زدن میں رام سنگھ ڈھیر ہو گیا۔ تھائی پہلوان فتح مند ہوا۔ لوگوں کو یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ بہادروں کی سرزمین سے آنے والا یہ پہلوان کیسے اتنی جلدی چاروں شانے چت ہو گیا۔ لوگوں نے معرکے کی کشتی دیکھنے کے لئے پیسے خرچ کیے تھے۔ بہت پیسہ لگا تھا اور بادشاہ اور ملکہ نے بھی تقریب کو رونق بخشی تھی چنانچہ فیصلہ ہوا کہ رام سنگھ یعنی پاکستان کو ایک اور موقع دیا جائے۔ دوسری با ر مقابلہ شروع ہوا۔ تھائی پہلوان اور رام سنگھ نے ہتھ جوڑی کی اور ایک آدھ داؤ پیچ آزمایا۔ مگر رام سنگھ ایک بار پھر چت ہو گیا۔ کشتی کے خاتمے کا اعلان ہوا اور تھائی لوگوں کے دلوں میں یہ تاثر عام ہوا کہ پاکستان کے بہادروں کی جو دھاک بٹھا ئی گئی تھی وہ تو سراسر غلط تھی۔

سفیر صاحب کا کہنا تھا کہ اس طرح پاکستان کی عزت داغ دار ہوئی اور ان کے بقول ہوا یہ کہ یہ دراصل سازش تھی جو بنکاک میں بھارت کے سفیر نے کی۔ اس سفیر کو اس بات پر بڑی پریشانی تھی کہ تھائی لینڈ میں پاکستان کو بڑی شہرت ملی ہے۔ اس نے رام سنگھ کو سنگاپور سے بلایا اسے سکھایا بڑھایا کہ وہ خود کو پاکستان ظاہر کر کے ہمیں (سفارت خانے) کو بے وقوف بنائے اور ہمارا سفیر اس جال میں پھنس گیا۔ ثبوت یہ بھی ہے کہ رام سنگھ نے پہلوان ہونے کے باوجود نہ کوئی ایک داؤ لگایا نہ ہاتھ دکھایا۔
ائیر مارشل اصغر خان کی کتاب ”یہ باتیں حاکم لوگوں کی“ سے اقتباس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).