جنگ کی تباہی اور امن کی کاغذی کونج


چپن سے لے کر آج تک ہم نے ہمیشہ جنگ کا ذکر، بڑے تفاخر سے سنا ہے۔ ہمارے مطالعہ پاکستان کے نحیف سے استاد، سینہ ٹھوک کر ہمیں بتایا کرتے تھے کہ کس طرح ہم نے پینسٹھ کی جنگ میں، شب خون مارنے والے دشمن کو، ناکوں چنے چبوائے۔ لیکن اکہتر کی جنگ کا احوال سناتے وقت وہ ہمیشہ کنی کتراجایا کرتے تھے۔ ہمارے جیسے کئی بچوں کو آج بھی، سکولوں میں اساتذہ کرام، جب مطالعہ پاکستان کی کتب رٹواتے ہیں، تو جنگ کو اپنی بقاء کی ایک ناگزیر شکل میں، نہایت شاندار طریقے سے پیش کرتے ہیں۔ گویا جنگ نہ ہوئی بچوں کا کوئی کھیل ہوا۔ وہ یہ تو ضرور بتاتے ہیں کہ سرحد کے دونوں اطراف جنگ کے جواز کیا ہیں، جنگ میں آزمائے جانے والے رموز، حربے نیز دشمن پہ دھاک کیسے بٹھائی جاتی ہے؟ شہداء کی گنتی۔ تمغے، میڈل، نشانِ حیدر کے ساتھ، فتح کا جشن کیسے منایا جاتا ہے؟

لیکن یہ کبھی نہیں بتاتے کہ سرحد کے دونوں جانب، غربت، افلاس اور بھوک کے ہاتھوں روز مرنے والوں کا ماتم کیسے کیا جاتا ہے؟ اور کیسے آئے دن دہشت گردی اور انتہا پسندی کا شکار ہونے والے، مظلوموں کے لواحقین کے بین اورنوحے اربابِ اختیار کے کانوں میں پہنچنے سے پہلے ہی بے بسی سے دم توڑ جاتے ہیں۔ سرحد کے دونوں جانب، سر جوڑ کر گفتگو کرنے والے اہلِ دانش ایک دوسرے کو جنگ کی ہولناکی اور سفاکیت دکھانے کی بجائے، جنگ کے جواز تراشنے میں مدد دیتے ہیں۔ انھیں اس بات کی قطعی پرواہ نہیں کہ اُن کے مفلس عوام روز پیٹ بھرنے کے لئے زندگی سے جنگ کرتے ہیں۔

ہماری بے حسی تو دیکھئے! کہ اب بات بات پہ ایک دوسرے کو جنگ کی دھمکیاں دینا، ہمارے لئے روز مرہ اور معمول کی بات ہے۔ ہم نے طے کر لیا ہے کہ ہم اینٹ کا جواب پتھر سے، پتھر کا جواب گولی سے اور گولی کا جواب ایٹم بم سے دیں گے، کیونکہ ایٹم بم بھی اب ہمارے اربابِ اختیار کے لئے محض ایک دھمکی نما کھلونا ہے، جسے وہ اپنے ہر بیان میں سرحد پار داغتے نظر آتے ہیں۔
مجھے امن کو ترستی ننھی بچی ’سداکوساساکی (Sadako Sasaki)‘ کی کہانی یاد آتی ہے، جسے ’ایلینور کوئر (Eleanor Coerr)‘ نے بیان کیا۔

’سداکوساساکی (Sadako Sasaki)‘ اپنے والدین کے ساتھ جاپان کے شہر ہیروشیما میں رہائش پذیر تھی۔ اپنے بہت سے ہم مکتب ساتھیوں کی مانند اُس نے بھی بڑے ہو کر بہت کچھ بننے کے خواب دیکھے تھے۔ 6 اگست 1945 کو جب جاپان کے شہروں پر ایٹم بم داغا گیا، تب اُس جائے قیامت سے دور ہونے کے باوجود، ننھی ’سداکوساساکی‘ ہولناک ایٹم بم کی خطرناک تابکاری شعاعوں کے اثرات سے پھیلنے والے امراض میں سے ایک ’لیوکیمیا(leukemia)‘ نامی مرض سے نہ بچ پائی۔ مرض کی تشخیص ہوتے ہی اس ننھی لڑکی کو ہسپتال داخل کرا دیا گیا۔

ہسپتال میں سارا دن سداکو کاغذ کی کونج (crane) بناتی رہتی۔ جاپان میں زمانہ قدیم سے یہ مانا جاتا ہے کہ اگرکوئی شخص کاغذ کی ایک ہزار کونجیں بنا لے، تو اُس کی جو دعا ہو، وہ پوری ہو جاتی ہے۔ سداکو ساساکی نے اپنی زندگی کی دعا مانگی۔ وہ سارا دن ہسپتال میں کاغذ کی کونجیں بناتی رہتی۔ وہ زندہ رہنا چاہتی تھی تاکہ بڑے ہو کر اپنے جیسے لوگوں کا علاج کر سکے اور دنیا کو جنگ کی ہولناک تباہ کاریوں سے آگاہ کر سکے۔

ننھی سداکوساساکی اپنے جیسے بہت سے معصوم لوگوں کی زندگی کے لئے امن کی پیامبر بننا چاہتی تھی۔ یوں سداکوساساکی نے چودہ مہینے ہسپتال میں اپنے زندہ رہنے کی تگ و دو میں، مسلسل کاغذ کی کونج بناتے گزار دیے۔ آہستہ آہستہ جنگ کے باعث خوراک، اشیائے صرف اور کاغذ کی کمی ہوتی چلی گئی۔ اپنے زندہ رہنے کے جنون میں اُسے جو بھی کاغذ ہاتھ لگتا وہ اُس کی کونج بنا ڈالتی، پھر چاہے وہ دوائیوں کے خالی ڈبے ہوں، چاکلیٹ کی خالی پنیاں ہوں، اُس کے پیاروں کے محبت بھرے پیغاماتی کارڈز ہوں، یا صحت کے منتظر احباب کے تحائف پہ لپٹے کاغذات ہوں، وہ دن رات مستقل کونجیں بناتی رہتی۔ آخر کار بارہ سال کی عمر میں 14 اگست 1955کو، وہ دن بھی آیا جب ننھی ’سداکو ساساکی ‘اپنی زندگی کی جنگ ہار گئی، اگرچہ تب تک وہ کاغذ کی تیرہ سو کونجیں بنا چکی تھی۔

تب سداکو سا ساکی کے ہم مکتب ساتھیوں نے رقم جمع کی، اور سداکو اور اُس کی مانند، ایٹم بم کی تباہیوں کا شکار ہو جانے والے دوسرے معصوم لوگوں کی یاد میں، ایک یادگار بنانے کا ارداہ کیا۔ ہیرو شیما کی یہ امن یادگار 1958 میں مکمل ہوئی، جس پر ننھی سداکو ساساکی کا ایک مجسمہ نصب ہے۔ جس میں وہ سنہر ی کونج اُٹھائے، دنیا کے سامنے امن کی پیامبر بنی کھڑی ہے۔ اس مجسمے کے ساتھ ہی ایک کتبہ آویزاں ہے، جس میں وہ دنیا سے امن کی التجا کرتی دکھائی دیتی ہے:
یہ ہمارا دکھ ہے
یہ ہماری دعا ہے
دنیا میں امن ہو

ایریکا کاگاوا (Erika Kagawa) میری بہت پیاری جاپانی دوست ہے۔ گذشتہ ماہ میرے ہاں قیام کے دوران جب میں نے اُس سے، اِس جاپانی کاغذ کی کونج کی روایت کے بارے میں استفسار کیا تو اُس نے بہت خوشی سے مجھے بتایا کہ آج بھی ہم جاپانی، کاغذ کی کونج ایک دوسرے کو تحفتاً دیتے ہیں اور اسے امن کا پیامبر سمجھتے ہیں، ہم جنگ سے نفرت کرتے ہیں اور اپنے بچوں میں، ابتدا ہی سے صحت، تعلیم اور ٹیکنالوجی کے میدان میں آگے بڑھنے کا جذبہ پیدا کرتے ہیں، ہمارے بڑوں نے ہمیں، ہمیشہ ایک ہی بات سمجھائی ہے اور وہ یہ کہ:
’جنگ دکھ دیتی ہے اور امن خوشیاں لاتا ہے۔ ‘

بات کرتے کرتے اُس نے جھٹ پٹ ایک سبز رنگ کی کاغذ کی کونج بنائی اور بہت محبت سے میری ہتھیلی پر رکھ دی۔ میں جب بھی اس کونج کو دیکھتی ہوں، سوچتی ہوں ہمارے خون میں ایسا کیا ہے کہ ہمیں امن کے سکون سے زیادہ جنگ کی ہولناکی خوشنما دکھائی دیتی ہے۔ کھیل کے میدان سے لے کر تجارتی و سفارتی تعلقات تک، ہر جگہ جنگی جنون ہمارے اعصاب پہ چھایا دکھائی دیتا ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ہمیں بچپن سے ہی کبھی، جنگ سے نفرت کرنی سکھائی ہی نہیں جاتی۔

ہمارے بچوں کا بہترین ہیرو ہمیشہ وہ ہوتا ہے جو اچھی جنگ لڑ سکتا ہے اور جو زیادہ سے زیادہ تباہی کے ذریعے اپنے دشمن کو نیست و نابود کر سکتا ہے۔ کیا کبھی ہم نے اپنی نئی نسل میں اس اشتعال اور عدم برداشت کے رویے کو محسوس کرنے کوشش کی ہے جو آہستہ آہستہ ان کی شخصیت کا حصہ بنتا جا رہا ہے؟ میں سمجھتی ہوں اب ضرورت ہے کہ ہمیں جنگ کے شان و شوکت سے آراستہ اور خوشنما معنی محدود کردینے چاہئیں اور ان کی بھیانک ہولناکی کو اپنے پیاروں پر آشکار کر دینا چاہیے۔ ہمیں ابتداء ہی سے اپنے بچوں کے معصوم اذہان کو جنگ کی خرافات سے پاک کرنے کے لئے، انھیں جنگ کے مضمرات سے آگاہ کرنا ہوگا۔ قبل اِس کے کہ بے رحم وقت انھیں یہ بتائے، ہمیں خود انھیں سمجھاناہوگا کہ:
’جنگ دکھ دیتی ہے اور امن خوشیاں لاتا ہے۔ ‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).