سوشلسٹ انقلاب کا ’فیل گڈ‘ ماڈل اور ایک امیر انقلابی


ایکس ایک امیر آدمی ہے لیکن اس کے باوجود اس کا خیال ہے کہ ملک میں انقلاب آنا چاہیے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار ایکس نے مجھ سے کیا تو میں نے پوچھا کہ اچانک اس انقلاب کی کیا وجہ۔ کہنے لگا کہ میں ایک کمپنی کا سی ای او ہوں، لاکھوں میں تنخواہ ہے، کاروبار خود ہی دوڑ رہا ہے، صبح نو بجے دفتر جاتا ہوں، شام پانچ بجے واپس آ جاتا ہوں، اس کے بعد رات تک فارغ رہ کر خواہ مخواہ وقت ضائع کرتا رہتا ہوں، کبھی دوستوں کے ساتھ کھانے کے لیے چلا جاتا ہوں، کبھی بیوی کو شاپنگ کروانے نکل جاتا ہوں اور کچھ نہ ہو تو رات گئے تک ٹی وی دیکھتا رہتا ہوں۔

میں نے کہا کہ یہ معمولات زندگی تو کسی روسی زار جیسے ہیں، تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ آج کے دور میں ایسی عیاشی کے متحمل ہو سکتے ہو، انقلاب کا خیال کیسے آیا؟ ایکس کہنے لگا یار آج کل جسے دیکھو کسی نہ کسی ’cause‘ کے ساتھ جڑا ہے، کسی نے عورتوں کے حقوق کا جھنڈا اٹھایا ہوا ہے تو کوئی ماحولیات پر آگاہی کی مہم چلا رہا ہے، وہ ایک چھوٹی سی بچی ہے، کیا نام ہے اس کا۔ گیٹا تھن برگ۔ میں نے لقمہ دیا۔ ہاں وہی، اب اسے ہی دیکھ لو، پوری دنیا میں مشہور ہے، وہ بھی صرف باتیں کر کے، اگر اتنی سی بچی یہ کام کر سکتی ہے تو میں کیوں انقلاب برپا کیوں نہیں کر سکتا۔

ایکس کی باتیں سن کر میں نے اسے غور سے دیکھا کہ کیا یہ وہی شخص ہے جو ملک کی ایک بڑی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہے اور اچھا خاصا پڑھا لکھا اور سمجھ دار ہے، مجھے یقین نہیں آیا کہ بظاہر معقول نظر آنے والے اس شخص کو اچانک کیا ہو گیا۔ ایکس نے جیسے میرے خیالات پڑھ لیے، مسکرا کر کہنے لگا کہ شاید تم سمجھ رہے ہو کہ میرا دماغ خراب ہو گیا ہے، ایسا نہیں ہے، میں تمہیں سمجھاتا ہوں، دیکھو بات یہ ہے کہ ہماری کلاس میں سرمایہ داری نظام وغیرہ کے خلاف باتیں کرنا اب فیشن بن چکا ہے، تم نے دیکھا نہیں کہ ایک ملٹی نیشنل کمپنی نے فیض کی نظم ’ہم دیکھیں گے‘ بنائی اور کیسے وہ ہمارے طبقے میں مقبول ہوئی، بس ایسی ہی انقلابی باتیں میں نے بھی کرنی ہیں، تم ویسے بھی لکھنے لکھانے کے شوقین ہو، میرے لیے ایسی باتیں لکھ دیا کرو جنہیں میں ٹویٹ کر سکوں، بس یہ خیال رکھنا کہ یہ ٹویٹس سوشلسٹ قسم کی ہوں، نظام کو آگ لگا دینے والی، فل انقلابی۔

آج سے پہلے میں نے اس کے منہ سے ایسی باتیں نہیں سنی تھیں، مجھے لگا جیسے وہ کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہو۔ میں نے ایکس کو سمجھانے کی کوشش کرتے ہوئے کہا کہ اگر تو تم ’ایکٹیوسٹ‘ بننا چاہتے تو بات سمجھ میں آتی ہے، آج کل اکثر مشہور شخصیات یہ کام کر رہی ہیں، کوئی اداکارہ بچیوں کے ریپ کے خلاف احتجاج کرتی ہے تو کوئی کرکٹر ساحل سمندر پر گند بکھیرنے کے معاملے پر ٹویٹ کرتا ہے، یہاں تک تو ٹھیک ہے مگر تم شاید حقیقی انقلاب لانا چاہتے ہو۔ میری بات سن کر ایکس نے تقریباً زبردستی میرا چوم لیا اور کہنے لگا تم بالکل ٹھیک سمجھے، آج سے میں تمہیں اپنا مشیر خاص مقرر کرتا ہوں، میری تمام تقریریں تم لکھو گے اور میرے سوشل میڈیا کو بھی دیکھو گے۔

اگلے دو دنوں میں ہم نے انقلاب کی حکمت عملی تیار کی اور طے یہ پایا کہ شروعات کسی ٹی وی ٹاک شو سے کی جائے جہاں ایکس کی رونمائی ہو اور وہ اپنا انقلابی ایجنڈا بیان کرے۔ ایکس کا اصرار تھا کہ اسے چوٹی کے کسی اینکر کے روبرو بیٹھنا چاہیے جس میں اور کوئی مہمان نہ ہو مگر میں نے اسے سمجھایا کہ وہ موقع بھی آ جائے گا، فی الحال میں کسی چھوٹے چینل سے بات کرتا ہوں۔ ایکس مان گیا۔ میں نے ایک چینل میں بات کی، انہیں بھی شاید اسی قسم کے بندے کی تلاش تھی سو انہوں نے ایکس کو اپنے شو میں مدعو کر لیا۔

پروگرام میں ایکس کا خاصا تمسخر اڑایا گیا، اینکر نے تو باقاعدہ جگتیں لگائیں کہ آپ ان لوگوں میں سے ہیں جو اپنی ائر کنڈیشنڈ گاڑی سے باہر نہیں نکلتے اور نعرے انقلاب کے لگاتے ہیں، سب سے پہلا انقلاب تو آپ کے خلاف آنا چاہیے، اگر آپ کو پولیس کا ایک ڈنڈا پڑے تو انقلاب کے ہجے بھول جائیں، ذرا بتائیں تو سہی کہ آخری مرتبہ آپ نے کسی غریب سے ہاتھ کب ملایا تھا، وغیرہ۔ پروگرام کے فوراً بعد ایکس نے مجھے فون کیا اور پوری روداد سنائی، میں نے کہا تم فکر نہ کرو، میں نے سب سوچ لیا ہے، فی الحال تم اپنے دفتر سے چھ ماہ کی چھٹی لو، آنے جانے کے لیے چھوٹی نان اے سی گاڑی استعمال کرنا شروع کرو، سوٹ کی جگہ کھدر کے دو شلوار کرتے سلوا لو اور غریبوں کی کسی بستی میں جا کر ان کے ساتھ اپنی ملاقات کی درجن بھر تصاویر مجھے بھجوا دو، میں تمہارے سوشل میڈیا پر انقلاب لے آتا ہوں۔ ایکس نے من و عن وہی کیا جو میں نے کہا تھا۔

اب ہم اپنی کہانی کو ذرا فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں، چھ ماہ گزر چکے ہیں، ایکس چھٹی ختم کر کے دفتر واپس آ چکا ہے، ہم دونوں لنچ کے لیے شہر کے سب سے مہنگے ریستوران میں موجود ہیں اور چھ ماہ پہلے ہونے والی ملاقات کو یاد کر کے قہقہے لگا رہے ہیں۔ ایکس کہہ رہا ہے : ”ان چھ مہینوں میں زندگی نے مجھے بہت کچھ سکھا یا، تمہارے کہنے کے مطابق میں نے اپنے طور طریقے تو بدل لیے مگر یقین کرو کہ دو دن بعد ہی مجھے یوں لگنے لگا جیسے میرا دم گھٹ جائے گا اور میں مر جاؤں گا۔

بغیر اے سی کی گاڑی میں سفر کرنے سے میں پسینے میں شرابور ہو جاتا اور غریبوں سے گلے ملنے سے بیمار پڑ جاتا، سو میں نے تہیہ کیا کہ کسی ان ہائیجینک بندے سے نہیں ملوں گا۔ لیکن پھر میں نے خود پر نظر ڈالی تو پتا چلا کہ مجھ سے زیادہ ان ہائیجینک کوئی نہیں، میں نے فوراً چھوٹی گاڑی سے جان چھڑوائی اور اپنی چار ہزار سی سی کی گاڑی واپس منگوائی۔ کھدر کے کرتے اپنے مالی کو دیے۔ چھوٹی بیٹی میلان سے میرے لیے نئے سوٹ، ٹائیاں اور پرفیوم لائی تھی، میں نے وہ پہننا شروع کیے، یقین کرو مجھے یوں لگا جیسے میں دوبارہ زندہ ہو گیا ہوں۔

حالانکہ انقلاب سے پہلے بھی میں یہ تمام چیزیں استعمال کرتا تھا لیکن ان کی اصل قدر مجھے اب محسوس ہوئی ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ میری یہ ملازمت موجود رہی، اگر میں استعفی ٰ دے کر انقلاب لانے نکل پڑتا تو آج نہ جانے کس حال میں ہوتا۔“

ایکس کی یہ باتیں میرے لیے حیران کن نہیں تھیں، جو بات میرے لیے حیرانی کا باعث بنی وہ یہ تھی کہ ایکس اب بھی انقلاب کا حامی تھی۔ ”کیا تم سیریس ہو؟“ میں نے ایکس سے پوچھا۔ ”بالکل۔“ ایکس نے جواب دیا ”فرق صرف یہ ہے کہ میں اب اس طرح انقلابی باتیں کروں گا جیسے میری کلاس کے باقی لوگ کرتے ہیں۔

یہ انقلاب کا ’feel good‘ ماڈل ہے۔ اس ماڈل میں انقلابی کو چی گویرا کی طرح جنگلوں میں نکل کر گوریلا جنگ نہیں لڑنی پڑتی اور نہ ہی ایک وقت کا کھانا کھا کر دو جوڑوں میں زندگی گزارنی پڑتی ہے بلکہ آپ مہنگی گاڑیوں میں گھوم سکتے ہیں، برینڈڈ کپڑے پہن سکتے ہیں اور ڈیزائنر جوڑے بنوا کر شادیوں میں شرکت کر سکتے ہیں۔ انقلاب کے لیے آپ نے صرف اپنے آرام دہ بستر پر لیٹ کر ٹویٹ کرنی ہے اور وہ بھی کشمیر، کوڑا کرکٹ اور بچیوں کے ریپ جیسے موضوعات پر جن پر بات کرنے کی ممانعت نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی سرخ لکیر عبور کرنی پڑتی ہے، کسی کے مفاد پر پڑتی ہے اور نہ کوئی طاقتور طبقہ یا گروہ ناراض ہوتا ہے۔

ایسا کرنے سے ہمارے جیسے طبقے کے لوگوں کو ایک گونہ طمانیت محسوس ہوتی ہے، they feel good about it، انہیں لگتا ہے کہ وہ محض اس سرمایہ دارانہ کا حصہ نہیں ہیں اور نہ ہی چوہوں کی دوڑ میں شامل ہیں بلکہ وہ با شعور، ذمہ دار اور دبنگ لوگ ہیں، انہیں باقی دولت مندوں کی طرح مردہ ضمیر نہ سمجھا جائے۔ میں اسے feel goodانقلاب کہتا ہوں۔“ میں نے چپ چاپ ایکس کی باتیں سنیں اور دل ہی دل میں اس کی سمجھداری کی داد دی۔ ایکس نے کھانے کا بل ادا کیا اور بل لانے والے ویٹر سے اس کی تنخواہ پوچھی جو لگ بھگ اس بل کے برابر تھی اور ساتھ ہی ٹویٹ کردی کہ میرا دل ان غریبوں کو دیکھ کر خون کے آنسو روتا ہے جو پورا مہینہ دن رات محنت کر کے مشکل سے اتنے پیسے کماتے ہیں جتنے امیر لوگ ایک وقت کے کھانے میں اڑا دیتے ہیں۔ ایک گھنٹے میں سات سو لائکس مل گئے۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments