عمران خان کی پشت پناہ ’’روحانی قوت ‘‘


میرے بھائی سہیل وڑائچ نے اپنے اخبار کے لئے اوپر تلے دوکالم لکھے ہیں جن کے ذریعے چند ٹھوس واقعات کا حوالہ دے کر مجھ جیسے عقل کے غلاموں کو یہ سمجھانے کی کوشش ہوئی کہ عمران خان حکومت کی طاقت کا اصل سرچشمہ ’’روحانی‘‘ ہے۔

ان کے اس دعوے کو جھٹلانے کی مجھ میں جرأت نہیں۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ وڑائچ بذاتِ خود ایک منکسر المزاج شخص ہیں۔ نرم زبان اور بے غرض محبت کرنے والے آدمی۔ ان سے بحث میں الجھنا مجھ جیسے بال کی کھال اتارتے اور اس وجہ سے سٹریل کہلاتے بندے کے لئے ممکن نہیں۔

وڑائچ سے ذاتی محبت کے علاوہ مسئلہ یہ بھی ہے کہ ’’مادی‘‘ اور ’’روحانی‘‘ سرچشموں کے مابین تقابل کے چکر میں پڑگیا تو کئی’’صوفیوں‘‘ کو ناراض کر بیٹھوں گا۔ عقائد کے معاملات پر بحث سے ہمیشہ گریز کیا ہے اور اس ضمن میں اپنی کوتاہی علم کا سہارا لیا۔

پیر کی شام قومی اسمبلی کی پریس گیلری میں بیٹھ کر قائدِ حزب اختلاف جناب شہباز شریف کی عمران حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر کے دئیے ’’منی بجٹ‘‘ پر تقریر سنتے ہوئے لیکن مجھے سہیل وڑائچ کا مذکورہ دعویٰ بہت یاد آیا۔

ہماری تاریخ ایسی داستانوں سے بھری ہوئی ہے جن کے مطابق بابر یا اکبر جیسے مہادلاور تخت یا تختہ والے کسی معرکے پر جانے سے قبل اپنے دور کے کسی جید بابے کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ ان سے روحانی مدد کی درخواست کرتے۔ اکثر یہ دُعا قبول ہوجاتی تھی۔

جنگ کے میدان میں اس کے بعد دشمن کی افواج اچھی خاصی تیاری اور بھاری بھرکم اسلحے کے باوجود ’’اندھی‘‘ ہوئی محسوس ہوتیں۔اپنے تحفظ کے لئے اٹھائی ان کی ہر تدبیر ’’الٹ‘‘ ہوجاتی۔

موجودہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن بھاری بھرکم تعداد میں موجود ہے۔ اس تعداد کا جلوہ انہوں نے وزیر اعظم کے انتخاب کے روز بھرپور انداز میں دکھایا تھا۔اس کے بعد مگر چراغوں میں روشنی گل ہوئی محسوس ہورہی ہے۔

اس کے اراکین پژمردہ چہروں اور احساس شکست سے جھکے کاندھوں کے ساتھ ایوان میں داخل ہوتے ہیں۔انہوں نے چند روز قبل اچھے بچوں کی طرح صدر علوی کی تقریر کو سنا۔ منی بجٹ کے نام پر اسد عمر نے گزشتہ جمعرات جو تقریر کی اسے بھی ان لوگوں نے حیرت زدہ ہوکرسنا۔

چند لوگوں کو قوی امید تھی کہ اسد عمر کی تقریر پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے اٹک سے رحیم یار خان تک پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے دس برس تک وزیر اعلیٰ رہنے والے شہباز شریف تحریک انصاف کے پیش کردہ ’’منی بجٹ‘‘ کے پرخچے اڑادیں گے۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا۔

شہباز صاحب کی تقریر سے تاثر بلکہ یہ ملا کہ اسد عمر کافی ذہین شخص ہیں۔جن حالات میں انہوں نے منی بجٹ تیار کیا ان کی روشنی میں وہی کچھ ممکن تھا جو وزیر خزانہ نے کردکھایا ہے۔ ہاں ایک دو مقامات ہیں جہاں تھوڑی بہت نظرثانی کی ضرورت ہے۔ اسد عمر نے اپنی جوابی تقریر میں اصلاح طلب معاملات کا کھلے دل سے اعتراف کیا اور یہ وعدہ بھی کہ وہ شہباز صاحب کی جانب سے آئی مثبت تجاویز پر عمل پیرا ہونے کی ہر ممکن کوشش کریں گے۔

ایمان داری کی بات یہ بھی ہے کہ شہباز شریف اور اسد عمر کی تقاریر سنتے ہوئے مجھے کئی بار یہ گماں ہوا کہ ان دونوں حضرات کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت سے ہے۔میں قومی اسمبلی میں ہوئی ’’بحث‘‘ کا ناظر نہیں بلکہ تحریک انصاف کے پالیسی ساز اجلاس میں چلاگیا تھا جہاں اس جماعت ہی کے دواراکین سرجوڑ کے انتہائی خلوص کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ نون کے پیش کردہ بجٹ کو تحریک انصاف کی حکومت کی آسانی کی خاطر درست سمت کی جانب رواں کرنے کے لئے اصلاحی طریقے ڈھونڈ رہے ہیں۔

1985سے قومی اسمبلی میں ہوئے واقعات کا ناظر رہا ہوں۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ایسی Understandingجسے مثبت کہا جاتا ہے شاذہی دیکھنے کو ملی۔اسے دیکھنے کے بعددل سے دُعا نکلی کہ ربّ کریم اسد عمر اور شہباز شریف کے درمیان قائم ہوئے اس برادرانہ رشتے کو برقرار رکھے۔ وہ دونوں باہم مل کر ہمیں اس گماں میں مبتلا رکھیں کہ پاکستانی معیشت کے اصل مسائل فقط Filersاور Non Filersکے درمیان تخصیص کی بدولت گھمبیر تر ہوتے چلے گئے ہیں۔

ہمارے معاشی مسائل کا ہماری خارجہ پالیسی سے ہرگز کوئی تعلق نہیں۔ سردجنگ کے دنوں میں ورلڈ بینک اور IMFسے جو رشتے استوار ہوئے وہ CPECمتعارف ہوجانے کے بعد سے بے اثر ہوچکے ہیں۔ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (FATF)نامی کسی تنظیم کا ہمارے روپے کی قدر سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کو معاشی سہارا پہنچانے کے لئے Coalition Support Fundہوا کرتا تھا۔ امریکہ اب اس کھاتے سے ایک ڈالر ادا کرنے کو بھی تیار نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف ہماری جنگ مگر اب بھی جاری ہے۔

اس جنگ کے اخراجات پورا کرنے کے لئے ریاستِ پاکستان کو اپنے خزانے سے رقوم فراہم کرنا ہوں گی۔ ٹیکسوں کے ذریعے مطلوبہ رقم حاصل نہ ہوئی تو سڑکوں پر پلوں کی تعمیر جیسے چند منصوبوں کو ترک نہیں تو مؤخر ضرور کرنا ہوگا۔

دس برس تک پاکستان کے آبادی کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کے Hands On وزیر اعلیٰ مشہور ہوئے شہباز شریف کو مذکورہ بالا تلخ حقائق کا معمولی ادراک بھی ان کی جانب سے ہوئی تقریر میں سننے کو نہیں ملا۔

سہیل وڑائچ نے شاید درست لکھا ہے۔عمران خان کی حکومت کو کسی بہت ہی تگڑے پیر کی روحانی پشت پناہی نصیب ہوچکی ہے۔ قومی اسمبلی میں بیٹھے موجودہ حکومت کے مخالف اس پشت پناہی کے سبب ’’اندھے‘‘ ہوچکے ہیں۔ ان کی زبانیں گنگ ہیں۔ کان بہرے ہوگئے ہیں۔

ایسی اپوزیشن کے ہوتے ہوئے عمران خان صاحب کو پریشان ہونے کی ہرگز ضرورت نہیں۔ شہباز شریف ان کی حکومت کو اپنی آئینی مدت انتہائی پرسکون انداز میں مکمل کرنے کے لئے ہر طرح کی معاونت دل وجان سے فراہم کریں گے۔

عمران خان کی سہولت کی خاطر کسی ایک اپوزیشن رکن نے وقفہ سوالات ختم ہوتے ہی حکمران پارٹی کو پوائنٹ آف آرڈر کے ذریعے برپا کئے شور کی بدولت اس امر پر مجبور نہیں کیا کہ وہ قوم کو یہ سمجھائے کہ بھارت کے وزیر اعظم کو پاک-بھارت مذاکرات کے احیاء کے لئے چٹھی لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی۔

اس چٹھی کو 6دنوں تک پاکستانی عوام سے کیوں چھپایا گیا۔ اس چٹھی کی وصولی کی رسید دلّی سے کیوں آئی۔ وصولی کی رسید کے عین ایک دن بعد بھارت نے رعونت کے ساتھ نیویارک میں پاکستان اور بھارت کے وزرائے خارجہ کے درمیان ’’محض ملاقات‘‘ کے امکان کو بھی کیوں رد کردیا۔

عمران خان کی پشت پناہ ’’روحانی قوت‘‘ کے سبب اپوزیشن نے اس سارے مسئلے کو کرکٹ کی زبان میں Well Leftچھوڑدیا۔ اس حقیقت کو میں جادو ٹونے کی زبان میں معروف ’’نظربندی‘‘کے علاوہ اور کیا کہوں۔ عقل کی غلامی سے آزاد ہوکر مجھے بھی عمران خان کی پشت پناہ ’’روحانی قوت‘‘ کے روبرو اپنا سرنگوں کرنا ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).