یونیورسٹیاں اہم یا بنیادی تعلیم؟


نیا پاکستان کا نعرہ بلند ہوا اور ہماری پوری قوم نہیں تو آدھی نے لبیک کہا کہ چلو اب پرانے پاکستان سے دل اکتا گیا ہے، سو نیا پاکستان کا نعرہ بلند کرنے والوں کا ساتھ دیں۔ خیر یہ بھی اب دھندلا گیا ہے کہ عوام نے تبدیلی کا ساتھ دیا بھی یا نہیں، کیوں کہ ہر طرف سے یہی آواز بلند ہو رہی ہے کہ عام انتخابات میں دھاندلی کے ریکارڈ ٹوٹ گئے۔ یہ بھی کوئی نئی بات نہیں، کیوں کہ اس پہلے کس عام انتخابات میں دھاندلی دھاندلی کی صدا بلند نہیں ہوئی؟

لیکن تبدیلی اور نیا پاکستان بنانے والوں نے حکومت کی باگ ڈور سمبھالتے ہی بڑی بڑی سرکاری عمارتوں جن میں سر فہرست اسلام آباد کا وزیر اعظم ہاؤس ہے، کو ہائی کلاس پوسٹ گریجویٹ یونی ورسٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔ وزیر اعظم عمران خان چاہے وزیر اعظم ہاؤس کے ساتھ سلوک کریں وہ کر لیں حالا نکہ اگر سادگی اپنانی ہی ہے تو اس کے وزیر اعظم ہاؤس کو یونی ورسٹی بنانے کے علاوہ بھی بہت سے طریقے ہیں۔

ابھی وزیر اعظم ہاؤس کو یونیورسٹی بنانے پر بحث جاری تھی کہ وزیر اطلاعات فواد چودھری صاحب نے سوچا کہ شاہراہ دستور پر موجود ریڈیو پاکستان کی عمارت کو بھی کیوں نہ یونی ورسٹی میں بدل دیا جائے۔ اس سلسلے میں ایک خط بھی سوشل میڈیا پر ڈال دیا گیا، جس کے بعد اس بات کی تصدیق کی گئی کہ ریڈیو پاکستان کی عمارت میں ایک میڈیا یونیورسٹی بنائی جائے گی۔ اور ریڈیو کی نشریات کے لئے شہر سے دور ریڈیو اکیڈمی کی چھوٹی عمارت کو استعمال کیا جائے گا۔

مجھے سمجھ نہیں آئی کہ یہ کیسا فیصلہ ہے کہ کہ جس عمارت میں اردو اور انگریزی کے علاوہ تئیس علاقائی زبانوں اور اور بہت سی غیر ملکی زبانوں کی نشریات ہوتی ہیں، جب کہ ایف ایم کی نشریات اس کے علاوہ ہیں، وہاں سے نکال باہر کیا جایے۔ جہاں تک میڈیا یونی ورسٹی کا تعلق ہے تو کیا کسی نے کوئی تحقیق کی کہ اس کیضرورت بھی ہے یا نہیں کہ اس کی ضرورت بھی ہے یا نہیں؟ (حکومت نے آج یہ فیصلہ واپس لینے کا اعلان کر دیا ہے: مدیر)

اس وقت اور آنے والی وقتوں کے لئے بہترین تربیت یافتہ نوجوان موجود ہیں جن کو میڈیا میں روزگار ملنا تو کیا جو بر سر روزگار ہیں ان کی نوکریاں بھی خطرے میں ہیں، بلکہ اب تو بہت سے ٹی وی چیلز اور اخبارات نے صحافیوں اور ٹیکنیشنز کو نکلنا شروع کر دیا ہے۔

جہاں تک اسلام آباد میں میڈیا کی تعلیم کا تعلق ہے تو عرض ہے کہ بہت سی جامعات یہاں میڈیا کی جدید تعلیم پہلے ہی دے رہی ہیں، وہاں سے ہر چھ ماہ بعد دو ڈھائی سو سے زاید بچے ڈگریاں لے کر مارے مارے پھر رہے ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیوں میں صحافت کی تعلیم کے حصول کے لئے طلبہ طالبات کی تعداد مسلسل کم ہو رہی ہے۔

سرکار کے تحت نئی یونیورسٹیاں کھولنے کے بجاے موجودہ پر توجہ دی جائے کیوں کہ یہاں معیار تعلیم، اور تحقیق کا معیار گرتا چلا جا رہا ہے۔ چاہے وہ قائد اعظم یونی ورسٹی ہو یا پنجاب، یا پھر کراچی یونی ورسٹی، وہاں ہڑتالوں، ہنگاموں، اور تالا بندی کا سلسلہ جاری ہے اور آیے دن یونیورسٹیاں بند رہتی ہیں جس سے نہ سرف طلبہ کا تعلیمی نقصان ہوتا ہے بلکہ اب وہاں تو مڈل کلاس گھرانوں کے بچے داخلہ لینے سے گھبراتے ہیں اور نجی تعلیم گاہوں کا رخ کرتے ہیں۔

جہاں تک بنیادی تعلیم اور اس کے معیار کا تعلق ہے تو وہ تباہی کی طرف رواں دواں ہے، گھوسٹ اسکول ہوں یا سکولوں سے ٹیچروں کی عدم دستیابی، یا پھر ٹیچروں کی تربیت صورتحال گمبھیر ہے۔ اور شعبہ تعلیم میں جعلی بھرتیاں کی بھی بھرمار ہے۔

سرکاری سکولوں میں غریب گھرانے کے بچے زیر تعلیم ہوتے ہیں، جو سیاسی طور پر بھرتی ہوے اساتذہ کے رحم کرم پر ہوتے ہیں۔ ۔ پانچویں جماعت تک سکول چھوڑ جانے والے بچوں کو واپس سکولوں میں لانے کے لئے کوئی نظام نہیں، جبکہ کلاس فور یعنی گریڈ چار کے ملامین کی بھرتی ڈسٹرکٹ ایجوکیشن افسر خود سفارش پر کرتا ہے اور سکولوں میں ان سے کام لینے کے بجایے انہیں گھر پر بلا کر ذاتی کام لئے جاتے ہیں، یہ شکایات سرگودھا خوشاب میانوالی اور جنوبی پنجاب کے کے دوسرے شہروں میں عام ہے۔ رشوت ستانی کا یہ عالم ہے کہ بھرتیاں تو ہوتی ہی ہیں پر رشوت خور ریٹایرڈ ٹیچروں کو بھی نہیں چھوڑتے۔

یہی حال سندھ اور بلوچستان کا ہے، وہاں ڈیرہ بگٹی، کوہلو، گوادر پنجگور اور دوسرے علاقوں اور سندھ کہ دور دراز شہروں میں صحت تعلیم اور پینے کے پانی کی سہولتوں کا فقدان ہے۔

نیا پاکستان والے اگر تبدیلی کے لئے حقیقت میں سنجیدہ ہیں تو وہ پہلے بنیادی تعلیم پر اپنی بھرپور توجہ دیں ناکہ دکھاوے کے اعلانات کر کے بس میڈیا کی حد تک فیصلہ سازی کریں، ایسا نہ تو کبھی چلا اور نہ کبھی چلے گا۔

ہمیں دیکھنا ہوگا کہ حکومت سنجیدگی سے اگلے پانچ سالوں میں اگر پی تی آئی کی حکومت رہتی ہے تو وہ صحت اور تعلیم کا بجٹ جی ڈی پی کا چا یا پانچ فیصد کرنے میں کامیاب ہو جاتی ہے یا نہیں، اس کے لئے آئندہ دو ماہ بہت اہم ہیں، جس کے بعد پتہ چل جائے گا کہ حکومت کی ترجیحات کیا ہیں اور کیا وہ اپنی مدت مکلمل کر بھی سکے گا یا نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).