گجرات: گیارہ ایشیائی شیروں کو کس نے مارا؟


Gir lion

گیارہ شیروں کے اتنے کم عرصے میں مارے جانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گیر کے جنگل میں جانوروں کے درمیان کس قدر سخت مقابلہ ہے

انڈیا میں محکمہِ جنگلات کے حکام کا کہنا ہے کہ گذشتہ دو ہفتوں میں مغربی ریاست گجرات میں 11 ایشیائی شیروں کی غیر معمولی ہلاکت کی تفتیش کی جا رہی ہے۔

2008 میں ایشیائی شیروں کو نسل ختم ہونے کے شدید خطرے سے دوچار جانوروں کی فہرست سے نکال کر اُن جانوروں کی فہرست میں شامل کیا گیا تھا جن کی نسل کے ختم ہونے کا قدرے کم خطرہ ہے۔ یہ تبدیلی ریاست کے گیر نامی جنگل میں ان کی آبادی میں تھوڑی سی بہتری آنے پر کیا گیا تھا۔

تاہم گیارہ شیروں کے اتنے کم عرصے میں مارے جانے سے یہ واضح ہوتا ہے کہ گیر کے جنگل میں جانوروں کے درمیان کس قدر سخت مقابلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کا مقبول ترین شیر ہلاک

شیر، ٹائیگر اور کتے کی دوستی کے چرچے

شیر کا بچہ سمگل کرنے والا نوجوان گرفتار

شیروں کو ہوا کیا؟

ابھی تک یہ واضح نہیں ہوا ہے کہ شیر کیسے ہلاک ہوئے تاہم حکام کو شک ہے کہ شیروں کے مختلف گروہ نے آپس میں علاقے پر اجارہ داری کے معاملے پر لڑائی کی جس کے نتیجے میں اتنی ہلاکتیں واقع ہوئی۔

حکام کو کافی حد تک یقین ہے کہ 11 میں سے کم از کم 8 کے ساتھ یہی ہوا ہے۔ ان 11 میں تین چھوٹے شیر بھی تھے۔

محکمہِ جنگلات سے منسلک جی کے سنہا نے صحافیوں کو بتایا کہ دوسرے علاقے سے کم از کم تین شیر اس جنگل میں داخل ہوئے اور انھوں نے چھوٹے شیروں کو مار ڈالا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’شیروں میں یہ قدرت کا نظام ہے۔ باقی تین شیر کیوں مارے گئے، یہ جاننا ابھی باقی ہے۔‘

جنگلی حیات کے ماہر راجن جوشی نے بی بی سی گجراتی سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انھیں شک ہے کہ یہ اموات کینائن ڈسٹمپر وائرس کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔ یہ وائرس گھریلو کتوں میں پایا جاتا ہے۔

تاہم حکام کا کہنا ہے کہ پوسٹ مارٹم میں ایسے وائرس کے شواہد نہیں ملے۔

اس وائرس کی شناخت 20ویں صدی کے شروع میں کی گئی تھی اور اسے ٹازمینیئن ٹائیگر کی نسل کشی کا ذمہ دار ماننا جاتا ہے۔

شیروں میں خاندانوں اور قبیلوں کا کردار انتہائی اہم ہوتا ہے۔ شیروں کے گروہوں میں شیرنیاں اکھٹے رہتی ہیں اور ان کی سربراہی شیر کرتے ہیں۔

شیروں کے درمیان اکثر علاقوں کی ملکیت پر شدید لڑائیاں ہوتی ہیں جن میں شیر اکثر مارے بھی جاتے ہیں۔ رات کے وقت وہ انتہائی تیزی سے اپنے علاقوں میں گھومتے ہیں اور شکار کرتے ہیں۔

گجرات میں شیروں کے شکار میں زیادہ تر ہرن اور گائے بھینس ہوتے ہیں۔

A lion strays in Liliadhar village, 125km from Gir forest

2015 میں ریاست میں ان کی تازہ ترین گنتی میں 22000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 523 شیر پائے گئے جن میں سے 11 کی موت گذشتہ دو ہفتوں میں ہوئی ہے۔

گجرات میں کتنے شیر موجود ہیں؟

ایشائی شیر کبھی انڈیا اور مشرقِ وسطیٰ کے بڑے علاقے میں پائے جاتے تھے۔ آج وہ صرف گجرات تک محدود ہیں۔

2015 میں ریاست میں ان کی تازہ ترین گنتی میں 22000 مربع کلومیٹر کے علاقے میں 523 شیر پائے گئے جن میں سے 11 کی موت گذشتہ دو ہفتوں میں واقع ہوئی ہے۔

ان میں سے کم از کم 200 شیر ان کے لیے محفوظ کیے گئے مخصوص علاقوں سے باہر پائے جاتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ انتہائی محفوظ ’گیر سینکچوئیری‘ میں بھی شیروں کی تعداد کی ایک حد ہے اور یہ تقریباً 300 شیر ہیں۔

1995 میں اس حد تک پہنچنے کے بعد شیر گیر کے جنگل سے باہر آنے لگے۔ اب قریبی فارم ہاؤسز اور دیہات میں وہ اکثر نظر آنے لگے ہیں۔

اپریل اور مئی 2016 میں تین افراد کے مارے جانے کے بعد 18 شیروں کا ایک گروہ پکڑا گیا تھا۔ شیروں کے تحفظ کے حکومتی بجٹ کا بڑا حصہ ان کسانوں کو دیا جاتا ہے جن کے مال مویشی شیر کھا جاتے ہیں۔

Lions in Gir

جنگلی حیاتیات کے ماہر راجن جوشی کو شک ہے کہ یہ اموات کینائن ڈسٹمپر وائرس (جو کہ گھریلو کتوں میں پایا جاتا ہے) کی وجہ سے پیش آئی ہیں۔ تاہم حکام کا کہنا ہے کہ پوسٹ مورٹم میں ایسے وائرس کے شواہد نہیں ملے۔

محکمہِ جنگلات کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ محفوظ علاقوں سے باہر رہنے والے شیروں میں سے زیادہ امرلی اور بھوونگر اضلاع میں رہتے ہیں۔ جون میں حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ان اضلاع کا 109 مربع کلومیٹر علاقہ شیروں کے لیے مختص کر دیا جائے گا۔

2013 میں انڈیا کی سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ گجرات کو اپنے کچھ شیروں کو ہمسایہ ریاست مدھیہ پردیش منتقل کرنا ہوگا تاکہ کسی بیماری یا آفت کی صورت میں ان کی تمام آبادی ختم نہ ہو جائے۔

تاہم شکار کی فراہمی، موسمی حالات اور جنگلات کی موجودگی کے پیشِ نظر اس منتقلی میں تاخیر کی گئی ہے۔

ہلاک ہونے والے 60 فیصد شیر قدرتی وجوہات کی بنا پر مارے گئے۔ ان کی اوسط عمر 15 سے 16 سال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ شیروں کے ڈوب کے مرنے کے واقعات بھی پیش آئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32536 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp