پانی روکنے کو پشتہ کہاں باندھنا ہو گا؟


پاکستان میں پانی کی کمی نہایت ہی تشویشناک ہوتی جا رہی ہے جسے بجا طور پر نہایت ہی اہم قومی ایشو کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ 1951 میں موجودہ پاکستان کی آبادی 3 کروڑ 37 لاکھ تھی۔ فی کس پانی کی مقدار 5260 کیوبک میٹر فی فرد تھی۔ یعنی کل پانی تقریباً ایک کھرب 77 ارب کیوبک میٹر تھا۔ سنہ 2017 میں پانی کم ہو کر محض 908 کیوبک میٹر فی کس رہ گیا۔ آج کے شہری کو 1951 کے شہری کے مقابلے میں چھے گنا کم یعنی صرف 17 فیصد پانی مل رہا ہے۔ پانی کی یہ کمی نہایت تشویشناک ہے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ پانی کی اس خوفناک کمی کی کیا وجوہات ہیں اور فی کس پانی کو کم ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔

اچھا پہلے دیکھتے ہیں کہ اس وقت کل پانی کتنا ہے۔ 908 کیوبک میٹر فی نفر کے حساب سے ہمارے پاس کل ایک کھرب 88 ارب کیوبک میٹر پانی موجود ہے۔ یعنی 1951 کے مقابلے میں ہمارے پاس موجود پانی میں ساڑھے چھے فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور اس کی مقدار 11 ارب کیوبک میٹر بڑھی ہے۔ اب سوچ میں پڑنے کی بات یہ ہے کہ پانی ساڑھے چھے فیصد بڑھنے کے باوجود فی کس پانی میں چھے گنا کمی کیوں ہوئی ہے۔

فی کس پانی کا حساب کیسے لگایا جاتا ہے؟ کل پانی کو کل آبادی سے تقسیم کیا جاتا ہے۔ اب معمولی سا مسئلہ یہ ہے کہ پانی تو ساڑھے چھے فیصد بڑھا ہے لیکن آبادی 6 سو فیصد یعنی چھے گنا بڑھ گئی ہے اور 1951 کے 3 کروڑ 37 لاکھ کے مقابلے میں اب 20 کروڑ ستتر لاکھ ہو چکی ہے۔ اب ہر ذی شعور شخص یہ حساب لگا سکتا ہے کہ پانی کی کمی کی وجہ آبادی کی زیادتی ہے۔

دوسری طرف سابقہ مشرقی پاکستان حالیہ بنگلہ دیش کی آبادی 1951 میں 4 کروڑ 60 لاکھ تھی اور اب 16 کروڑ 50 لاکھ ہے۔ یعنی ہمارے 600 فیصد کے مقابلے میں اس کی آبادی صرف 360 فیصد یعنی ساڑھے تین گنا بڑھی ہے۔

تو صاحبو، پانی کی کمی پر قابو پانا ہے تو پشتہ آبادی کے بے پناہ سیلاب کے آگے باندھنا ہو گا، جو ہماری زمینیں بھی کھا رہا ہے اور پانی بھی پی رہا ہے۔ چھے جولائی 2018 کو دیامیر بھاشا اور مومند ڈیم کا چندہ فنڈ بنا۔ 82 دن گزرنے کے بعد آج اس میں کل 4 ارب 9 کروڑ روپے جمع ہو پائے ہیں۔ یعنی روز کے کوئی پانچ کروڑ روپے جمع ہو رہے ہیں۔ صرف بھاشا ڈیم کی کل لاگت اس وقت 14 ارب ڈالر بتائی جاتی ہے جو آج کے ڈالر ریٹ کے حساب سے تقریباً 17 کھرب 50 ارب روپے بنتی ہے۔ بفرض محال نہ ڈالر کی قیمت نہ بڑھے اور نہ ڈیم کی، تو بھی یہ رقم جمع ہونے میں 35 ہزار دن یعنی تقریباً 96 برس لگیں گے۔ ہماری معیشت کو دیکھتے ہوئے ڈالر کی قیمت میں اضافہ تو ہونا ہی ہونا ہے اور پراجیکٹ کی قیمت بھی دس برس میں دگنی تنگی ہوا کرتی ہی کرتی ہے۔ تو کہیں سے اچھی بیرونی فنڈنگ نہ ملی تو پھر ڈیم کسی معجزے کے ذریعے ہی بنے گا جس کے لیے ہم دعاگو ہیں۔

ڈیم ضرور بنائیں۔ بننے چاہئیں۔ ہم اس مقدس قومی مشن کی بھرپور حمایت کرتے ہیں۔ لیکن اصل معاملہ پانی کم ہونے کا نہیں ہے، آبادی زیادہ ہونے کا ہے۔ ہماری رائے میں ڈیم فنڈ میں جتنے پیسے جمع ہو رہے ہیں ان سے جلدی ڈیم تو بنے گا نہیں، ان پیسوں کا بہتر استعمال کرتے ہوئے پہلے درست مقام پر پشتہ باندھا جائے تو مناسب ہو گا۔ یعنی انہیں پہلے آبادی میں اضافے کے سیلاب کے آگے بند باندھنے کے لئے استعمال کر لیا جائے تاکہ فی کس پانی کی فراہمی میں مسئلہ نہ ہو۔ 17 کھرب میں سے چار ارب نکلنے سے بھلا کیا فرق پڑے گا، لیکن آبادی کے سیلاب کے آگے ان چار ارب روپوں سے ایک بڑا پشتہ باندھا جا سکتا ہے۔ مقتدر حلقوں کو اس پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar