سقراط کی زندگی اور موت


سقراط وہ خوش قسمت ترین انسان ہے جسے فادر آف فلاسفی کہا جاتا ہے یعنی اسے فلسفے کا سب سے بڑا استاد یا باپ کہا جاتا ہے۔ سقراط یعنی Socrates وہ کیا سوالات پوچھ رہا تھا کہ جس کا انسانی تاریخ پر اب بھی بہت بڑا اثر ہے؟ سقراط کہتا ہے کہ وہ انسان جو شک کرتے ہیں جو سوال اٹھاتے ہیں، حقیقت میں وہی انسان ہیں جو اپنے آپ کو سچائی کے راستے پر ڈالتے ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ جب انسان شک کرتا ہے تو پھر وہ سوال کرتا ہے۔ اس سوال کے نتیجے میں جواب ملتا ہے اور پھر اس جواب سے مزید سوال پیدا ہوتے ہیں جو مزید جواب دیتے ہیں۔ اس طرح انسان سچائی کی جدوجہد کے سفر پر چل نکلتا ہے اور کبھی نہ کبھی وہ سچائی کو تلاش کر لیتا ہے۔

سقراط کے مطابق انسان وہ ہے جو مسلسل سچ کی جدوجہد میں سفر جاری رکھے اور اس سفر کے دوران وہ سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھے۔ سقراط کہتا ہے کہ دنیا کے ہر فلاسفر کا بنیادی کام یہ ہے کہ وہ اپنے سماج، تہذیب، روایات اور کلچر پر سوالات اٹھائے؟ سب سے اہم بات یہ ہے کہ پہلے وہ یہ تمام سوالات اپنے آپ سے کرے۔ جب کوئی اپنے آپ سے سوال ہی نہیں کرے گا تو اسے جواب کیسے ملیں گے؟ سقراط کہتا ہے کہ جو میں نہیں جانتا، سوچتا ہی نہیں کہ میں جانتاہوں۔ لہذا اس بارے میں سوال کرتا ہوں۔ سچائی اور گہرائی تک پہنچنے کی پہلی کوشش کا نام ہی یہ ہے کہ سوال کیا جائے۔

سقراط نے اپنے زمانے میں بنیادی اخلاقی اصولوں اور قوانین پر سوالات اٹھائے۔ اس نے اپنے سماج کے نوجوانوں سے سوال کیا کہ اچھائی کیا ہے؟ علم کیا ہے؟ دانائی کیا ہے؟ بہادری کیا ہے؟ انصاف کیا ہے؟ وہ اپنے زمانے کا انتہائی ذہین و فطین انسان تھا۔ لیکن ہمیشہ اپنے بارے میں یہ کہا کرتا تھا کہ میں صرف ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔ جب بھی وہ کسی سے ملتا تھا تو اس طرح بات کرتا تھا کہ جیسے اسے کچھ معلوم نہیں، وہ ہمیشہ دوسرے انسان سے سوال کرکے اس سے اس کا نقطہ نظر پوچھتا تھا، پھر اسی کے نقطہ نظر کے بارے میں سوال کرتا تھا۔ وہ ہمیشہ کہا کرتا تھا کہ وہ تو صرف سوال کرنا ہی جانتا ہے۔

وہ کہتا تھا کہ انسان کے ذہن میں جوخیال ہے وہ اس خیال کو پیدا کرنے میں اور اسے نکھارنے سوارنے میں انسان کی مدد کر سکتا ہے۔ سقراط کے فلسفے کا بنیادی تصور یہ تھا کہ اچھائی صرف علم ہے اور علم حاصل کرنا ہی زندگی کا مقصد ہے۔ علم بزات خود ایک بنیادی اور اچھی چیز ہے۔ وہ کہتا تھا کہ جو زندگی علم حاصل کرنے میں گزاری جائے حقیقی معنوں میں وہی زندگی ہے۔ علم والی زندگی انسان کو خوشی دیتی ہے، اسے سکون اور اطمینان فراہم کرتی ہے۔ اس کا کہناتھا کہ دولت اور شہرت کے پیچھے بھاگنا مصنوعی سرگرمی ہے۔ انسان کی زندگی کا اصل مقصد علم حاصل کرنا ہے۔

سقراط کہتا ہے کہ کوئی بھی انسان جان بوجھ کر برا کام نہیں کرتا۔ انسان برائی کا کام اس لئے سرانجام دیتا ہے کہ وہ علم سے محروم ہے۔ بنیادی طور پر جاہل انسان ہی برائی کا کام کرتا ہے۔ علم انسان کو اچھائی کی طرف لے کر جاتا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ کسی سماج یا ریاست میں برائی نظر آئے تو اس کا حل یہ ہے کہ تمام انسان علم کے راستے پر آجائیں۔ اس کا حل یہ ہے کہ انسان علم حاصل کرنا شروع کردیں۔ سقراط کے مطابق علم سے تمام سماجی برائیاں ختم ہوجاتی ہیں۔

سقراط کے ان سوالات کی وجہ سے قدیم یونان کی شہری ریاست ایتھنز میں نوجوان سوالات اٹھانا شروع ہوگئے تھے۔ سقراط کا اثر و رسوخ بڑھنے لگا تھا۔ سقراط کی ان باتوں کی وجہ سے اس زمانے کی ایتھنزکی سیاست پر بھی اثر پڑ رہا تھا۔ سقراط نے جب اپنے زمانے کے اصولوں، قوانین، مذہب اور رسم و رواج پر سوال اٹھائے اور انہیں غلط کہا تو اس پر اسے سزائے موت سنادی گئی۔ اس پر الزام یہ تھا کہ وہ یونان کے نوجوانوں کو گمراہ کررہا ہے، اس پر الزام یہ تھا کہ وہ یونان کے مذہب پر سوال اٹھا رہا ہے؟ اس پر الزام یہ لگایا گیا کہ وہ یونان کی بنیادی روایات کو چیلنج کررہا ہے؟ ایتھنز کی شہری ریاست کو خطرہ پیدا ہوگیا کہ اگر سقراط کو کھلی چھٹی مل گئی تو وہ نوجوانوں میں انقلاب برپا کردے گا جس سے اشرافیہ اور مذہبی ٹھیکیداروں کی حکومت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔

ریاست کی طرف سے سقراط پر الزام لگایا گیا کہ وہ قدیم یونان کے دیوتاوں کا مخالف ہے اور ان کے خلاف نوجوانوں کو بھڑکاتا ہے جس سے نوجوان دیوی دیوتاوں سے رشتہ توڑ رہے ہیں۔ ریاست کی طرف سے سقراط کو غدار اور کافر قرار دیا گیا اور اس طرح اس کا ٹرائل شروع ہوا۔ اب عدالت لگ چکی تھی۔ چاروں اطراف نوجوان تھے۔ درمیان میں سقراط کھڑا تھا۔ سقراط سے کہا گیا کہ وہ یہ تمام الزامات کو تسلیم کرے اور معافی مانگے۔ سقراط نے معافی مانگنے کی بجائے لوگوں کے سامنے قدیمی یونان کے قوانین، اصولوں، مذہب اور روایات کے خلاف سوالات اٹھانا شروع کردیئے۔ اس پر کورٹ کے جج سقراط پر بھڑک اٹھے۔ فیصلہ سنایا گیا کہ سقراط کو سزائے موت دی جاتی ہے۔ کہا گیا کہ یا تو وہ زہر کا پیالہ پی لے اور مر جائے یا پھر ایتھز کو چھوڑ کر کہیں اور چلا جائے۔

اب وہ جیل میں تھا، چاروں طرف اس کے شاگرد تھے جو رو رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں زہر کا پیالہ پکڑا دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ زہر کا پیالہ پینے سے پہلے اس نے خود اپنے آپ کو نہلایا۔ اس کے بعد جیل میں نہا دھو کر بیٹھ گیا اور آرام سے زہر کا پیالا پی لیا۔ اس طرح اس کا انتقال ہوگیا۔ جب اس سے اس کے شاگردوں نے کہا کہ سقراط کسی اور علاقے میں چلاجائے تو زندگی کے آخری لمحات میں اس کا کہنا تھا کہ سچا فلاسفر وہ ہوتا ہے جو علم سے پیار کرتا ہے اور موت سے خوف زدہ نہیں ہوتا۔ اس نے کہا میرے پیارے شاگردو اگر میں کہیں اور بھی چلا گیا تو وہاں جاکر بھی سوال اٹھاوں گا۔ پھر ریاست مجھے عدالت میں لے جائے گی۔ اور ریاست کی عدالت وہی کرے گی جو اس وقت میرے ساتھ ہوا ہے۔ اس کا کہنا تھا کہ غلط روایات اور اصولوں کے خلاف موت کی قربانی دینا کوئی بڑی قربانی نہیں ہے۔

سقراط کے آخری الفاظ یہ تھے کہ اس قرابنی کے نتیجے میں میری روح میرے جسم سے آزاد ہوجائے گی۔ مجھے امید ہے کہ ایسا کرنے سے یونان کی بیماریاں بھی ختم ہوجائیں گی۔ سقراط دنیا کا وہ واحد فلاسفر ہے جس نے علم کی خاطر جان قربان کردی۔ اس کی اس عظیم قربانی کو انسانی تاریخ میں کبھی بھلایا نہیں جاسکے گا۔ سقراط کو فلاسفی کے پہلے شہید ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments