انڈیا: کشمیر میں انتخابات سے پہلے حالات مزید کشیدہ، سات افراد ہلاک


انڈیا کے زیرانتظام کشمیر میں پنچایتوں اور شہری بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی مسلح تشدد، پابندیوں اور ہلاکتوں کا سلسلہ دوبارہ سے شروع ہو گیا ہے۔

سری نگر کے نور باغ علاقہ میں جمعرات کی صبح تلاشی مہم کے دوران فورسز کے ہاتھوں ایک نوجوان کی ہلاکت پر تمام سیاسی حلقوں نے برہمی کا اظہار کیا ہے جبکہ علیحدگی پسندوں نے کل (جمعے کو) وادی بھر میں احتجاجی ہڑتال کی اپیل کی ہے۔

گذشتہ 24 گھنٹوں کے دوران وادی بھر میں مختلف جھڑپوں کے دوران پانچ عسکریت پسند، ایک شہری اور ایک غیر کشمیری سمیت سات افراد ہلاک ہو گئے۔

تازہ واقعہ سرینگر کے نواحی علاقہ نور باغ میں جمعرات کی صبح اس وقت ہوا جب پولیس اور دیگر فورسز نے عسکریت پسندوں کی موجودگی کے بارے میں خفیہ اطلاع ملتے ہی کئی بستیوں کا محاصرہ کر لیا۔

مقامی افراد کا کہنا ہے کہ محاصرے کے دوران فائرنگ کی آوازیں سنی گئیں اور جب محاصرہ ختم ہوا تو سلیم ملک نامی نوجوان گولیاں لگنے سے ہلاک ہو گیا۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

کشمیر: ’خالی میدان میں الیکشن کی ڈفلی‘

’میری بیٹی کی معصوم آنکھوں نے سب کچھ دیکھ لیا‘

کشمیر: پولیس اور عسکریت پسندوں میں نفسیاتی جنگ

کشمیر: ریاست کے پاس کوئی راستہ نہیں

کشمیر میں جھڑپ، چار انڈین فوجیوں سمیت چھ ہلاک

پولیس کا کہنا ہے کہ اس معاملہ کی تحقیق کی جا رہی ہے تاہم اس ہلاکت کے بعد پوری وادی میں کشیدگی پھیل گئی اور تعلیمی اداروں میں طلبا اور طالبات نے مظاہرے کیے۔

سابق وزیر اور پی ڈی پی کے رہنما الطاف بخاری نے سلیم ملک کی ہلاکت کو بہیمانہ قتل قرار دیتے ہوئے کہا کہ فورسز میں چند عناصر ایسے ہیں جو کشمیر میں بدامنی کی آگ بھڑکا رہے ہیں۔

حکام نے مظاہروں کو روکنے کے لیے ریل اور انٹرنیٹ سروس کو معطل کر دیا۔ اسی دوران گذشتہ دو روز میں سوپور، قاضی گنڈ اور چاڈورہ میں مسلح جھڑپوں کے دوران ایک فوجی اور پانچ عسکریت پسند مارے گئے۔

کپوارہ میں بھی فوج عسکریت پسندوں کے خلاف گھات لگائے بیٹھی تھی جب وہاں سے ایک غیری کشمیری اہلکار کا گزر ہوا۔ فوج نے عسکریت پسند سمجھ کر اس پر فائرنگ کی جس سے وہ ہلاک ہو گیا۔

فوج کا کہنا ہے کہ معاملہ کی تحقیق کی جا رہی ہے۔ علیحدگی پسندوں کے مختلف گروپوں کے اتحاد مشترکہ مزاحمتی قیادت نے شہری ہلاکت کے خلاف کل (جمعے) کو وادی بھر میں ہڑتال کی اپیل کی ہے۔

واضح رہے کہ آٹھ اکتوبر سے جموں کشمیر میں بلدیاتی اور پنچایتی اداروں کے لیے 13 مرحلوں میں انتخابات شروع ہوں گے۔

حکومت ہند نے کئی ہند نواز جماعتوں کی جانب سے بائیکاٹ کے باوجود یہ انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے 50 ہزار نیم فوجی اہلکاروں پر مشتمل اضافی کمپنیاں وادی میں تعینات کی جا رہی ہیں۔

انتخابی عمل میں تعاون کرنے والے سرکاری ملازمین کے لیے ایک مہینے کی اضافی تنخواہ کا بھی اعلان کیا گیا ہے تاہم انتخابات سے ایک ہفتہ قبل مسلح تشدد اور ہلاکتوں میں اضافے سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے ہیں۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسمبلی یا پارلیمان کے لیے ہونے والے انتخابات، پنچایتی یا بلدیاتی انتخابات سے مختلف ہوتے ہیں کیونکہ اسمبلی یا پارلیمان کے امیدواروں کو معقول سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے۔

کالم نگار عبدالقیوم شاہ کہتے ہیں کہ ’یہ انتخابات 40 ہزار سے زیادہ نمائندوں کو منتخب کرنے کے لیے ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ کم از کم دو لاکھ امیدوار میدان میں ہوں گے۔ سکیورٹی کے اعتبار سے یہ خطرہ مول لینا ہے جو حکومت نے اُٹھایا ہے۔‘

خیال رہے کہ کشمیر میں گذشتہ کئی سالوں سے سیاسی عمل معطل ہے۔ وہاں باقاعدہ حکومت کی جگہ گورنر راج ہے اور گورنر کے چند مشیر انتظامی امور چلا رہے ہیں۔

معروف ہند نواز جماعتوں نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی نے حالات کو غیر موزوں قرار دیتے ہوئے ان انتخابات کا بائیکاٹ کیا ہے جبکہ کانگریس اور بی جے پی ان انتخابات میں ایک دوسرے کے مدمقابل ہوں گے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بی جے پی اگلے سال ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے لیے پنچایتی الیکشن کو ایک اہم مشق کے طور استعمال کرے گی۔

سیاسی حلقوں کی تنقید کے بعد کشمیر کے چیف سیکریٹری بی وی سبرامنیم نے کہا کہ ان انتخابات کا مدعا محض بجلی پانی اور سڑک ہے اور یہ عمل عوام پر مسلط نہیں کیا جا رہا ہے بلکہ ان کی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے شروع کیا جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32498 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp