’کنگ میکر‘ اب پردے کے پیچھے کتنا موثر ہو گا؟


جہانگیر ترین، عمران خان اور شاہ محمود قریشی

جہانگیر ترین کو عمران خان کے بہت قریب سمجھا جاتا ہے اور پارٹی کو اس مقام پر لانے میں ان کا بہت اہم کردار ہے

سپریم کورٹ آف پاکستان نے حکمران جماعت تحریکِ انصاف کے اہم رہنما جہانگیر ترین کی نااہلی کے فیصلے پر نظرِثانی کرنے کی درخواست مسترد کرتے ہوئے ان کی تاحیات نااہلی کا فیصلہ برقرار رکھا ہے اور اب اس طرح پی ٹی آئی میں ’کنگ میکر‘ یا بادشاہ گر کہلانے والے جہانگیر ترین عمر بھر پاکستان کی پارلیمانی سیاست میں حصہ نہیں لے سکیں گے۔

یہ خبر یقیناً پی ٹی آئی، حزبِ اختلاف اور پاکستانی سیاست سب کے لیے ایک اہم خبر ہے۔ ایک شخص جسے پاکستان تحریکِ انصاف کو ہر طرح متحرک کرنے کا، چاہے وہ مالیاتی معاملات ہوں یا الیکٹیبلز کو پارٹی میں لانا، کریڈٹ دیا جاتا ہو وہ ایک دم پسِ پردہ چلا جائے یا اس کا کوئی باضابطہ کردار نہ رہے پارٹی کے لیے کسی بڑے دھچکے سے کم نہیں۔ پی ٹی آئی وہ کہتی رہی ہے کہ جہانگیر ترین نے عدالت میں پہلے فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواست دے رکھی ہے اس لیے درخواست پر فیصلہ ہونے تک وہ بے قصور ہیں اور ساتھ ساتھ یہ امید بھی کی جاتی رہی کہ وہ دبنگ انداز میں واپس آ کر پنجاب کی گدی سنبھالیں گے اور شریف برادران کو زبردست ٹکر دیں گے۔ دوسری طرف حزبِ اختلاف کے لیے یہ اہم اس لیے ہے کہ پی ٹی آئی کا ایک بڑا ‘پاور بروکر’ اب مستقل بیک سیٹ پر چلا جائے گا اور خیال ہے کہ کم از کم پنجاب میں پی ٹی آئی کی اندرونی سیاست میں گروپ بندی زیادہ بڑھے گی۔

تاہم تجزیہ کار اور صحافی راشد رحمان سمجھتے ہیں کہ ان کی نا اہلی پر نظرِ ثانی کی درخواست مسترد ہونے سے پی ٹی آئی کے ‘امیر ترین فائنانسیر’ تو تصویر سے باہر چلے جائیں گے لیکن اس کا کوئی فائدہ حزبِ اختلاف خصوصاً پاکستان مسلم لیگ کو بالکل نہیں ہو گا۔ ‘ان کی درخواست بھی تو عدالت نے رد کر دی ہے۔’

راشد رحمان کہتے ہیں کہ جہانگیر ترین ایک تیز سیاستدان ہیں اور انھوں نے پارٹی میں ایسی چال چلی ہے کہ بہت سے ارکانِ پارلیمان ان کے اپنے ہیں جس میں وزیرِ اعلیٰ پنجاب بھی شامل ہیں۔

‘آج کچھ ایسی افواہیں بھی گردش کر رہی تھیں کہ وزیرِ اعلی پنجاب عثمان بزدار کو تبدیل کر دیا جائے گا۔ ان کا اب تک ریکارڈ کوئی اچھا نہیں ہے لیکن اس کا تعلق سپریم کورٹ کے فیصلے سے بالکل نہیں۔ ایسا پہلے سے کہا جا رہا ہے۔ اب یہ کشمکش ہے کہ اگر اگلا وزیرِ اعلیٰ آیا تو وہ کس کا ہو گا۔ شاہ محمود کیمپ کا یا جہانگیر ترین کیمپ کا۔’

تاہم سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ عثمان بزدار کسی اور کے نہیں بلکہ عمران خان کے اپنے لائے ہوئے ہیں۔ ‘میرا نہیں خیال کہ یہ بات کبھی ثابت نہیں ہو سکی ہے کہ عثمان بزدار کو جہانگیر ترین لائے ہیں۔ شاید عمران خان نے انھیں براہ راست چنا ہے چاہے جس کا بھی مشورہ تھا لیکن میرے خیال میں سچ یہ ہے کہ عمران خان کو یہ پسند آئے تھے، ان کی سادگی پسند آئی۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے کہا تھا کہ مجھے کوئی عہدہ نہیں چاہیے تو عمران خان کو ان کی یہ ادا ہی بہت پسند آئی۔’

تاہم سہیل وڑائچ سمجھتے ہیں کہ جہانگیر ترین کی نا اہلی کی درخواست کے رد ہونے سے جہانگیر ترین کی پارٹی کے لیے کی گئی ساری محنت اگر ضائع نہیں ہوئی تو اس کو ایک شدید دھچکہ ضرور لگا ہے۔ اور جو پارٹی نے اور انھوں نے خود پنجاب کو چلانے کے منصوبے بنائے تھے وہ ضرور متاثر ہوئے ہیں۔

‘یہ ضرور کہا جا رہا تھا کہ جوں ہی نظر ثانی کی درخواست منظور ہوتی ہے تو اس کے بعد پنجاب کے معاملات میں فوراً وہ دخل انداز ہوں گے اور شاید عمران خان انھیں کوئی بڑا عہدہ دے دیں۔ لیکن اب شاید وہ پھر پسِ پردہ ہی رہیں لیکن جتنی ان کی پہلے اہمیت تھی شاید اس سے بھی کم ہو جائے جو جہانگیر ترین کی بڑی بد قسمتی ہے کہ انھوں نے اتنی محنت کی’ پارٹی میں اتنے لوگوں کو لے کر آئے، پیسے خرچے لیکن جب وقت آیا تو وہ نا اہل ہو گئے۔’

جہانگیر ترین

حالیہ انتخابات میں جہانگیر ترین نے دوسری جماعتوں کے ساتھ اتحاد بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا

سہیل وڑائچ کے مطابق’یہ بھی کہا جا رہا تھا کہ پنجاب کے اندر پالیسی پلاننگ کی جو ایک کمزوری نظر آ رہی ہے اس کو جہانگیر ترین آ کر درست کر دیں گے۔ ایگریکلچر کی پالیسی، ایریگیشن کی پالیسی، اور کون سا بیوروکریٹ لگانا ہے اور کون سا نہیں لگانا اس پر پی ٹی آئی مکمل طور پر جہانگیر ترین صاحب پر انحصار کر رہی تھی۔ جب جہانگیر ترین صاحب نا اہل قرار پائے اور انھیں پردے کے پیچھے جانا پڑا تو ایسا لگا کہ پسِ پردہ بھی وہ ہی فیصلے کیا کریں گے لیکن اب وہ بہت پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ اور اس فیصلے کے بعد اب انھیں مزید سیاسی پسپائی اختیار کرنا پڑے۔’

‘جتنا ان کا پہلے کردار تھا اور جتنا اب ہے اس میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ پہلے لگتا تھا کہ عمران خان کے بعد اور کہیں کہیں عمران خان سے بھی آگے ان کا کردار تھا لیکن اب پارٹی کے لوگوں نے ان کی جگہ لے لی ہے۔ جو کرسی جہانگیر ترین صاحب نے خالی کی اس پر اب دوسرے لوگ بیٹھ گئے ہیں۔ اور اب اگر کبھی جہانگیر ترین صاحب آتے بھی ہیں تو کبھی میڈیا اعتراض کر دیتا ہے، کوئی سوال اٹھ جاتا ہے یا وہ خود کبھی سمجھتے ہیں کہ کیونکہ میرے پاس کسی منتخب امیدوار والی طاقت نہیں ہے اس لیے مجھے کوئی اہم کردار نہیں ادا کرنا چاہیے۔’

انتخابات اور اس سے پہلے انتخابی مہم میں جو پی ٹی آئی کی سب سے بڑی طاقت نظر آئی تھی وہ اس کے سوشل میڈیا فولوورز تھے۔ ایسا اب بھی ہے شاید پہلے سے بھی زیادہ۔ جب بھی کوئی ایسی بات کہتا یا لکھتا ہے جس میں پی ٹی آئی پر تنقید کا عنصر آتا ہے تو سوشل میڈیا پر ایک فوج اس کے دفاع میں نکل آتی ہے اور اپنی پارٹی اور لیڈر کے لیے ڈٹ جاتی ہے۔

آج کے جہانگیر ترین کے خلاف فیصلے کے بعد بھی ایسا ہی دیکھنے میں میں آیا۔

 

https://twitter.com/SairaAnwer1/status/1035946715323539458

سائرہ انور اپنے ایک ٹویٹ میں لکھتی ہیں کہ ‘جہانگیر ترین ایک حقیقی جنگجو ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ جنگ ہارے ہیں لیکن آپ نے ہمارے دل جیت لیے ہیں۔ پی ٹی آئی کے لیے آپ کا خلوص لازوال ہے اور آپ کی کوششیں ناقابلِ فراموش۔ نئے پاکستان کے لیے آپ کی قربانیوں سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ لمبی زندگی جیئں جہانگیر ترین۔’

مونا عالم لکھتی ہیں کہ ‘میں ان سازشوں کے مفروضے بنانے والے ‘سوڈو انٹیلیکچوئلز’ کو ڈھونڈ رہی ہوں جو کہتے تھے کہ عثمان بزدار پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کے لیے ایک عارضی انتظام ہیں اور سپریم کورٹ سے کلیئرنس کے بعد یہ عہدہ جہانگیر ترین کو مل جائے گا۔’

https://twitter.com/MonaAlamm/status/1045249216556265472

دوسری طرف ایک اور صارف انم خان لکھتی ہیں کہ جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف درخواست کا مسترد ہونا ان کے سیاسی کیریئر کے تابوت میں آخری کیل ہے۔ بادشاہ گر کو اب مستقل طور پر جھوٹا اور مالیاتی دھوکے باز کہہ دیا گیا ہے۔ لیکن وہ ضروری اور طاقتور رہیں کیونکہ ان کے پیچھے وزیرِ اعظم عمران خان ہیں۔

سمیر میر شیخ لکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جہانگیر ترین کی نااہلی کے خلاف اپیل رد کر دی ہے۔ کیا اب وزیرِ اعظم کے پاس ایسی کوئی وجہ ہے کہ انھیں پارٹی یا سرکاری میٹنگز میں بیٹھنے دیں۔ اب تک کسی ادارے نے ان کے سوئس اکاؤنٹس کے بارے میں کوئی آواز کیوں نہیں اٹھائی۔’

https://twitter.com/samirmir/status/1045255176943259648


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp