امل عمر کی موت: ’ایک طرف قانون تو دوسری طرف انسانیت کا تقاضہ‘


امل عمر

کراچی کے علاقے ڈیفینس موڑ، اختر کالونی سگنل پر مبینہ طور پر پولیس افسر کی گولی سے 10 سالہ بچی امل عمر کی ہلاکت کے بعد سے ایک بار پھر نجی اور سرکاری ہسپتالوں کے شعبہ حادثات توجہ کا مرکز بن گئے ہیں۔

ماضی میں کئی ایسے کیس سامنے آچکے ہیں جن میں بروقت علاج نہ ہونے پر مریضوں کے لواحقین کا ہسپتال کے عملے کے ساتھ تصادم اور احتجاج کی صورت اختیار کی۔ لیکن ان کیسز میں زیادہ پیش رفت نہیں ہوسکی اور کچھ مدّت گزرنے کے بعد احتجاج اور ان سے منسلک بحث بھی ختم ہوگئی۔

امل عمر کے کیس میں بھی ان کی والدہ بینش کے نجی اخبار میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں کئی سوالات میں سے ایک ہسپتال کا ان کی بیٹی کو طّبی امداد کے لیے دوسرے ہسپتال بھیجنے پر تھا، جس کے دوران ان کے بقول ان کی بیٹی کی ہلاکت ہوئی۔

سوال یہ اٹھتا ہے کہ کراچی میں موجود ہسپتال اور وہاں کام کرنے والے ڈاکٹر کیا کسی ضابطہ اخلاق کے پابند ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا وہ اس کی پابندی کرتے ہیں؟

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کا ضابطہ اخلاق کیا کہتا ہے؟

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل کے ضابطہ اخلاق میں ڈاکٹروں کے فرائض کی فہرست میں سب سے پہلے مریض کی جان بچانے کو اولیت دینا ہے۔

ساتھ ہی ان قوائد میں یہ بھی واضح طور پر موجود ہے کہ ہنگامی صورتحال میں طبی امداد کو ایک انسانی فرض کی بنیاد پر سرانجام دینا چاہیے۔

ڈاکٹروں کے لیے واضح کیا گیا ہے کہ اپنے معاشی مفاد سے زیادہ مریض کے مفاد کو مدِ نظر رکھا جائے۔

علاج کے دوران اور بعد میں مریض اور اس کے لواحقین کو مرض سے متعلق سب معلومات مہیا کی جائے۔

پی ایم ڈی سی کی پبلک ریلیشنز آفیسر حنا شوکت کے بقول زیادہ تر ہسپتال اور وہاں کام کرنے والے ڈاکٹر اسی ضابطہ اخلاق کے تحت کام کرتے ہیں۔ ’ان کی ڈیوٹی ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی مریض آئے تو اس کو فوری طور پر طبی امداد دیں ورنہ کسی اور ہسپتال ریفر کردیں لیکن اس بات کا تعین جلدی کرنا ہوتا ہے تاکہ مریض کی جان بچ سکے۔‘

چیئرمین سندھ ہیلتھ کیئر کمیشن، ڈاکٹر ٹیپو سلطان نے کہا کہ اس میں دو تقاضے ہیں۔ ’ایک طرف تو قانون ہے لیکن دوسری طرف انسانیت کا تقاضہ بھی ہے۔ قانون ہو یا نہ ہو، اگر میرے پاس کوئی مریض آئے پھر چاہے وہ ٹریفک حادثے میں زخمی ہوا ہو یا گولی لگنے کا واقعہ ہو، میرا فرض ہے کے میں اس مریض کو دیکھوں۔‘

نجی ہسپتال کیوں کتراتے ہیں؟

ایمبولینس

جب یہ سوال آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کی ترجمان سے پوچھا گیا تو انھوں نے کہا کہ آغا خان ہسپتال میں کبھی بھی ذات یا معاشی صورتحال دیکھ کر مریض کو نہیں جھٹلایا جاتا۔ ’ہم بین الاقوامی ضابطوں کے پابند ہیں اور اس ہی کے مطابق کام کرتے ہیں۔ یہ تاثر دینا غلط ہے کے ہم فائرنگ کے واقعات میں میڈیکو لیگل کیس سے بچنے کے لیے مریض واپس بھیج دیتے ہیں۔‘

عمل واقعے کے بعد امن فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ زیادہ تر مریضوں سے وینٹیلیٹر اور ہسپتال میں کمرے کی بکنگ کے لیے اس لیے پوچھنا پڑتا ہے کیونکہ ’اکثر ہسپتالوں میں یہ سہولت نہیں ہوتی اور اس کے لیے پھر دوسرے ہسپتال بھیج دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے زیادہ تر وقت سڑکوں پر گزر جاتا ہے۔‘

ایک اور نجی ہسپتال کے اہلکار نے بتایا کہ اکثر اوقات ساری سہولیات ایک ہسپتال میں نہیں ہوتیں جس کی وجہ سے مریض کو دوسری جگہ بھیجنا پڑتا ہے۔

لیکن اس بات کا جواب کسی نجی ہسپتال کے ترجمان کے پاس نہیں تھا کہ آخر پولیس اور عدالتوں کے ڈر سے مریض کو سرکاری ہسپتال کیوں بھیجا جاتا ہے۔

سرکاری ہسپتال کیا کہتے ہیں؟

لیکن سندھ گورنمنٹ قطر ہسپتال سے منسلک ڈاکٹر شیرشاہ سّید کے مطابق ہسپتالوں کے لیے ایسا کوئی قانون واضح نہیں ہے جس کے مطابق ہسپتال ہر مریض کو دیکھنے کا پابند ہو۔

’ایسا کوئی قانون نہیں ہے۔ اکثر حادثات میں جہاں گولی چلتی ہے، یا چُھری لگنے کا واقعہ ہوتا ہے، ایسی صورتحال میں 99 فیصد ہسپتال والے مریض کو دوسرے ہسپتال ریفر کردیتے ہیں کیونکہ وہ میڈیکو لیگل مسائل میں نہیں اُلجھنا چاہتے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ کوئی ہسپتال نہیں چاہتا کہ ان کے کسی بھی وارڈ میں موت واقع ہو۔ ’اگر کوئی ایسا کیس آتا ہے اور ڈاکٹر اس کو دیکھ لیتا ہے تو پھر اس کو پیشیاں بھگتنی پڑیں گی اور سوالوں کے جواب دینے پڑیں گے۔ کوئی نہیں چاہتا کہ ایسے مریض کا علاج کریں جس کے بعد پولیس تھانے کے چّکر لگانے پڑیں اور اس سلسلے میں قانون کسی ہسپتال کو مجبور نہیں کرسکتا ہے کہ آپ کو علاج کرنا ہی ہے۔ہسپتال اور ان کو پابند کرنے والے ادارے دونوں اس وقت اخلاقی بدحالی کا شکار ہیں۔‘

ڈاکٹر سیمی جمالی دس سال سے زائد کا عرصہ جناح ہسپتال کے شعبہ حادثات کی انچارج اور ڈائریکٹر کے طور پر گزار چکی ہیں۔ عمل عمر کے کیس پر بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ غور طلب بات یہ ہے کہ چوٹ کتنی گہری تھی اور مریض کو کتنی جلدی ہسپتال پہنچایا گیا۔

’کلاشنکوف کی گولی سر کے آر پار ہونے کے کیس میں بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ جان بچ پائےـ لیکن اگر مریض بروقت ہسپتال لایا گیا ہے اور ہسپتال کے عملے نے بروقت اس کو دوسرے ہسپتال پہنچایا ہے تو جان بچ سکتی ہے۔‘

ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی واضح کیا کہ جناح ہسپتال میں صرف کراچی سے ہی نہیں بلکہ پورے پاکستان سے مریض علاج کے لیے آتے ہیں۔ ’ہمارے پاس ایسے مریض بھی آتے ہیں جن کو میڈیکو لیگل کی ضرورت پیش آتی ہے جس کے لیے فوری طور پر اس کو نمٹانا پڑتا ہے۔‘

میڈیکولیگل کیا ہے اور اس کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟

امل کے والدین

                                                           امل کے والدین، عمر اور بینش عادل

میڈیکو لیگل قانونی کارروائی کا ایک اہم حصہ ہے جس کے ذریعے قتل، ٹارگٹ کلنگ اور بیشتر اور جرائم کا سراغ لگانے میں پولیس اہلکاروں اور وکلا کی مدد ہوتی ہے۔ اس میں سر میں لگی گولی سے لے کر لاش میں موجود کسی بھی قسم کے تشدد کے نشان کا جائزہ لے کر تفتیشی رپورٹ بنائی جاتی ہے۔ اس رپورٹ کی بنیاد پر مجرم کون ہے اس کا تعین کیا جاتا ہے جبکہ اس رپورٹ کی غیر موجودگی تفتیشی عمل کو تحس نحس کر سکتی ہے۔

لیکن کراچی کی ڈیڑھ کروڑ آبادی کے لیے شہر کے صرف تین سرکاری ہسپتالوں میں میڈیکو لیگل افسران موجود ہیں جن پر کام کا دباؤ کافی زیادہ ہے۔

کراچی میں دو دہائیوں سے جرائم اور دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑی جارہی ہے جس کے لیے 1990 کی دہائی میں رینجرز کے محکمے کو جرائم، بھتّہ خوری اور اغوا برائے تاوان سے نمٹنے کے لیے وفاقی حکومت کے ذریعے کراچی بلایا گیا تھا۔ اب تک اسی نوعیت کے تین بڑے آپریشن ہوچکے ہیں جن میں سے ایک اب تک جاری ہے۔

لیکن چوری اور ڈکیتی کے واقعات اب بھی پیش آتے ہیں جو عمل عمر اور ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والے واقعے کا سبب بنا۔

عمل کیس میں سپریم کورٹ کی جاری سماعت اور ہسپتال کا موقف

سپریم کورٹ میں چلنے والی زیرِ سماعت ازخود نوٹس کیس میں نیشنل میڈیکل سینٹر کی انتظامیہ نے عمل کے والدین کے موقف کو مسترد کردیا جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ہسپتال کے عملے نے طبی امداد دینے میں کوتاہی دکھائی۔ نیشنل میڈیکل سینٹر کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ والدین عمل کو دوسرے ہسپتال لے جانا چاہتے تھے۔ تاہم عمل کے والدین نے ہسپتال کی طرف سے پیش کی گئی رپورٹ کو ’جھوٹ پر مبنی‘ قرار دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32550 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp