دوسرے ممالک سے اپنی کرنسی کیوں پرنٹ کرائی جاتی ہے؟


انڈین کرنسی

انڈیا میں چین سے مبینہ طور پر کرنسی نوٹ پرنٹ کرانے پر تنازع پیدا ہو گیا تھا

گذشتہ ہفتے لائبیریا کی حکومت نے اعلان کیا کہ اس کے دس کروڑ 40 لاکھ ڈالر گم ہو گئے ہیں۔

رقم کے کھو جانے کا معاملہ کسی بری سرمایہ کاری یا فراڈ کے نتیجے میں نہیں تھا بلکہ حقیقت میں اس کے یہ پیسے لاپتہ ہو گئے تھے۔

لائبیریا کے مرکزی بینک نے بیرون ملک کرنسی نوٹوں کی چھپائی کرائی تھی جو ملک میں پہنچنے کے بعد لاپتہ ہو گئے اور اب حکومت اس معاملے کی تحقیقات کر رہی ہے۔

دریں اثنا گذشتہ عرصے میں انڈیا میں اس وقت ایک تنازع پیدا ہوا جب سوشل میڈیا پر یہ خبریں آئیں کہ ملک کے کرنسی بیرون ملک سے پرنٹ کرائی جا رہی ہے۔

چائنہ ساؤتھ مارننگ کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ چین کی کرنسی نوٹ پرنٹ کرنے والی سرکاری کمپنی کے پاس انڈیا کے کرنسی نوٹس کی پرنٹننگ کا ٹھیکہ تھا۔ اس رپورٹ کے بعد انڈیا میں ملکی سلامتی کے خدشات کا اظہار کیا گیا تھا۔

انڈیا کی حکومت نے ان اطلاعات کی تردید کرتے ہوئے انھیں بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ ملکی کرنسی حقیقت میں ملک کے اندر سخت سکیورٹی میں چار مراکز میں چھاپی جا رہی ہے۔

کیا کرنسی نوٹوں کی بیرون ملک چھپائی عام ہے؟

برطانوی پاؤنڈ

PA
اعلیٰ پرفیشنل معیار کی کئی کمپنیاں دنیا کی زیادہ تر کرنسی نوٹ تیار کرتی ہیں

بعض ممالک جیسا کہ انڈیا کرنسی نوٹوں کی پرنٹننگ ملک کے اندر ہی کرتا ہے اور مثال کے طور پر امریکہ قانونی طور پر اس بات کا پابند ہے کہ بینک نوٹ ملکی حدود کے اندر ہی پرنٹ کیے جائیں۔

اعلیٰ پروفیشنل معیار کی کئی کمپنیاں دنیا کی زیادہ تر کرنسی نوٹ تیار کرتی ہیں۔ بینک نوٹ تیار کرنے والی کمپنی ڈیلا رؤ کے اندازے کے مطابق دنیا میں کمرشل بنیادوں پر نوٹوں کی چھپائی کا حصہ 11 فیصد ہے۔

کرنسی نوٹ تیار کرنے والی زیادہ تر کمپنیاں یورپ اور شمالی امریکہ میں ہیں۔

برطانوی کمپنی ڈیلا رؤ رواں برس برطانیہ کی نئی نیلے پاسپورٹ پرنٹ کرنے کا ٹھیکہ لینے میں ناکام رہی اور کمپنی دنیا میں کرنسی نوٹ تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔

یہ تقریباً 140 سینٹرل بینکوں کے لیے کرنسی نوٹ تیار کرتی ہے اور ہر ہفتے تیار کیے جانے والے نوٹوں کو اوپر نیچے رکھا جائے تو دنیا کی سب سے بڑی چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ کی بلندی کو دو بار چھو سکتے ہیں۔

اس کی حریف جرمن کمپنی گیزاکو اینڈ ڈیفینٹ تقریباً ایک سو مرکزی بینکوں کے لیے نوٹ پرنٹ کرتی ہے جبکہ کینیڈا کی بینک نوٹ تیار کرنے والی کمپنی کے علاوہ امریکہ اور سویڈن میں موجود کرین کمپنی بھی بڑے پلیئرز ہیں۔

اگرچہ یہ ایک بڑا کاروبار ہے لیکن اس میں کسی حد تک راز داری بھی ہے۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

انڈین کرنسی کی چھپائی چین میں؟ دہلی کہتا ہے نہیں

انڈیا کو کرنسی کی قلت کا سامنا، ہزاروں اے ٹی ایم بند

بی بی سی نے نوٹ تیار کرنے والی متعدد کمپنیوں سے رابطہ کیا تو سب نے یہ معلومات دینے سے انکار کیا کہ وہ کس ملک کے مرکزی بینک کے لیے نوٹ تیار کرتی ہیں جبکہ کئی حکومتیں بھی اس معاملے پر بات کرنے پر رضامند نہیں ہوتی ہیں۔

اس کی وجہ سے انڈیا میں پائے جانے والے غصے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ معاملہ لوگوں کے لیے کتنا حساس ہوتا ہے کہ ان کی کرنسی کسی دوسرے ملک میں چھاپی جا رہی ہے۔

ڈرہم یونیورسٹی سے منسلک کرنسی کی تاریخ کے ماہر ڈنکن کونرز کے مطابق ’یہ قوم پرستی کا معاملہ بن جاتا ہے۔‘

کرنسی نوٹ ملک خود کیوں نہیں پرنٹ کرتے؟

جزائر سلیمان

چھوٹے ممالک مہنگی ٹیکنالوجی کی وجہ سے اپنے کرنسی نوٹ پرنٹ نہیں کرتے

بنیادی طور پر یہ ایک مہنگا اور مشکل کام ہے۔ کرنسی نوٹ پرنٹ کرنے والی کمپنیاں کئی سو سال پہلے سے یہ کام کر رہی ہیں۔

ان کے پاس خصوصی ٹیکنالوجی ہے اور اس کے ساتھ انھوں نے سکیورٹی کے حوالے سے اپنی ساکھ قائم کی ہے۔

ڈیلا رؤ نے 1860 میں کرنسی نوٹ پرنٹ کرنا شروع کیے تھے اور اس نے بینک آف انگلینڈ کے پانچ اور دس مالیت کے پلاسٹک کے کرنسی نوٹ تیار کیے۔

چھوٹے ممالک کے لیے بڑی حد تک یہ سمجھ آتا ہے کہ وہ کرنسی نوٹوں کر پرنٹننگ کا کام کسی دوسرے ملک کو دے دیں کیونکہ مہنگی مشینیں خریدنا فائدہ مند نہیں ہو سکتا جب آپ نے کم مالیت کے چھوٹے نوٹوں کو پرنٹ کرنا ہے۔

اس میں ایک اور چیز تیزی سے بدلتی جدید ٹیکنالوجی کا حصول بھی ہے جس کے ذریعے آپ جعل سازی کو روک سکتے ہیں۔

اس بارے میں مزید پڑھیے

‘کرپٹو کرنسی خطرناک ہے’

’12 لاکھ روپے سے زیادہ کے نوٹ چوہے کھا گئے‘

پاکستان میں ڈالر ’تاریخ کی بلند ترین سطح پر‘ پہنچ گیا

بینک نوٹ تیار کرنے والی ایک کمپنی سال میں تقریباً 1.4 کھرب نوٹ تیار کرتی ہے اور اگر کوئی سینٹرل بینک اس سے کم نوٹ تیار کرتا ہے تو اس کے لیے مالی طور پر فائدہ مند نہیں رہتا جبکہ امریکہ اندازاً سالانہ سات ارب نوٹ پرنٹ کرتا ہے۔

چھوٹے ممالک جیسا کہ جزائر سلیمان جس کی کی آبادی چھ لاکھ نفوس پر مشتمل ہے اور کے کرنسی نوٹ ڈیلا رؤ ڈیزائن اور پرنٹ کرتا ہے۔ دیگر موجود معلومات کے مطابق مقدونیہ اور بوٹسوانا بھی برطانوی کمپنی سے اپنے نوٹ پرنٹ کراتا ہے۔

کیا ایسا کرنا پرخطر ہے؟

معمر قذافی

لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے اقتدار کے آخری دور میں برطانیہ نے دینار کر ترسیل روک دی تھی

انڈیا میں زیادہ تر خدشات ملکی سلامتی سے متعلق تھے جس میں خاص کر ملک کا چین کے ساتھ سرحدی تنازع بھی چل رہا ہے لیکن کیا کسی دوسرے ملک سے اپنے کرنسی نوٹ پرنٹ کرنے پر خدشات مناسب ہیں۔

جس میں بہترین مثال لیبیا کی ہے جب 2011 میں برطانیہ نے اس کے 92 کروڑ 90 لاکھ پاؤنڈ مالیت کے دینارز روک دیے تھے جس میں سے تقریباً 14 کروڑ پاؤنڈ مالیت کے دینار برطانوی کمپنی ڈیلا رؤ نے پرنٹ کیے تھے۔

برطانوی حکومت کے اس اقدام سے لیبیا کے رہنما معمر قذافی کے اقتدار کے آخری دنوں میں ملک میں کرنسی نوٹوں کی قلت پیدا ہو گئی تھی۔

تو بعض معاملات میں غیر ملکی حکومت کرنسی نوٹوں کی ترسیل روک سکتی ہے لیکن یہ بہت ہی غیر معمولی اقدام ہوتا ہے۔

لیبیا کے معاملے پر کرنسی نوٹ تیار کرنے والی کمپنیوں کو شدید حیرت ہوئی تھی تاہم اس کی وجہ سے دوسرے ممالک سے کرنسی نوٹ پرنٹ کرانے کے رجحان پر زیادہ اثر نہیں پڑا تھا۔

نظری اعتبار سے ایک ملک کو اس صورت میں نقصان پہنچایا جا سکتا ہے جب غیر ملکی کمپنی سینٹرل بینک کی جانب سے دی گئی اجازت سے زیادہ نوٹ پرنٹ کر لیں اور ملکی معیشت میں ضرورت سے زائد نوٹوں کی ترسیل سے ملکی معیشت پر خراب اثرات مرتب ہو سکتے ہیں جس میں مہنگائی کی شرح میں اضافہ وغیرہ شامل ہے۔

اس کے علاوہ اندیشہ ہوتا ہے کہ غیر ملک سے نوٹ پرنٹ کرانے کی صورت میں اسے کرنسی نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز کے بارے میں علم ہو جائے گا اور ممکن ہو سکتا ہے کہ نوٹوں کی اضافی چھپائی کا فراڈ کرے۔

ڈرہم یونیورسٹی سے منسلک کرنسی کی تاریخ کے ماہر ڈنکن کونرز’ ان ممالک میں اعتماد کے حوالے سے مسئلہ پایا جاتا ہے کیونکہ ان کے ملک میں جعلی کرنسی کی چھپائی کی بدعنوانی بہت زیادہ ہوتی ہے۔ ‘

اگرچہ اس میں زیادہ خطرہ نہیں لیکن زیادہ تر کرنسی ممالک خود ہی پرنٹ کر رہے ہیں۔

انٹرنیشنل کرنسی ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر گیوم لیپک کا کہنا ہے کہ’ زیادہ تر ممالک اپنی کرنسی خود ہی پرنٹ کرتی ہیں اور کرنسی کی چھوٹی مقدار کو کمرشل انڈسٹری سے پرنٹ کرایا جاتا ہے۔‘

اس وقت کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ نہیں جو کرنسی کی پرنٹننگ کی نگرانی کرتی ہے۔

کیا مستقبل میں کیس کی ضرورت رہے گی؟

وی چیٹ

چین میں وی چیٹ ایپ سے الیکڑانک ادائیگیوں میں اضافہ ہو رہا ہے

بہت زیادہ لوگ کیش یا نقدی پر انحصار نہیں کرتے ہیں۔ جس میں مختلف ایپس جیسے طریقوں سے رقم کی ادائیگی کی جاتی ہے اور ان جدید طریقوں نے کرنسی نوٹوں سے زیادہ سہولت پیدا کی ہے۔

چین کے پیپلز بینک کے مطابق 2016 میں موبائل کے ذریعے رقم کی ادائیگیوں کی وجہ سے صرف ریٹئل خریداری میں 10 فصید کیش کی صورت میں ادا کیا گیا۔

اس کے برعکس انڈسٹری کے ماہر سمیتھر پیرا کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں کرنسی نوٹوں کی مانگ میں اضافہ ہوتا رہے گا اور اندازے کے مطابق سالانہ 3.2 فیصد سے یہ ڈیمانڈ بڑھے گی جس کی اس وقت مالیت ڈالرز میں 10 ارب ہے۔

ایشیا اور افریقہ میں کرنسی نوٹوں کی پرنٹننگ میں سب سے زیادہ اضافہ ہو رہا ہے تو ہم ابھی کیش کے بغیر دور میں نہیں آئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32541 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp